... loading ...
گجرات وہماچل میں اسمبلی اور ایم سی ڈی کے ساتھ کچھ اہم ضمنی انتخابات کے نتائج سامنے آگئے ہیں۔ گجرات میں جہاں 27برسوں سے قایم اقتدار کو بی جے پی نے برقرار رکھا ہے تو وہیں ہماچل پردیش اور دہلی میں اس کی شکست ہوئی ہے۔ لیکن گودی میڈیا نے گجرات کی کامیابی کو اتنا بڑھا چڑھاکر پیش کیا ہے کہ ہماچل میں کانگریس اور ایم سی ڈی میں عام آدمی پارٹی کی کامیابی پس منظر میں چلی گئی ہے۔ حالانکہ دہلی ایم سی ڈی (میونسپل کا رپوریشن آف دہلی)پر پچھلے پندرہ سال سے بی جے پی کا ہی راج تھا،جہاں عام آدمی پارٹی نے اسے شکست سے دوچار کردیا ہے۔دہلی اور پنجاب اسمبلی کے بعد یہ عام آدمی پارٹی کی بڑی کامیابی قرار دی جارہی ہے اوراس نے اپنا نام قومی پارٹی کی صف میں شامل کرلیا ہے، لیکن دہلی میں جن مسلمانوں نے پچھلے دواسمبلی چناؤ کے دوران عام آدمی پارٹی کو اپنے سارے ووٹ منتقل کردئیے تھے، وہ اب اس سے دور ہوگئے ہیں۔ اس کے اسباب پر ہم آگے چل کر روشنی ڈالیں گے،آئیے پہلے گجرات اور ہماچل پردیش کے اسمبلی انتخابات اور کچھ اہم ضمنی چناؤ کا جائزہ لیتے ہیں۔
گجرات کے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ وہ پچھلے 27سال سے ہندتو کی لیبارٹری بنا ہوا ہے۔یہاں بی جے پی ہمیشہ ہندتو کے سوال پر ہی الیکشن لڑتی ہے۔اس بار بھی وزیراعظم نریندر مودی اور وزیرداخلہ امت شاہ نے کامیابی کے اسی نسخے کو آزمایا۔ امت شاہ نے تو مسلمانوں کا نام لیے بغیر یہاں تک کہا کہ ہم نے 2002 میں فسادیوں کو ایسا سبق سکھادیا کہ وہ اب کبھی اس بارے میں سوچیں گے بھی نہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ جن نوجوانوں نے گجرات میں کرفیو نہیں دیکھا، ہم انھیں بم دھماکوں سے بچائیں گے۔انتخابی میدان میں ایسے بیانات کا مقصد کیا ہوتا، سبھی جانتے ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گجرات کے عوام نے بی جے پی کو ہی اپنا مسیحا سمجھ کر ہی اسے ریکارڈ کامیابی دلائی ہے۔182نشستوں والی اسمبلی میں اس کے 165امیدورا کامیاب ہوئے ہیں جو اب تک کا سب سے بڑا ریکارڈ ہے۔ بی جے پی نے سب سے زیادہ سیٹیں 1985 میں مادھوسنگھ سولنکی کی قیادت میں جیتی تھیں،جن کی تعداد 149 تھی۔ اس بار گجرات میں کانگریس کی بری ہار ہوئی ہے۔ پچھلے چناؤ میں ۷۷ نشستیں جیتنے والی پارٹی اب محض 17سیٹیوں پر سمٹ گئی ہے اور وہ گجرات میں اپوزیشن لیڈر کا رعہدہ حاصل کرنے سے بھی محروم رہے گی۔ کانگریس کو بڑی کامیابی ہماچل پردیش میں ملی ہے جہاں اس نے 68رکنی اسمبلی میں چالیس سیٹوں پر قبضہ کرلیا ہے۔بی جے پی کو یہاں 25 سیٹیں ملی ہیں۔
ان اسمبلی انتخابات کے ساتھ یوپی میں ہونے والے دوضمنی انتخابات پر سب کی نظریں مرکوز تھیں۔ ان میں پہلا چناؤ سماجودای پارٹی کے بانی آنجہانی ملایم سنگھ یادو کے انتقال سے خالی ہوئی لوک سبھا نشست مین پوری پر ان کی بہو اور اکھلیش یادو کی اہلیہ ڈمپل یادو چناؤ میدان میں تھیں، انھوں نے بی جے پی امیدوار کو دولاکھ88 ہزار ووٹوں سے ہرادیا ہے، لیکن رامپور اسمبلی کے ضمنیچناؤ میں سماجوادی پارٹی کو بری ہار کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ سیٹ اعظم خاں کو نااہل قرار دینے کی وجہ سے خالی ہوئی تھی۔ رامپور کی اسمبلی نشست پر 70فیصد مسلم رائے دہندگان ہیں اور یہاں پہلی بار بی جے پی امیدوار آکاش سکسینہ کو کامیابی ملی ہے۔اعظم خاں اس نشست سے دس بار چنے گئے اور ا س سال کے شروع میں ہوئے اسمبلی چناؤ میں انھوں نے آکاش سکسینہ کو 56ہزار ووٹوں سے شکست دی تھی، لیکن اس ضمنی چناؤ میں ان کے امیدوار عاصم راجہ34ہزار سے زیادہ ووٹوں سے شکست کھاگئے۔ اعظم خاں کا سیاسی کیریر ختم کرنے کے مقصد سے یوگی سرکار نے جو منصوبہ بندی کی تھی، اس میں وہ پوری طرح کامیاب رہی۔یہاں سے بی جے پی امیدوار کی کامیابی میں جہاں اعظم خاں کے کچھ پرانے ساتھیوں کا ہاتھ ہے، وہیں الزام یہ بھی ہے کہ ضلع انتظامیہ نے ان کے حامیوں کو ووٹ ڈالنے سے روکا اور طرح طرح کی رخنہ اندازی کی،جس کے خلاف سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کی ایک عرضی بھی داخل کئی گئی ہے۔
ادھر دہلی میونسپل کارپوریشن کے انتخابات میں عام آدمی پارٹی نے اکثریت حاصل کرلی ہے۔ اسمبلی چناؤ جیتنے کے بعد یہ دہلی میں اس کی دوسری بڑی کامیابی ہے مگر اس الیکشن میں عام آدمی پارٹی کو ایسی یک طرفہ کامیابی نہیں ملی ہے، جیسی پچھلے دواسمبلی انتخابات میں مل چکی ہے۔ عام آدمی پارٹی نے2015 کے چناؤ میں دہلی اسمبلی کی 70 نشستوں میں سے 67پر قبضہ کرلیا تھا اور اپوزیشن کے نام پر بی جے پی کے محض تین ممبرکامیاب ہوئے تھے۔ اس کے بعد2020کے چناؤ میں اس کے 62/امیدوار کامیاب ہوئے، لیکن ایم سی ڈی چناؤ میں بی جے پی کی کارکردگی دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ رائے دہندگان پر عام آدمی پارٹی کی گرفت کمزور ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ دہلیکے مسلم حلقوں میں عام آدمی پارٹی شکست فاش سے دوچار ہوئی ہے۔یہاں مسلمانوں نے کانگریس پر زیادہ بھروسہ کیا ہے۔ایم سی ڈی میں کانگریس کے جو 9 امیدوار کامیاب ہوئے ہیں، ان میں سات مسلمان ہیں۔
جو لوگ ایم سی ڈی چناؤ کو چھوٹا موٹا الیکشن سمجھتے ہیں ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ دہلی میونسپل کارپوریشن کا بجٹ بعض صوبوں سے بھی زیادہ ہے۔اسی لیییہاں ایم سی ڈی الیکشن اسمبلی چناؤ کی طرح ہی لڑا جاتا ہے۔پندرہ ہزار کروڑ روپے کے بجٹ والی یہ میونسپل کارپوریشن دہلی میں شہری سہولتوں کو کنٹرول کرتی ہے۔ 2017کے میونسپل چناؤ میں بی جے پی نے 272سیٹیوں میں سے181 سیٹوں پر قبضہ کیا تھا۔وہ اس الیکشن میں بھی اس کامیابی کو دوہرانا چاہتی تھی۔بی جے پی نے عام آدمی پارٹی کو ہرانے کے لیے ساری طاقت جھونک دی تھی جس کا اثر یہ ہوا ہے کہ وہ ’آپ‘ کی طاقت کم کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ دوسرا سبق اسے ان مسلم علاقوں میں ملا ہے، جہاں شاہین باغ اور نارتھ ایسٹ فسادات کااثر تھا۔ ’آپ‘ کو صرف پرانی دہلی کے مسلم حلقوں میں کامیابی ملی ہے اور وہ بھی اس لیے کہیہاں کے امیدوار اپنے ممبران اسمبلی کی عوامی طاقت پرجیتے ہیں۔ جبکہ اوکھلا میں اس کا ایک مضبوط مسلم ایم ایل اے ہونے کے باوجود چار امیدوار ہارگئے ہیں۔
آپ کو یادہوگا کہ 2020میں جس وقت نارتھ ایسٹ دہلی میں بھیانک فسادات ہوئے تو اس میں عام آدمی پارٹی نے فسادزدگان کی کوئی دادرسی نہیں کی۔خود وزیراعلیٰ کجریوال نے فساد زدہ علاقوں کا دورہ کرنے کی بھی زحمت نہیں کی۔اتنا ہی نہیں جب ان کی پارٹی کے کونسلر طاہر حسین کو دہلی پولیس نے فساد کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا تو عام آدمی پارٹی نے اسے فوراً برخاست کردیااور اس کی بات سننے تک کی کوشش نہیں کی۔ طاہر حسین آج بھی سلاخوں کے پیچھے ہے اور اس پر درجنوں مقدمے قایم کردئیے گئے ہیں۔اس کے بعد جب کورونا کے دور میں تبلیغی جماعت کے مرکز کو کورونا پھیلانے کا ذمہ دار قرار دیا گیا تو اس معاملے میں کجریوال سرکار نے پولیس کی ہاں میں ہاں ملائی۔
دہلی سرکار کے تحت کام کرنے والے مسلم اداروں کے ساتھ بھی کجریوال نے اچھا سلوک نہیں کیا۔ اردو اکیڈمی، اقلیتی کمیشن، حج کمیٹی اور وقف بورڈ جیسے اداروں کی کمان نااہل اور ناکارہ لوگوں کو سونپ کر ان کی اہمیت ختم کردی گئی۔ وقف بورڈ کے تحت مسجدوں کے اماموں کی تنخواہیں تقریباً ڈیڑھ سال سے نہیں ملی ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔بے راہ روی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حج کمیٹی سے عازمین حج کی خدمت کرنے کی بجائے مشاعرے منعقد کروائے گئے۔ عام آدمی پاٹی کی ہندتو نوازی کے سبب ہی مسلمان اس سے بیزار ہوئے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کانگریس ان کا اعتماد کس حدتک قایم رکھتی ہے کیونکہ ’نرم ہندتو‘ اورفرقہ وارانہ فسادات کے معاملے میں کانگریس کا دامن بھی صاف نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔