... loading ...
دوستو،کچھ عرصے قبل ہمارے قابل احترام وزیراعظم صاحب نے ایک تاریخی جملہ کہا تھاکہ۔۔بیگرز آر ناٹ چوزرز۔۔ یعنی بھکاریوں کے پاس کوئی چوائس نہیں ہوتی یا یوں کہہ لیں کہ بھکاریوں کی اپنی مرضی نہیں چلتی۔۔ صرف اسی مقولے پر عمل کرلیا جاتااور ہاتھ پھیلانے سے بچا جاتا، ایسے اقدامات کیے جاتے کہ ملکی معیشت مضبوط ہوتی، آج تک ایسا نہیں ہوسکا۔ معیشت روزبروز خراب ہوتی جارہی ہے۔مہنگائی کسی طور قابو نہیں آرہی۔ جس سے ملو،وہی بندہ ٹینشن میں نظر آتا ہے۔ سب مستقبل سے خوف زدہ لگتے ہیں۔ سب کو انجانا سا خوف ہے کہ کل کیا ہوگا۔چلیں پھر آج بھکاریوں کے حوالے سے کچھ اوٹ پٹانگ باتیں کرلیتے ہیں۔۔
خاتون خانہ نے دروازہ بجاکر بھیک مانگنے والے بھکاری کو ڈانٹے ہوئے کہا۔۔گھر گھر جا کر لوگوں سے بھیک مانگتے ہو تمہیں شرم نہیں آتی؟۔۔بھکاری نے بڑی معصومیت سے جواب دیا۔۔بیگم صاحبہ کیا کروں۔ میرے گھر آکر مجھے کوئی بھیک دیتا ہی نہیں۔۔ایک بیوی اپنے شوہر سے کہہ رہی تھی کہ۔۔ میں گھر پرآنے والے بھکاریوں سے نفرت کرتی ہوں۔۔شوہر نے حیرانگی سے پوچھا۔۔وہ کیوں؟ بیوی کہنے لگی۔۔ میں نے کل ایک بھکاری پر رحم کھاتے ہوئے کھاناکھلادیا اور آج اس نے مجھے ایک کتاب ۔۔کھاناکیسے بنائیں۔۔گفٹ کردی۔۔۔ایک فقیر کسی میمن کے گھر کے باہر چبوترے پر بیٹھ کھانا کھانے لگا، صاحب نے دیکھ لیا، ترس کھا کر فقیر سے پوچھ لیا۔۔ لاؤ روٹی گرم کرکے لادوں۔۔فقیر نے جلدی سے کھانے کو اپنے بڑے تھیلے کے نیچے چھپاتے ہوئے برجستہ کہا۔۔ ناں جی کل سالن دِتا سی او نئیں مُڑیا۔ (کل بیگم صاحبہ کو سالن دیا تھا واپس نہیں آیا)۔۔ایک فقیر نے بنگلے کے برآمدے میں کھڑی ہوئی عورت سے کہا۔ آپ کی پڑوسن نے مجھے پیٹ بھر کے کھانا کھلایا ہے آپ بھی راہ خدامیں کچھ دیجئے۔ عورت بولی ضرور تمہیں میں چورن دوں گی۔۔فقیرنے پھر کہا۔۔۔اللہ کے نام پر میری مدد کرو۔۔ میراگھر ،مال، بال بچے ،روپیہ پیسہ سب کچھ جل گیا۔۔خاتون نے پوچھا۔۔ لیکن اس کا کیا ثبوت ہے کہ تمہارے سب کچھ جل گیا ہے؟ فقیر نے بھولپن سے جواب دیا۔۔ ثبوت بھی تھالیکن گھر کے ساتھ وہ بھی جل گیا۔
ایک فقیر ایک کنجوس امیر آدمی کے پاس گیا اور اسے اپنی درد بھری کہانی سنانا شروع کی۔اس کا لہجہ ایسا تھا کہ امیر آدمی کے آنسو نکل آئے۔ اس نے اپنے نوکر کو آواز دی تو فقیر سمجھا شاید اب کچھ ملے گا۔لیکن نوکر آیا تو امیر آدمی نے اس سے کہا ۔۔اس کم بخت کو دھکے دے کر نکال دو،اس نے رلا رلا کر میرا برا حال کر دیا ہے۔۔ایک بھکاری نے کسی نوجوان سے کہا۔۔بھائی ایک روپے کا سوال ہے؟ نوجوان نے حیرت سے بھکاری کی طرف دیکھا۔۔پھر کہنے لگا۔۔ روپیہ چلتا کہاں ہے؟صرف ایک روپیہ ہی کیوں مانگ رہے ہو؟؟ بھکاری نے جواب دیا۔۔میں آدمی کی اوقات دیکھ کر رہی بات کرتا ہوں۔۔بھکاری نے ایک گھر کے سامنے صدا لگائی تو گھر کی نئی نویلی دلہن نے کہا، جاؤ بابا معاف کرو۔بھکاری کچھ دور گیا تو اس بہو کی ساس نے آواز دے کر بھکاری کو بلایا۔جب بھکاری پاس آیا تو ساس نے کہا، بابا معاف کرو۔بھکاری کو بڑا غصہ آیا، اس نے کہا یہ بات تو آپ کی بہو نے بھی کہی تھی۔ساس نے جواب دیا،مالکن میں ہوں وہ کون ہوتی ہے تم پر رعب جمانے والی۔۔کسی شخص نے بھکاری سے پوچھا۔۔کل تم پْل پہ کھڑے بھیک مانگ رہے تھے آج ٹرک اڈے پر پر کھڑے ہو۔۔بھکاری نے کہا۔۔جناب! میں نے وہ جگہ اپنے بیٹے کو شادی کی خوشی میں تحفہ دے دی ہے۔۔کسی فقیر نے ایک گھر کا دروازہ بجایا، خاتون خانہ باہر آئیں تو بھکاری نے سوال کیا۔۔ کیا آپ کے پاس ایک بھوکے کے لیے کھاناہے؟؟ بیگم صاحبہ نے کہا۔۔ہاں،بالکل ہے، مگر وہ بھوکا ابھی تک آفس سے آیا نہیں ہے۔۔ایک فقیر کسی کنجوس کے گھر سے روتا ہوا باہر نکلا۔۔کسی نے ازرائے ہمدردی پوچھا۔۔کیا ہوگیا،کیوں رو رہے ہو؟؟ اس نے کہا۔۔سوروپے مانگے تو میری پٹائی کی انہوں نے۔۔ پوچھنے والے فقیر پر غصہ آگیا۔۔ کہنے لگا۔۔تم نے حرکت بھی تو مار کھانے والی کی ہے۔ خداکے بندے، فقیر لوگ تو ایک ،دو روپے مانگتے ہیں، تم نے اکٹھے سو روپے مانگ لیے۔۔ فقیر روتے ہوئے کہنے لگا۔۔ جناب ،انہوں نے مجھ سے ادھار لیے ہوئے ہیں۔ وہ واپس مانگ رہا تھا
کسی دکاندار سے ایک فقیر کی اچھی علیک سلیک ہوگئی۔۔ وہ روزانہ بھیک مانگنے آتا تو دکاندار جو کہ نوجوان تھا، ہلکی پھلکی گپ شپ بھی کرلیتا۔۔ ایک روز فقیر نے دکاندار سے کہا۔۔جناب ،میں کوئی معمولی آدمی نہیں ہوں میں نے۔۔پیسہ کمانے کے سو طریقے نامی کتاب لکھی ہے۔۔۔دکاندار نے حیرت سے فقیر کو اوپرسے نیچے تک دیکھا پھر پوچھا۔۔ پھر تم بھیک کیوں مانگ رہے ہو؟ فقیر کہنے لگا۔۔ یہ اس کتاب میں بتائے گئے طریقوں میں سب سے آسان طریقہ ہے۔۔۔ایک بھکاری روزانہ شام کو اپنے مخصوص ٹائم پر ایک گھر کا دروازہ بجاتا، خاتون خانہ اسے دو روٹیاں اور تھوڑا سا سالن دے دیتیں۔۔ ایک روز جب وہ حسب معمول آیا،دروازہ بجایا اور صدا لگائی۔۔ اللہ کے نام پر دیدو۔ تو گھر میں موجود ایک بچی اپنی والدہ کو کہتی ہے کہ امی امی اس کو کچھ بھی نہ دیں۔ والدہ نے پوچھا بھلا وہ کیوں تو بچی نے معصومیت سے جواب دیا کہ روز اللہ کے نام پر مانگ کر لے جاتا ہے اور اِدھر اْدھر گلیوں میں کہیں بیٹھ کر خود کھا لیتا ہے۔۔سڑک کے کنارے ایک فقیر بیٹھا ہوا تھا اس کے پاس کار آ کر رکی اس میں سے ایک آدمی اترا اور فقیر سے بولا۔ کیا تم جوا کھیلتے ہو؟۔فقیر نے کہا۔۔نہیں۔۔ صاحب نے اگلا سوال کیا۔۔کیا تم شراب پیتے ہو؟ فقیر نے حیرت سے اسے دیکھا اور نفی میں گردن ہلادی۔۔صاحب نے پھر پوچھا۔۔کیا کلب جاتے ہو؟ یا تمہاری کوئی گرل فرینڈ ہے؟ فقیر نے پھر دائیں سے بائیں گردن ہلادی۔۔ صاحب نے ایک اور سوال کردیا۔۔ رات کو گھر دیر سے جاتے ہو؟ فقیر نے گھبراکر جواب دیا۔۔نہیں حضور۔۔وہ صاحب فقیر کا ہاتھ پکڑ کر اسے سڑک سے اٹھاتے ہوئے کہنے لگے۔۔اچھا تو پھر میرے ساتھ گھر چلو میں اپنی بیگم کو بتانا چاہتا ہوں جو لوگ یہ سب کام نہیں کرتے ان کی حالت کیا ہوتی ہے۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ہمارے معاشرے کے دو اہم مسائل ہیں۔۔آمدنی سے زیادہ اثاثے اور آمدنی سے زائد بچے۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔