وجود

... loading ...

وجود

کب سدھرے گا پاکستان اور اسکے سیاستدان

اتوار 20 نومبر 2022 کب سدھرے گا پاکستان اور اسکے سیاستدان

 

جب اپنے بھارتی ہم منصب سے انتہائی اہم ملاقات کریگا تو کشمیر یا دیگر امور کے بجائے دبئی کے راستے اپنے خاندان کی شوگر مل کے لیے رعایتی نرخوں پر مشینری فراہم کروانے کی درخواست کریگا اور یہ بھی بتائے گا کہ ان مشینوں پر میڈان انڈیا کا لیبل نہ لگا ہو۔ ایک اور وزیرا عظم جب فوج کو اصرار کرتی ہے کہ اسکو نیوکلیر پروگرام سے متعلق بریفنگ دی جائے، جو کہ اسکا آئینی حق ہے، مگر جب آرمی ہیڈ کوارٹر کے آپریشن روم میں پہنچتی ہے تو امریکی سفیر کو بھی اپنے ہمراہ لیجاتی ہے۔ ایک آمر دنیا کے مسائل کو پاکستان میں درآمد کروا کر ہزاروں افراد کی ہلاکت کا موجب بن جاتا ہے۔ بھارت میں صدر کا عہدہ سیاست کی معراج سمجھا جاتا ہے، اگر وہ کسی پارٹی سے عمر بھر وابستہ رہا ہو۔ مگر اس عہدہ پر پہنچنے پر وہ نہ صرف سیاست کو خیر باد کہہ دیتا ہے بلکہ ایک سرپرست کا کردار ادا کرتا ہے۔ مگر کیا کیجئے مملکت خداداد میں ایک صدردو کشتیوں پر سوار ہوکر ملک کی صدارت اور ایک سیاسی پارٹی کی سربراہی بھی کر تا ہے۔ اب اس طرح کا صدر کیسے عوام اور اداروں میں اپنا بھروسہ قائم کروا سکتا ہے۔ اسی طرح جب پاکستانی عدالت کے سربراہ کو لگتا ہے کہ بس وہی ملک کا نجات دہندہ ہے تو وہ آئے دن وزیراعظم کو سمن کرنے اسکی تذلیل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا ہے۔ احتساب کے نام پر ملکی استحکام کو قربان کرنا پاکستانی عدالتوں سے کوئی سیکھے۔ سابق بھارتی صدر پرناب مکرجی ، جو میرے استاد بھی رہے ہیں، ایک بار بتا رہے تھے کہ ان کو بسا اوقات حیرت ہوتی ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم آخر کب گورننس کے ایشوز کو لیکر کام کرتا ہوگا؟ اقتدار میں آنے اور ہنی مون پیریڈ ختم ہونے کے فوراً بعد ہی پاکستانی وزیر اعظم سیاسی امور کو سلجھانے اور اپنی کرسی بچانے کی تگ و دو میں لگ جاتا ہے۔ جس سے گورننس کے بجائے اس کا پورا وقت سیاسی امور کو سلجھانے میں ہی صرف ہوجاتا ہے۔
اگر پاکستانی سیاست کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو صرف تین وزراء اعظم نے چار سال کی مدت تک حکومت کی ہے۔ جن میں لیاقت علی خان (4سال 63دن)، یوسف رضا گیلانی (4سال 86دن) اور نواز شریف (4سال 53دن ) برسراقتدار رہے ہیں۔ دہلی میں میرے ایک سینئر کولیگ پارسا وینکٹیشور رائوکہتے تھے کہ انتخابات کے بعد پاکستانی عوام جلد ہی اپنے حکمرانوں سے اوب جاتے ہیں۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ آئین میں ترمیم کرکے مدت حکمرانی پانچ سال سے گھٹا کر تین سال کی جائے تاکہ حکومت کو پہلا سال آنے اور سمجھنے میں، دوسرا سال حکومت کرنے میں تیسرا سال سیاسی امور کو سلجھانے اور اگلے انتخاب کی تیاری میں صرف ہو۔ پاکستانی اداروں ، تھنک ٹینکوں و میڈیا کیلئے لازم ہے کہ تحقیق کرکے اس سوال کا جواب تلاش کریں کہ کون سے عوامل ان کے پڑوسی بھارت کو ایک مستحکم اور پاکستان کو ایک ناپائیدار نظام کی طرف لے جانے کے ذمہ دار ہیں؟ پاکستان کے لبرل مدبرین اس سوال پر بس یہ کہہ کر جان چھڑاتے ہیںکہ ان کے ملک میں ملٹری سویلین حکومتی فیصلوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ایسابالکل نہیں ہے کہ بھارت کے سیاسی نظا م میں فوج یا سکیورٹی کا عمل دخل نہیں ہے۔ فیصلہ لیتے وقت ان کی رائے کو خاصی اہمیت دی جاتی ہے۔ مستحکم نظام کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بھارت میں اداروں کو ایک دوسرے کے اوپر بھروسہ ہے۔ فیصلہ سازی ، سیاسی لیڈران ہی کرتے ہیں، مگر ان کو لیتے ہوئے وہ فوج، سکیورٹی، انٹیلی جنس ، عدلیہ کی رائے کو خاصی اہمیت دیتے ہیں۔ پاکستان کی موجودہ سیاسی صورت حال اور اسکے لیڈروں کی پینترہ بازیاں دیکھ کر بھارت کے معروف دلت لیڈر اور دستور ساز کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر بھیم راوامبیڈ کر کا وہ بیان یاد آتا ہے، جو انہوں نے نومبر 1948 کوآئین ساز اسمبلی میں دستور کا مسودہ پیش کرتے ہوئے دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا: ’’دنیا کا کوئی بھی آئین کامل نہیں ہوسکتا ہے۔ اسکو موثر اور قابل استعداد بنانا، روبہ عمل لانے والے افراد اور اداروں کی نیت اور ہیئت پر منحصر ہے۔ اگر اچھے سے اچھا آئین بھی نااہل اور بے ایمان افراد کے ہتھے چڑھ جائے تو بد سے بد تر ثابت ہوسکتا ہے۔اس کو چلانے والے اداروں کے ذمہ داران اگر ذہین، فراخ دل اور بامروت ہوں تو خراب سے خراب تر آئین بھی اچھا ثابت ہوسکتا ہے۔‘
‘ پاکستان میں فوج نے اگر سیاست سے دور رہنے کا فیصلہ کیا ہے تو اس کا خیر مقدم کرناچا ہئے۔ مگر پاکستان کے عوام کے لیے بھی لازم ہے کہ فراخ دل، بامروت اور سنجیدہ افراد کا انتخاب کریں، جو ملک کو استحکام کی طرف گامزن کرانے اور بدعنوانی سے کسی حد تک پاک کرانے میں رول ادا کریں۔ ویسے تو پارلیمانی جمہوریت میں بدعنوانی کا عنصر پیدائشی ہی ہے، جس کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر یہ اس قدر نہ ہو کہ خزانے ہی خالی ہو جائیں۔ ماضی میں سیاسی پارٹیاں عوامی چندے سے چلتی تھیں، جس سے قدرتی طور پر ان کا احتساب بھی ہوتا تھا۔ مگر اب وافر تعداد میں یہ فنڈز کون فراہم کرتا ہے، ایک معمہ ہے ؟ اگر کارپوریٹ گھرانے سیاسی جماعتوں اور منتخب نمائندوں کو فنڈز دیتے ہیں تو اسکے عوض وہ اگلے پانچ سال تک کیا لیتے ہیں، ایک بڑا سوال ہے؟ میڈیا اسٹڈیزادارے کے سربراہ این بھاسکر رائو کے مطابق 2024کے عام انتخابات میں بھارت میں ایک ٹریلین روپے خرچ ہونے کے امکانات ہیں۔ یہی حال کچھ پاکستان کا بھی ہوگا۔ جنوبی ایشیاء میں الیکشن کا کاروبار بلیک مارکیٹ سے زیادہ وسیع اور دست غیب سے زیادہ طلسماتی ہے۔یورپی ممالک نے انتخابی اصلاحات کے ذریعے اس کو کسی حد تک ایڈریس کیا ہے۔ مگر کسی بھی اصلاح کے لیے عوام اور سیاستدانوں کو اپنے طریقوں اور مزاج میںبدلاو لانے کی ضرورت ہے اور اداروں کے لیے بھی لازم ہے کہ اپنے دائرہ کار کو متعین کرکے ایک دوسرے کا احترام کریں۔ ورنہ آئین یا اصلاحات بس کاغذ کے چند ٹکڑے ہی رہ جائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر