... loading ...
باجوہ صاحب ! گمنامی کہاں؟ بغداد کے صوفی نے رسان سے کہاں تھا: عافیت گمنامی میں ہے، وہ میسر نہ ہو توتنہائی میں، وہ میسر نہ ہو تو خاموشی میں اور وہ بھی میسر نہ ہو تو صحبت ِ سعید میں”۔ اب کہاں گمنامی میسر ، اور گمنامی نہیں تو عافیت کہاں! گم نامی اموی خلفیہ کو موزوں تھی اور تنہائی حضرت ابو ذر غفاری کو زیبا ۔ جنرل ڈگلس میکارتھر پر یہ الفاظ سجتے تھے، مگر آپ کے لبوں پر مچلتے ہوئے یہ ہچکچاتے کیوں رہے؟
“Old Soldiers Never Die, They Just Fade Away”
(پرانے سپاہی کبھی نہیں مرتے، وہ فقط نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں)
۔
امریکی جنرل میکارتھر نے جاپان کے سیاہ ترین دور میں اس کا کنٹرول سنبھالا تھا۔ امریکا نے دوسری جنگ عظیم کے دوران 6 اگست کو ہیروشیما اور 9 اگست 1945ء کو ناگا ساکی پر ایٹمی بم گرائے ۔ ایک کھنڈر کی طرح جاپان ڈھہ رہا تھا۔تب جاپان کے منظر پر شیگرو یوشیدا کی قیادت اُبھرتی ہے۔ وہ ایک ایسی عمر میں اقتدار حاصل کرتا ہے جب دوسرے ریٹائر ہو چکے ہوتے ہیں۔ یہی وہ وقت تھا جب امریکی جنرل میکارتھر اور جاپانی وزیراعظم یوشیدا میں ایک ہم آہنگی قائم ہوتی ہے۔ متصادم ماحول اور ایک متضاد مساوات میں یہ دونوں سماجی، معاشی اور سیاسی طور پر جاپان کو تبدیل کردیتے ہیں۔اس غیر معمولی کامیابی میں جب میکارتھر کے سائے امریکا میں لمبے ہوتے جا رہے تھے، امریکی صدر ٹرو مین اور میکارتھر سیاسی کشمکش میں اُلجھ جاتے ہیں۔ سیاسی نظام ایسے ہی طاقت نہیں پکڑتے۔میکارتھر کے عروج میں امریکی صدر اُنہیں اُٹھا کر باہر پھینک دیتے ہیں۔ ریٹائرڈ جنرل باجوہ کو اپنے آخری خطاب میں امریکی جنرل میکارتھر کے آخری خطاب کے الفاظ کیوں یاد آئے، حیرت ہوتی ہے۔ ہر امریکی صدر کو بھی ایسا خیرمقدم نصیب نہیں ہوتا، جو امریکی جنرل میکارتھر کے حصے میں آیا تھا۔ اُنہیں کانگریس اور سینیٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے لیے مدعو کیا گیا۔ کبھی نہیں ایک جنرل کو کبھی ایسا موقع امریکی سیاسی تاریخ میں نہیں ملا۔ ایسا شاہانہ خیر مقدم تاریخ پر بھی اپنا سحر چھوڑجاتا ہے۔ جنرل میکارتھر نے خود کو اس کا مستحق ثابت کیا تھا۔ یہ اپریل کی 19تاریخ تھی اور سال 1951ئ۔ وہ اپنے عہد کی سب سے بڑی سیاسی مخالفت کے شکار ہونے کے باوجود گونج رہے تھے۔ ارکان کانگریس میکارتھر کے زوردار خطاب کے دوران مبہوت تالیاں بجاتے رہے، تب وہ اپنے اختتامی کلمات ادا کرتے ہیں: پُرانے سپاہی کبھی نہیں مرتے، وہ فقط نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔” پھر وہ شاہانہ انداز سے نیچے اُترتے ہیں۔ تب ایک رکن کانگریس کہتا ہے: اس نے ابھی یہاں خدائی آواز سنی تھی۔” ایک اور رکن نے ازرہِ تفنن فقرہ اچھالا: میکارتھر کی تقریر سے ریپبلکن پارٹی کی آنکھیں بھیگی تھیں اور ڈیمو کریٹس کی پتلونیں۔”
جناب ریٹائرڈ جنرل باجوہ کو میکارتھر کیوں سوجھے؟ اُن کے خطاب کے دوران میں مجمع کی گفتگو مکھیوں کی طرح بھنبھناہٹ کی آواز پیدا کر رہی تھی۔ سوشل میڈیا پر تمام حلقوں سے ہی ”یوم نجات ” کا رجحان بھیڑ پکڑ رہا تھا۔میکارتھر کے کنج ِ لب سے پھوٹنے والے الفاظ تاریخ کی آواز تھے، مگر ریٹائرڈ جنرل باجوہ یہ الفاظ دُہراتے ہوئے تاریخ کے انتقام کی آہٹیںخود سن رہے تھے۔ مناصب کی طاقت سے خودفراموشوں پر نہیں، یہ الفاظ تو سچے سپاہیوں پر سجتے ہیں۔ اختیارات کو اپنی طاقت سمجھ کر زندگی کرنے والوں پر وقت آتا ہے تو گم نامی بھی اُن کے اپنے اختیار میں نہیں رہتی۔ تاریخ اُن گم نامیو ں کی قدر کرتی ہے جو بااختیار لوگ ، اختیار کی جواب دہی کے وفور ِ احساس میں اختیار کرتے ہیں۔ انسانوں کو ریوڑوں کی طرح ہانکنے اور موت بانٹنے کے مناظر دیکھتے ہوئے اموی خلیفہ صرف تین ماہ کے بعد اقتدار سے دست بردار ہو گئے، فرمایا: مجھ میں حکومت کا بوجھ اُٹھانے کی طاقت نہیں۔” گم نامی اُن کو زیبا تھی۔ پھر تنہائی ابوذر غفاری کو شایان ِ شان تھی جو ایک ویرانے میں جابسے۔ خاتم النبیۖ کا فرمان مبارک جن کے متعلق تھا کہ وہ موت کو صحرا میں دیکھیں گے، یہاں تک کہ مسلمانوں کی ایک جماعت اُن کے پاس پہنچے گی۔ حضرت ابوذر غفاری کی قبر ویرانے میں اللہ کے نور سے آباد رہتی ہے۔ کیا وہ منظر ہوگا، جب مسلمانوں کی جماعت دم مرگ اُن کے پاس پہنچی تو اُنہوں نے متانت سے محبوب خدا ۖ کی پیشن گوئی سنائی اور پھر قسم دی کہ تم میں سے جو شخص حکومت کا ادنیٰ عہدہ دار بھی ہو وہ مجھے کفنانے میں شریک نہ ہو۔”حکومت میں رہے ادنیٰ عہدے دار بھی اس قدر آلودہ ہوتے ہیں کہ تنہائیاں اُنہیں گوارا نہیں کرتیں،چہ جائیکہ اعلیٰ مناصب کے حاملین جو انسانوں پر لوہے سے حکومت کرنا چاہتے ہوں۔
ریٹائرڈ جنرل باجوہ کے پاس اپنے آخری خطاب میں کہنے کو کچھ بھی نہیں تھا۔ اُن کے الفاظ اُن کے چھ سالہ عسکری دور سے مناسبت نہ رکھتے تھے۔ وہ ہچکچاتے اور لڑکھڑاتے لہجے میں ایک ایسا خطاب فرما رہے تھے جس پر بولنے اور سننے والے دونوں ہی کو یقین نہ تھا۔ اُن کا چھ سالہ دور پاکستان کے لیے کوئی اچھی خبر نہیںلاسکا۔ مگر اس دور میں ایسے تنازعات نے سراُٹھایا جس کے باعث مسلح افواج کا عوام سے تعلق کمزور ہوا۔عوام کی نظروں میں سا لمیت وطن کے ضامن ادارے کے اعتبارکے حوالے سے جو سوالات پیدا ہوئے وہ آسانی سے ختم نہ ہو سکیں گے، او رجو نقصان ہوا ہے وہ شاید کبھی پورا نہ ہو سکے۔ ریٹائرڈ جنرل باجود اپنے آخری دو دنوں میں بھی اپنی طاقت کے استعمال سے دامن نہ بچا سکے۔ ان آخری دو دنوں میں بھی بعض ایسی گرفتاریاں ہوئیں اور کچھ ایسے مقدمات قائم ہوئے جو اُن کا تعاقب کرتے رہیں گے۔ اُن کی گمنامی کی خواہش کو پورا نہیں ہونے دیںگے۔ ایسا شاید پہلی دفعہ ہوا ہے کہ رخصت ہونے والا فوجی سربراہ مختلف فضیتوں (اسکینڈلز ) کے لیے جواب دہ سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کے بدترین جرنیلوں کی رخصتی کے ایام بھی ایسے نہ تھے کہ اُن کے ساتھ اُن کے اہل ِ خاندان پر بھی سوالات کھڑے کر دیے گئے ہوں۔یہ سوالات ایسے نہیں کہ ریٹائرڈ جنرل باجوہ کو میکارتھر کے الفاظ ڈھارس دے سکیں یا اُن کی گم نامی کی خواہش کو پورا ہونے دیں۔
ریٹائرڈ جنرل باجوہ گم نامی کی خواہش کے ساتھ اس سوال پر غور کر سکتے ہیں کہ وہ اپنے پیش رو فوجی سربراہ سے مختلف رخصتی کے سزاوار کیوں ہوئے؟ جنرل راحیل شریف جب رخصت ہورہے تھے تو سماجی ذرائع ابلاغ (سوشل میڈیا)پر تھینک یو جنرل راحیل کے رجحان جگمگاتے رہے۔ سوالات اُن پر بھی تھے، مگر وہ بے توقیر نہ کیے گئے اور اُن کی رخصتی آبرو مندانہ رہی۔حیرت ہوتی ہے، جنرل راحیل کی رخصتی کے صرف دو ماہ بعد ہی 24 جنوری 2017ء کو ایک خبر چلائی گئی کہ انہیں861کنال (تقریباً 90ایکڑ) زمین لاہور کے قریب بیدیاں روڈ پر الاٹ کی گئی ہے۔ تب اس کی مالیت کا اندازا کم وبیش تین سے چار ارب روپے لگایا جاتا تھا۔ خاص بات یہ تھی کہ یہ زمین جنرل راحیل شریف نے خود ہی اپنے آپ کو الاٹ کی تھی۔ اس خبر نے جنرل راحیل شریف کی مسٹر کلین کی چھوی بُری طرح متاثر کی۔ تب اس خبر کے پیچھے کارگزار عوامل کو کھنگالا گیا تو یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ یہ سارا کھیل جی ایچ کیو سے ہی کھیلا گیا تھا۔ نوازشریف جنرل راحیل شریف سے نالاں تھے۔ جو ڈان لیکس کے فضیتے پر انتہائی برانگیختہ تھے۔ دوسری طرف نئے آرمی چیف (جنرل باجوہ) نوازشریف کا اعتماد حاصل کرنے کی کوششوں میں تھے۔ اس کھیل میں جنرل راحیل شریف کی چھوی کو تختہ مشق بنایا گیا۔ نیا فوجی سربراہ اپنے پچھلے سربراہ کا کبھی بوجھ نہیں اُٹھاتا۔ پھر یہاں تو مسئلہ عوامی نفرت کے ایک سیلاب کا ہے ۔ ریٹائرڈ جنرل باجوہ جو کرتے رہے، اُن کے ساتھ وہی کچھ ہوگا۔ کیونکہ ماضی انسان کا تعاقب کرتا رہتا ہے۔ ریٹائرڈ جنرل باجوہ گم نامی کی خواہش پال سکتے ہیں مگر کیا کریں احمد نورانی ایسے لوگ یہ کرنے نہیں دیتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔