... loading ...
حمید الدین فراہی جنوبی ایشیا کےایک بلند پایہ محقق ومفسر تھے۔ فلسفہ نظم قران و ربط آیت وسورپراپنی گراں بہا تحقیقات کے لیے مشہور و معروف ہیں۔ انہوں نے اپنی تحقیقات سے ثابت کیا کہ قران مجید کی آیات وسور باہم مربوط ومنضبط ہیں۔ پوراکلام پاک منظم اور مربوط کلام ہے۔ ہرسورہ کا ایک مرکزی موضوع ہوتا ہےجس کے گرد ساری آیتیں گردش کررہی ہوتی ہیں جسے ہم سورہ کے “عمود” کے نام سے جانتے ہیں- امام حمید الدین فراہی اسلام کے دور جدید کے پہلے عالم تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ فراہی کو عام لوگ ہی نہیں، بلکہ دینی پس منظر رکھنے والے پڑھے لکھے لوگ بھی نہیں جانتے۔ فراہی کے بارے میں اس حقیقت کوعلامہ شبلی نعمانی نے اس طرح بیان کیا تھا: عام قیاس یہ ہے کہ صاحب کمال کسی حالت میں گم نام نہیں رہ سکتا، حمید الدین اس اصول سے استثنا کی ایک عمدہ مثال ہیں”۔ فراہی کا مقام و مرتبہ کیا تھا، اس کے لیے ہم سید سلیمان ندوی کے وہ الفاظ نقل کرنا چاہیں گے جو انہوں نے فراہی کی وفات پر لکھے : اس عہد کا ابن تیمیہ 11 نومبر 1930 (۱۹ جمادی الثانی ۱۳۴۹ ھ) کو اس دنیا سے رخصت ہوگیا، وہ جس کے فضل و کمال کی مثال آئندہ بظاہر حال عالم اسلامی میں پیدا ہونے کی توقع نہیں، جس کی مشرقی ومغربی جامعیت عہد حاضر کا معجزہ تھی، عربی کا فاضل یگانہ اورانگریزی کا گریجویٹ، زہد و ورع کی تصویر، فضل وکمال کا مجسمہ، فارسی کا بلبل شیراز، عربی کا سوق عکاظ، ایک شخصیت مفرد، لیکن ایک جہان دانش! ایک دنیائے معرفت!ایک کائنات علم، ایک گوشہ نشین مجمع کمال، ایک بے نوا سلطان ہنر، علوم ادبیہ کا یگانہ، علوم عربیہ کا خزانہ، علوم عقلیہ کا ناقد، علوم دینیہ کا ماہر، علوم القرآن کا واقف اسرار، قرآن پاک کا دانائے رموز، دنیا کی دولت سے بے نیاز، اہل دنیا سے مستغنی، انسانوں کے رد و قبول اور عالم کی داد و تحسین سے بے پروا، گوشہ علم کا معتکف اور اپنی دنیا کا آپ بادشاہ ۔ وہ ہستی جوتیس برس کامل قرآن پاک اور صرف قرآن پاک کے فہم و تدبر اور درس وتعلیم میں محو، ہرشے سے بے گانہ اور شغل سے ناآشنا تھی، افسوس کہ ان کاعلم، ان کے سینہ سے سفینہ میں بہت کم منتقل ہو سکا … یہ ہستی آئی اور چلی گئی، لیکن دنیا ان کی قدرومنزلت کو نہ پہچان سکی اور ان کے فضل وکمال کی معرفت سے ناآشنا رہی”۔
(سید سلیمان ندوی، یاد رفتگاں ۱۲۴)
پیدائش
مولانا فراہی کی جائے پیدائش بھارت کے صوبہ یوپی (موجودہ اترپردیش) ضلع اعظم گڑھ کا ایک گاؤں پھریہا ہے۔ پھریہا اس ضلع کا ایک مشہور گاؤں ہے، پھریہا کی معلوم تاریخ بس اسی قدر ہے کہ یہ شبلی نعمانی کا ننھیال اور فراہی کا وطن ہے۔ مولانا فراہی کی پیدائش ان کے جدی مکان میں 6 جمادی الثانی 1230ھ بروز بدھ بمطابق 18 نومبر 1863ء کو ہوئی۔
شجرہ نسب
ابو احمد حمید الدین فراہی (انصاری) بن عبدالکریم بن قربان قنبر بن تاج علی بن قائم علی بن دائم علی بن بہاء الدین۔
آباء و اجداد
مولانا حمید الدین فراہی کا نسبی تعلق صدر اول کے مسلمانوں کی دوسری وحدت سے معلوم ہوتا ہے لیکن بعض قرائن اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ ان کا تعلق انصار مدینہ سے ہے۔ یہی وجہ تھی کہ مولانا کے خاندان کے بہت سے افراد اپنے نام کے ساتھ ایک عرصہ تک انصاری لکھتے رہے۔
وجہ تسمیہ
مولانا فراہی کے نام کے بارے میں مختلف بلکہ متضاد آراء اور روایات ملتی ہیں تحریری دستاویزات میں حمید الدین اور عبدالحمید دونوں نام کثرت سے موجود ہیں اور اہل علم نے اپنے اپنے انداز سے اس کی توجیہ بھی کی ہے۔ مولانا فراہی کی وفات پرسید سلیمان ندوی نے پہلے ایک شذرہ اور اس کے بعد ایک مقالہ لکھ کر معارف میں شائع کیا اس میں نام کے بارے میں لکھتے ہیں کہ: مولانا کا اصلی نام تو حمیدالدین تھا مگر وہ اس نام کو جو دراصل عربی قاعدے سے لقب ہے اپنے لیے معنوی حیثیت سے بلند سمجھتے تھے اس لیے وہ عربی تصانیف میں اپنا نام عبدالحمید لکھتے تھے اور تمام بڑے عالمانہ آداب و القاب چھوڑ کر صرف معلم کہلانا پسند کرتے تھے۔ بنا بریں وہ اپنا نام المعلم عبدالحمید الفراہی کتابوں کی لوحوں پر لکھا کرتے تھے۔
نسبت فراہی
فراہی مولانا کا نسبتی نام ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کو اتنی شہرت حاصل ہوئی کہ اصل نام بھی پس منظر میں چلا گیا۔ آج کہیں مولانا کا ذکر آتا ہے تو یہی نام لیا جاتا ہے۔ مولانا نے یہ نسبت کس کی طرف سے اختیار کی اور اس کا ماخذ کیا ہے؟ سید سلیمان ندوی کا خیال اور جو قرین قیاس بھی معلوم ہوتا ہے کہ “یہ نسبت مولانا کے آبائی گاؤں پھریہا کی طرف ہے۔ اسی پھریہا کو عربی شکل دے کر مولانا اپنے نام کے ساتھ فراہی لکھا کرتے تھے۔
تعلیم وتربیت
مولانا فراہی کے ہاں واضح طور پر رسمی تعلیم کے دو دور ہیں اور ان میں ہر دور اپنی جگہ نمایاں اور مکمل ہے۔ تعلیم کے پہلے دور میں انہوں نے دینی تعلیم کے علاوہ عربی اور مشرقی علوم سیکھے جس کی تکمیل نجی تعلیمی درسگاہوں میں ہوئی۔ دوسرے دور میں انہوں نے انگریزی اور مغربی علوم کی تحصیل کی جس کیلئے سرکاری تعلیم گاہوں میں داخلہ لیا۔
دینی تعلیم
مولانا فراہی کی ابتدائی تعلیم اس وقت کے شرفاء کی طرح گھر پر ہوئی۔ اس کا آغاز دستور کے مطابق ناظرہ اور حفظ قرآن سے ہوا۔ راجہ پور سکرور کے حافظ احمد علی مرحوم نے گھر پر رہ کر حفظ کرایا۔ مولانا نے خود بھی اپنے حالات زندگی تحریر کیے تو پیدائش کے بعد جس بات کا ذکر کیا وہ حفظ قرآن ہی ہے۔ مولانا کی خود نوشت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ مرحلہ انہوں نے تقریباً دس سال کی عمر میں طے کر لیا تھا فرماتے ہیں کہ “جب میں نے قرآن مجید حفظ کیا اس وقت میری عمر قریب قریب دس برس تھی”۔ حفظ قرآن سے فارغ ہو کر عام دستور کے موافق پہلے فارسی کی تعلیم لی۔ اس زمانے کا عام طریقہ تعلیم یہ تھا کہ ایک وقت میں ایک ہی مضمون ہی پڑھتے تھے۔ فارسی زبان میں بہت جلد اس قدر ترقی کر لی کہ شعر کہنے لگے شاعری کا مذاق ان میں فطری تھا۔ زبان سے تھوڑی ہی مدت میں اس قدر گہری مناسبت پیدا کرلی کہ اساتذہ کے رنگ میں قصیدے لکھنے لگے۔ مولانا کی عمر ابھی چودہ برس ہی تھی کہ طلب علم میں وہ پھریہا سے اعظم گڑھ آئے اور شبلی نعمانی سے پڑھنا شروع کیا۔ یہ 1877ء کا سال تھا مولانا فراہی کی تعلیم وتربیت میں شبلی کا خاصا حصہ ہے۔ اس حوالے سے مولانا فراہی خود لکھتے ہیں کہ ”میں نے چودہ برس کی عمر میں عربی زبان پڑھنا شروع کی اور درس نظامی کی اکثر کتابیں پھوپھی زاد بھائی علامہ شبلی سے پڑھیں، تعلیم وتربیت میں مولانا شبلی سے کسب فیض کرنے کے بعد مولانا فراہی نے وقت کے مشہور اساتذہ کے حلقہ دروس سے مستفید ہونے کا ارادہ کیا۔ اس سلسلہ میں وہ قدم بقدم مولانا شبلی کے نقش قدم پر چلتے نظر آتے ہیں اس زمانہ میں مولانا ابوالحسنات عبدالحئی لکھنوی فرنگی محلی کے حلقہ دروس کی بڑی شہرت تھی۔ چنانچہ فقہ کی تحصیل کے لیے مولانا فراہی نے کچھ مدت تک عبدالحئی لکھنوی کے حلقہ دروس میں شرکت کی، وہاں مولانا فضل اللہ انصاری جو معقولات کے ماہر تھے سے بھی استفادہ کیا لیکن مولانا کی طبیعت ابتداء ہی سے تحقیق پسند واقع ہوئی تھی اور انکے اس ذوق کو مولانا شبلی کے فیض صحبت نے مزید ابھار دیا تھا لہٰذا وہ زیادہ عرصہ لکھنؤ میں نہ رکے اسی دوران مولانا فراہی نے تقریباً ان تمام مراکز علم کا رخ کیا جو مولانا شبلی کا مرجع رہ چکے تھے۔ مولانا فراہی کے تعلیمی کا سفر کا ذکر کرتے ہوئے انکی آخری عمر کے تلمیذ امین احسن اصلاحی ایک جگہ لکھتے ہیں ”مولانا فراہی نے لکھنو چھوڑنے کے بعد لاہور کا سفر کیا اور لاہور میں مشہور ادیب مولانا فیض الحسن سہارنپوری مرحوم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ مولانا فیض الحسن مرحوم اس وقت اورینٹل کالج لاہور میں پروفیسر تھے اور عربی ادب میں پورے ملک کے اندر اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ ادب میں مولانا شبلی بھی انہی کے شاگرد تھے۔ مولانا فراہی نے انکی شاگردی سے پورا فائدہ اٹھایا اور مولانا فیض الحسن موحوم نے بھی بڑی شفقت کے ساتھ مولانا کو علوم ادب کی تکمیل کرائی۔
انگریزی تعلیم
مولانا فراہی نے دینی تعلیم 82-1883ء تک مکمل کرلی تھی۔ اس کے بعد وہ بیماریوں کا شکار رہے اور کچھ عرصہ کے بعد انگریزی زبان مروجہ مضامین کی پڑھائی شروع کی۔ مولانا خود فرماتے ہیں کہ”اس کے بعد میں بیماریوں کا شکار رہا اور سال بھر کسی پڑھائی میں نہ لگ سکا، پھر انگریزی زبان اور مروجہ مضامین کی پڑھائی شروع کی۔ مولانا فراہی کے فرزند محمد سجاد صاحب مرحوم کے بیان کے مطابق مولانا فراہی نے پہلے مڈل پاس کیا اور پھر کرنل گنج اسکول الہ آباد سے پرائیویٹ طور پر میڑک کا امتحان دیا تاکہ وقت کم صرف ہو وقت ہی کے خیال سے کچھ پڑھائی اسکول سے باہر بھی کرنی پڑی۔ انٹرنس اور علی گڑھ کالج میں داخلے کے بارے میں سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں کہ ”اس زمانہ میں انگریزی پڑھنا کفر سمجھا جاتا تھا مگر یہ کفر مولانا نے توڑا۔ نج کے طور پر انگریزی کچھ پڑھ لینے کے بعد کرنل گنج اسکول الہ آباد میں داخل ہوگئے انٹر نس کا امتحان پرائیویٹ طور پر دے کر ایم او کالج علی گڑھ میں داخل ہوئے۔ یہ علی گڑھ کالج کے اوج کا زمانہ تھا۔ سرسید اس کے ناظم اعلیٰ مسٹر آرنلڈ اوربک وغیرہ اس کے پرنسپل اور پروفیسر، مولانا شبلی نعمانی اس کے مدرس اور مولانا حالی وہاں کے مقیم وساکن تھے۔ ہر وقت علمی مسائل و تحقیقات کے چرچے رہتے تھے اور ان بزرگوں کی صحبتیں حاصل تھیں جن میں ہر ہونہار طالب علم کے فطری جوہر کے چمکنے کا موقع حاصل تھا۔ مولانا فراہی عربی، فارسی اور دینیات میں اس قدر مہارت پیدا کرچکے تھے کہ کالج میں انہیں ان اسباق سے مستثنیٰ کردیا گیا۔ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں کہ ”اس زمانے میں کالج کے ہر طالب علم کو عربی اور فارسی بھی لازماً پڑھنی پڑھتی تھی مگر سرسید نے ان کے متعلق پروفیسر آرنلڈ کو لکھ بھیجا کہ حمید الدین عربی اور فارسی کے ایسے فاضل ہیں جیسے آپ کے کالج کے استاد اور پروفیسر ہیں اس لیے ان کو مشرقی علوم کے گھنٹوں (پیریڈز) سے مستثنیٰ کردیا جائے، چنانچہ وہ مستثنیٰ کیے گئے۔ علی گڑھ میں مولانا فراہی نے انگریزی اور دوسرے علوم کے ساتھ ساتھ خاص توجہ سے فلسفہ جدیدہ (ماڈرن فلاسفی) کی تحصیل کی اور اس میں امتیاز حاصل کیا۔ مولانا فراہی نے فلسفہ جدیدہ اسی کالج میں معروف مستشرق پروفیسر آرنلڈ سے پڑھا، مگر عجیب بات یہ ہے کہ انکی زبان اور قلم سے بھول کر ایک دفعہ بھی ان کا نام نہیں نکلا ان (پروفیسر آرنلڈ) کے متعلق مولانا کے ذہنی رویے کا اندازہ اس سے بخوبی ہوسکتا ہے مزید وضاحت امین احسن اصلاحی کے اس بیان سے ہوتی ہے کہ ”مولانا نے فلسفہ کے درس تو ان (پروفیسر آرنلڈ) سے ضرور لیے لیکن ان سے خوش نہیں تھے۔ وہ آرنلڈ صاحب کو بھی اسی بساط سیاست کا ایک مہرہ سمجھتے تھے جو انگریزوں نے علی گڑھ میں بچھا رکھی تھی۔ علی گڑھ کا حلقہ پروفیسر آرنلڈ صاحب کی کتاب (Preaching of Islam) کا مداح تھا، لیکن مولانا فراہی اس کتاب کے سخت مخالف تھے۔ وہ فرماتے تھے کہ یہ کتاب مسلمانوں کے اندر سے روح جہاد ختم کرنے کے لیے لکھی گئی ہے۔
علی گڑھ کے ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا فراہی کو میرٹ اسکالر شپ ملتا تھا داخلے کے دو سال بعد 1893ء میں الہٰ آباد یونیورسٹی سے سیکنڈ ڈویژن میں انٹر میڈیٹ کا امتحان پاس کیا۔ اس سال فرسٹ ڈویژن میں کوئی طالب علم پاس نہیں ہوا، دو سال بعد 1895ء میں مولانا فراہی نے الہٰ آباد یونیورسٹی سے بی اے کا امتحان بھی سیکنڈ ڈویژن سے پاس کیا۔ 1895ء کے اوائل میں مولانا فراہی بی اے سے فارغ ہو چکے تھے وہ چاہتے تھے کہ اسی سال پہلی فرصت میں ایم اے عربی کا امتحان دے ڈالیں۔ عربی کے وہ اسکالر تھے۔ انہیں کسی خاص تیاری کی ضرورت نہ تھی، اس لیے وہ بلا تاخیر امتحان میں بیٹھنا چاہتے تھے مگر چند ناگزیر وجوہات کی بناء پر وہ ایم اے نہ کر سکے۔ اس سلسلے میں امین احسن اصلاحی صاحب لکھتے ہیں کہ: ”بی اے کی ڈگری مولانا نے الہٰ آباد یونیورسٹی سے لی، اس کے بعد ایم اے کے لیے بھی تیاری کی، لیکن اس کے امتحان میں نہیں بیٹھے، اسکی وجہ غالباً یہ ہوئی کہ جہاں تک تحقیق وتنقید کا تعلق ہے اسکی راہیں تو ان کے لیے کھل چکی تھیں، اب محض ڈگری کی خاطر امتحان دیتے پھرنا انکی طبیعت کے بالکل خلاف تھا، ایم اے کا خیال ترک کرنے کے بعد مولانا فراہی نے مروجہ قانون (ایل ایل بی) پڑھنا شروع کردیا جس کا ذکر انہوں نے ان الفاظ میں کیا ہے: اور اس کے بعد دو سال تک ناپسندیدگی کے باوجود مروجہ قانون (ایل ایل بی) کا مطالعہ کرتا رہا، پھر اسے چھوڑ کر تدریس شروع کر دی۔
عملی زندگی کا آغاز
فراہی علیہ الرحمہ نے عملی زندگی کا آغاز سندھ مدرسہ کراچی میں بحیثیت معلم کیا۔ کراچی میں 1897ء سے 1904ء تک دس سالہ قیام میں فراہی کو وہ فرصت میسر آ گئی کہ وہ قرآن پر اپنے اس کام کا آغاز کریں جو ایک نئے دور کی نوید بننے والا تھا۔ قرآن کی تفسیر اور علم قرآن پر متعدد تصانیف آپ نے یہیں تحریر کیں۔ کراچی کے بعد وہ ایم اے او کالج علی گڑھ، میور سینٹرل کالج الہٰ آباد اورعثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد دکن جیسے نمایاں تعلیمی اداروں میں پڑھاتے رہے۔ 1919ء میں آپ اپنے آبائی وطن لوٹ آئے اور پھر آخری وقت تک مدرسۃ الاصلاح، سرائے میر کی نظامت کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ ۱۱ نومبر 1930 کے دن حمید الدین فراہی کا انتقال ہوگیا۔
علمی و قرانی خدمات
امام فراہی نے اپنے پیچھے بہت بڑا علمی کام چھوڑا۔ ان میں سے کچھ ان کی زندگی میں اور کچھ بعد میں شائع ہوا۔ ان کا بیش تر کام عربی میں تھا جن میں بہت سی کتابوں کا ترجمہ اردو میں ہوچکا ہے۔ ان میں سب سے مشہور ’’مجموعہ تفاسیر فراہی‘‘، ’’اقسا م القرآن‘ ‘اور ’’ذبیح کون ہے؟‘‘ ہیں، تاہم فراہی کا اصل سرمایہ وہ دو شاگرد تھے جو انھوں نے اپنی زندگی کے آخری عرصہ میں مدرسۃ الاصلاح میں تیار کیے۔ ان میں سے ایک اختر احسن اصلاحی تھے جنہوں نے فراہی کے بعد مدرسۃ الاصلاح کی ذمہ داری سنبھالی۔ دوسرے شاگرد امین احسن اصلاحی تھے۔ یہی وہ امین احسن تھے جو فراہی کے فکر کے امین بنے اور اگلی پون صدی تک اسے اپنی غیر معمولی علمی و ادبی صلاحیتوں سے سینچتے رہے۔ فراہی، علم کا ایک پوشیدہ خزانہ تھے۔ فکر فراہی کا امتیاز یہ ہے کہ اس کے ائمہ نے نہ صرف قرآن مجید کو دین کی بنیادی کتاب مانا ہے، بلکہ فہم دین میں اسے عملاً یہ مقام دیا بھی ہے۔ ان کے نزدیک قرآن ہی وہ میزان، یعنی ترازو ہے جس پررکھ کر اور فرقان، یعنی کسوٹی (Touchstone) ہے جس پہ پرکھ کر دین کے نام پر پیش کی جانے والی ہر دوسری شے کی حیثیت متعین کرنی چاہیے۔ قرآن پاک پروردگار عالم کا کلام ہے۔ اس کا فیصلہ آنے کے بعد کسی دوسری بات اور نقطۂ نظر کو قبو ل کرنا ممکن نہیں رہتا۔ اس بات کی وضاحت میں جاوید احمد صاحب غامدی لکھتے ہیں : دین میں ہرچیز کے رد وقبول کا فیصلہ اِس (قرآن) کی آیات بینات ہی کی روشنی میں ہوگا۔ ایمان و عقیدے کی ہر بحث اِس سے شروع ہو گی اور اِسی پر ختم کر دی جائے گی۔ ہر وحی، ہر الہام، ہر القا، ہر تحقیق اور ہر رائے کو اِس کے تابع قرار دیا جائے گا اور اِس کے بارے میں یہ حقیقت تسلیم کی جائے گی کہ ابوحنیفہ و شافعی، بخاری و مسلم، اشعری و ماتریدی اور جنید و شبلی، سب پراِس کی حکومت قائم ہے اور اِس کے خلاف اِن میں سے کسی کی کوئی چیزبھی قبول نہیں کی جاسکتی۔ ‘‘(میزان ۲۵) جو لوگ علمی پس منظر رکھتے ہیں، وہ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ بات کہنا کوئی آسان نہیں، اس لیے کہ ہمارے ہاں عملی طور پر جو کچھ ہوتا ہے، وہ اس کے بالکل برخلاف ہے۔ لوگ قرآن کریم کی بات کو اہمیت دینے کے بجائے دیگر چیزوں کو زیادہ اہم سمجھتے ہیں۔ مثلاً آپ قرآن کریم کی کوئی سی تفسیر اٹھا کر دیکھ لیں، وہاں قرآن کریم کی بنیاد پر اس کی بات کو کم واضح کیا گیا ہوتا ہے اور دیگر چیزوں کا بیان زیادہ ہوتا ہے۔ اسی رویے سے تمام اختلافات کا آغازہوتا اور فرقہ بندی کا دروازہ کھلتا ہے۔ چنانچہ مختلف مسائل، معاملات اوراحکام پر غور کرتے ہوئے قرآن مجید کو بنیاد بنانا اور ہر دوسری چیز پر اس کی بات کو ترجیح دینا فکر فراہی کی سب سے بڑی اور بنیادی خدمت ہے۔ آگے حدیث اور قرآن کے تعلق کے ضمن میں ایک عملی مثال سے ہم اس بات کی وضاحت کریں گے۔ دین میں قرآن مجید کی اہمیت کوواضح کرنے کے ساتھ ساتھ فکر فراہی کی بڑی خدمت ان اصولوں کو واضح کرنا ہے جن کی روشنی میں قرآن مجید کی کسی بات کا اصل مدعا واضح طریقے پر متعین کیا جاسکتا ہے۔ اس فکر کے ائمہ نے کم و بیش ایک صدی تک یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ قرآن کریم خود اپنا مدعا کیسے بیان کرتا ہے۔ اس کے لیے انھوں نے قرآن مجید کی زبان، اس کے اسالیب، اس کی آیات کے سیاق و سباق، اس کے احکام کے موقع و محل کو سمجھنے کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر دیں۔ خاص کر امام فراہی نے اسے اپنی زندگی کا سب سے بڑا مقصد بنالیا تھا اور زندگی کے آخری برسوں میں جب ان کے علم کا سورج نصف النہار پر تھا، انھوں نے گوشہ نشینی اختیار کر کے اپنے آپ کو اس کام کے لیے وقف کر دیا۔ کم و بیش یہی معاملہ امام اصلاحی کا تھا جنھوں نے اپنی زندگی کے آخری چالیس برسوں میں سے تیس برس یہی کام کیا۔ اسی محنت کا نتیجہ ’’تدبر قرآن‘‘ کی شکل میں وجود میں آیا جو اسلامی علوم کی تاریخ میں تفسیر کے موضوع پر لکھی گئی چار بنیادی کتابوں میں سے ایک ہے۔ استاذ گرامی جاوید احمد غامدی نے بھی اپنی ساری زندگی قرآن کریم پر غور و فکر میں گزاری۔ اس کے بعد قرآن پاک پر غور و تدبر کے کچھ اصول انھوں نے اپنی کتاب ’’میزان‘‘ میں بیان کیے ہیں جو قرآن پر غور و تدبر کے لیے بہت اہم ہیں۔
تصانیف فراہی
مولانا حمید الدین فراہی بہت لکھنے اور رطب ویابس اکٹھا کرنے کے قائل نہ تھے جہاں تک ان کی تصانیف کا تعلق ہے تو انہیں دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا ایک مصنف ہی نہیں بلکہ ایک بہت بڑے مفکر اور مصلح بھی تھے اور ان کی تصانیف سے ان کی اعلیٰ فکری صلاحیتوں، مصلحانہ کردار اور بلند علمی مرتبے کا پتہ چلتا ہے، مولانا کے منہج تالیف میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان کا طریقہ تصنیف وتالیف یہ نہیں تھا کہ ایک موضوع کے بارے میں فکر اور معلومات اکٹھی کرکے اسے ایک کتاب کی صورت میں مرتب کردیں بلکہ بیک وقت کئی ایک موضوعات ان کے پیش نظر رہتے تھے، جب کسی موضوع پر تحقیق مکمل ہوجاتی، ذہن مطمئن ہوجاتا تو اسے لکھ لیتے اور بعد میں وقت ملنے پر ایک موضوع پر مختلف مواقع پر لکھی ہوئی تحقیقات کو مرتب کرتے تھے اس طرح گویا وہ ایک ہی وقت میں کئی کتب پر کام کررہے ہوتے تھے۔
مولانا کی کچھ تصانیف
التکمیل فی اصول التاویلالرائ الصحیح فی من ھو الذبیحالقائد الی عیون العقائدالنظام فی الدیانۃ الاسلامیہأسالیب القرآنأسباق النحوأقسام القرآنأمثال آصف الحکیمامعان فی اقسام القرآنتحفۃ الاعرابترجمہ فارسی پارہ از طبقات ابن سعدترجمہ فارسی، رسالہ بدء الاسلامترجمہ قرآن (اردو)تفسیر نظام القرآن وتاویل الفرقان بالفرقانجمہرۃ البلاغہحکمۃ القرآنخرد نامہدلائل النظامدیوان ابی احمد الانصاریرسالہ آخرترسالہ توحیدرسالۃ فی اصلاح الناسرسالۃ فی عقیدۃ الشفاعۃ والکفارۃرسالہ نبوتفی ملکوت اللہمفردات القرآننوائے پہلوی
مولانا فراہی کے بارے میں علماء کے تاثرات
مشہور مراکشی عالم شیخ تقی الدین ہلالی نے مولانا فراہی کے بارے میں 17 رمضان 1342ھ میں کچھ تاثرات لکھے تھے جو بعد میں مجلہ الضیاءلکھنوء رجب 1352ء کے شمارے میں چھپے، تقی الدین ہلالی فرماتے ہیں کہ ”علامہ حمیدالدین صاحب کا ایک دیوان شعر بھی ہے جو میں نے ان سے سنا۔ یہ دیوان بلیغ اور موثر طور پر مسلمانوں کے حوصلے بلند کرتا ہے ان کے دلوں میں زندگی کی لہر دوڑاتا ہے۔ اس میں فرنگیوں کی مسلم دشمنی، جنگ طرابلس اور جنگ عظیم کا ذکر ہے، وہ بڑی فصیح گفتگو کرتے ہیں۔ علمائے ہند تو ایک طرف علمائے عرب میں بھی ایسے اشخاص بہت کم ہیں انکی عمر اندازاً 70برس ہوگی، انہوں نے ایک مدرسہ قائم کیا ہے جس کا نام مدرستہ الاصلاح رکھا ہے۔ اس میں صرف قرآن کی تعلیم دی جاتی ہے جو ان کی متاع گم گشتہ ہے، میں نے ان سے ان کی تفسیر قرآن کا مقدمہ سنا۔ اس کی فصاحت اور حقانیت سے میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے، وہ مسئلہ خلافت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ اس پر انکی محققانہ نظر ہے، اہل ہند کے برعکس ان پر اس مسئلے کی کوئی بات مشتبہ نہیں ہے، عقائد اور اعمال میں مجتہدانہ شان کے مالک ہیں۔ کسی فقہی مذہب کی طرف نسبت کو پسند نہیں کرتے، لیکن نماز حنفی طریقے کے مطابق ہی پڑھتے ہیں۔ اس لیے کہ اسی مذہب پر انکی نشوونما ہوئی ہے اور ان کا خیال ہے کہ اسی طرح آسانی رہتی ہے، رنگ گندم گوں، چہرہ بشرہ خوبصورت، قد کشیدہ، داڑھی گول سفید اور براق ہے، انگریزی، عربی، فارسی اور اردو میں مہارت رکھتے ہیں، کئی عہدوں پر فائز رہے۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ علی گڑھ میں کالج کی سطح پر استاد تھے، مختصر یہ کہ اس وقت تک میں جتنے لوگوں لوگوں سے ملا ہوں وہ ان میں سے سب سے بڑے عالم ہیں۔
سید سلیمان ندوی کو مختلف حیثیتوں سے مولانا کے قریب رہنے کا موقع ملا ان کی نظر میں مولانا فراہی کیا مقام رکھتے تھے؟ اسکی جھلک مولانا کی وفات پر لکھے گئے ان الفاظ سے ہوتی ہے ”اس عہد کا ابن تیمیہ 11نومبر 1930ء کو اس دنیا سے رخصت ہو گیا وہ جس کے فضل وکمال کی مثال آئندہ بظاہر حال عالم اسلامی میں پیدا ہونے کی توقع نہیں، جس کی مشرقی ومغربی جامعیت عصر حاضر کا معجزہ تھی، عربی کا فاضل یگانہ اور انگریزی کا گریجویٹ، زہد و ورع کی تصویر، فضل و کمال کا مجسمہ، فارسی کا بلبل شیراز، عربی کا شوق عکاظ، ایک شخصیت منفرد لیکن جہان دانش، ایک دنیائے معرفت، ایک کائنات علم، ایک گوشہ نشین مجمع کمال، ایک بے نوا سلطان ہنر، علوم ادبیہ کا یگانہ، علوم عربیہ کا خزانہ، علوم عقلیہ کا ناقد، علوم دینیہ کا ماہر، علوم القرآن کا واقف اسرار، قرآن پاک کا دانائے رموز، دنیا کی دولت سے بے نیاز، اہل دنیا سے مستغنی، انسانوں کے رد وقبول اور عالم کی داد و تحسین سے بے پرواہ، گوشہ علم کا معتکف اور اپنی دنیا کا آپ بادشاہ، وہ ہستی جو تیس برس کامل قرآن اور صرف قرآن کے فہم وتدبر اور درس وتعلیم میں محو ہرشے سے بیگانہ اور شغل سے ناآشنا تھی۔
ندوۃ العلماء کے سابق ناظم ابو الحسنات مولانا عبدالحئی لکھنوی مولانا فراہی کے بارے میں رقمطراز ہیں کہ: ”وہ چوٹی کے علماء میں سے تھے۔ علوم ادبیہ سے پوری واقفیت رکھتے تھے۔ انشا و ادب پر پورا عبور حاصل تھا۔ ادباء اور ادب سے انہیں بڑا لگاؤ تھا۔ فہم و فراست، ذکاوت وذہانت، زہد و تقوی، نیک نفسی وہ بلند ہستی کی وہ تصویر تھے۔ لایعنی باتوں سے بہت دور، انبار دنیا سے بالکل بے پرواہ، عربی علوم میں انہیں رسوخ حاصل تھا، بلاغت پر گہری نظر تھی، جاہلی دواوین اور عربی اسالیب کلام پر وہ حاوی تھے۔ صحف سماویہ کا بڑا وسیع مطالعہ تھا۔ یہود و نصاری کی کتابوں پر اچھی نظر تھی۔ ان کی ساری دلچسپیوں اور عرق ریزیوں کا محور قرآن پاک تھا۔ وہ قرآن پاک پر غور وتدبر کرتے۔ اس کے بحر معانی میں غواصی کرتے، اسکے تمام اسالیب کو سمجھنے کی کوشش کرتے، ان کا عقیدہ تھا کہ پورا قرآن ایک مرتب ومنظم کلام ہے۔ ساری آیات ایک دوسرے سے باہم مربوط ہیں۔ چنانچہ انکی تفسیر نظام القرآن کا اصل الاصول یہی ہے۔
مولانا ابو الکلام آزاد مولانا فراہی کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار یوں فرماتے ہیں کہ ”مولانا حمید الدین فراہی مرحوم، جن کی عبارت پر ہنگامہ برپا کیا گیا ہے، ان علمائے حق میں سے تھے جن کا سرمایہ امتیاز صرف علم نہیں بلکہ عمل بھی ہوتا ہے اور اس دوسری جنس کی کمیابی کا جو عالم ہے وہ اہل حق سے پوشیدہ نہیں، میں جب کبھی ان سے ملا مجھ پر ان کے علم سے زیادہ انکی عملی پاکی کا اثر ہوا، وہ پورے معنوں میں ایک متقی اور راست باز انسان تھے انکے دل کی پاکی اور نفس کی طہارت دیکھ کر رشک ہوتا تھا۔
مولانا مودودی فرماتے ہیں کہ “جس نےمسلسل چالیس برس تک قران مجید کی خدمت کی، جس نےمعارف قران کی تحقیق میں سیاہ بالوں کوسفید کیا، جس کی تفسیروں سےعرب وعجم کے ہزاروں مسلمانوں میں تدبر فی القران کا ذوق پیدا ہوا جس کی تحریروں کا ایک ایک لفظ گواہی دے رہا ہے کہ وہ قران کا سچا عاشق ہے اوراس کے لفظ لفظ پر جان نثار کرتا ہے اگر ایسے لوگ بھی مسلمان نہیں تو اس زمین پر ہم مسلمان کہاں تلاش کریں۔
(تحریر: آصف علی)