... loading ...
دوستو،زیادہ پرانی بات نہیں، رواں سال کا ہی ذکر ہے، اچانک مہنگائی ، مہنگائی کا شور کرکے اچانک ایک بڑی تبدیلی کی گئی اور حکومت کے خلاف عدم اعتماد لاکر وزیراعظم عمران خان کو ہٹادیاگیا۔۔ یہ اپریل کا مہینہ تھا اور ابھی آدھا مہینہ بھی نہیں گزرا تھا۔۔ تب سے اب تک سات ماہ سے زائد عرصہ بیت چکا ہے، لیکن مہنگائی کا شور کہیں بھی سننے میں نہیں آرہا۔۔ لفافی میڈیا منہ میں نوٹ دبائے خاموش بیٹھا ہے، بڑے بڑے طرم خان اینکرز اور صحافی جو روزانہ مہنگائی، مہنگائی کرکے دھمالیں ڈالتے تھے، اب ان کے گھنگرو ٹوٹ چکے ہیں۔۔ باباجی فرماتے ہیں،پاکستان میں ایک ایسی گندی نسل آباد ہے جسے 390 روپے کلو والا گھی مہنگا لگتا تھا 615 والا سستا لگتا ہے۔۔ 150روپے لیٹر والا پیٹرول مہنگا لگتا تھا 224 والا سستا لگتا ہے۔۔ 260 والا چکن مہنگا لگتا تھا لیکن 600 روپے والا سستا لگتا ہے ۔۔جسے 55 روپے کلو والا آٹا مہنگا لگتا تھا لیکن 85 روپے کلو والا سستا لگتا ہے 176 والا ڈالر مہنگا لگتا تھا لیکن 222 روپے کا سستا لگتا ہے 10 روپے والی بجلی مہنگی لگتی تھی لیکن 25 روپے والی سستی لگتی ہے 800 روپے سیمنٹ کی بوری مہنگی لگتی تھی لیکن 1100 کی سستی لگ رہی ہے 140 روپے کلو چاول مہنگا لگتا تھا لیکن 250 روپے کلو والا سستا لگ رہا ہے 180 روپے کلو دال مہنگی لگتی تھی 350 روپے کلو میں سستی لگ رہی ہے دوائیاں پہلے مہنگی لگ رہیں تھیں لیکن اب 50 فیصد اضافے کے بعد سستی لگ رہی ہیں 84 ہزار والی موٹر سائیکل مہنگی لگ رہی تھی 1 لاکھ دس ہزار والی سستی لگتی ہے پہلے IMF سے قرض لینا بھیک لگ رہا تھا اب قرض لینا بہن کا حق مہر لگ رہا ہے ۔اسٹاک مارکیٹ 48000 پوائنٹس معیشت کی تباہی لگتے تھے لیکن 42000 پوائنٹس ترقی لگتے ہیں ۔جی ڈی پی 6 فیصد معیشت کا اختتام لگتے تھے لیکن 4 فیصد جی ڈی پی ترقی لگتی ہے ۔خزانے میں پڑے ساڑھے 22 ارب ڈالرز خزانہ خالی لگتے تھے اور دس ارب ڈالرز رہ جانا دولت میں اضافہ لگ رہے ہیں ایکسپورٹس میں تاریخی اضافہ بربادی لگ رہا تھا لیکن ایکسپورٹس انڈسٹری کو تالے لگنا خوشحالی لگ رہا ہے۔۔
جب مہنگائی کا جن کسی طرح قابونہیں آیا تو حکومت نے اپنے ہی وزیرخزانہ کے خلاف عدم اعتماد کرکے لندن سے ڈار صاحب کو بلالیا تاکہ ڈالر کو کنٹرول کیا جاسکے، حکومت کے خیال میں ڈالر قابو آگیا تو مہنگائی کا جن بھی قابو آجائے گا، ڈار صاحب نے وطن واپسی سے قبل خوب بڑھکیں ماریں، وہ پاکستان آئے، وزارت خزانہ سنبھالی لیکن معاملات جوں کے توں ہیں بلکہ معاشی اشاریہ مزید سنگینی ظاہر کررہے ہیں۔۔کئی روز ہوگئے، ڈار صاحب بھی منظر سے غائب ہوگئے،شاید اس کی وجہ یہ ہوکہ میڈیا پر مہنگائی کی جگہ دیگر معاملات چھائے ہوئے ہیں، باباجی کا کہنا ہے کہ اگر ڈار صاحب اگلے اڑتالیس گھنٹے میں میڈیا پر دکھائی نہ دیئے تو وہ کسی بڑے اخبار میں تلاش گمشدہ کا اشتہار دے ڈالیں گے۔۔کہتے ہیں کہ ۔۔کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جنہیں دیکھتے ہی منہ بن جاتا ہے، کچھ کی شکلیں دیکھ کر نجانے کیوں لگتا ہے کہ یہ انسان برسوں سے کسی پریشانی کا شکار ہے۔۔۔کچھ چہرے دیکھ کرایسا لگتا ہے کہ موصوف نے کبھی کھل کر’’اجابتـ‘‘ نہیں کی۔۔بعض چہرے دیکھ کر تازگی کا احساس ہوتا ہے۔آپ بھی اپنے آس پاس چہروں کا ـ’’مطالعہ‘‘ شروع کردیں تو یقینی طور پر آپ کے’’مشاہدے‘‘ میں بھی بیش قدر اضافہ ہوگا۔۔ہمارے کہنے پر ایک بار اسحاق ڈار کے چہرے کا مشاہدہ بھی ضرور کیجئے گا۔۔وزیر تو کسی سائیڈ سے لگتا ہی نہیں۔۔ لگتا ہے کسی چوہدری کا ’’ منشی‘‘ ہے۔۔ویسے شکلیں تو اللہ پاک کی دین ہیں، کبھی انہیں برا نہیں کہنا چاہیئے لیکن پھر بھی بدقسمتی سے چہروں کا ہماری زندگی میں کافی عمل دخل ہوتا ہے۔۔ بعض لوگ ہمیں اچھے نہیں لگتے، جو لگتے ہیں وہ کبھی قریب نہیں لگتے۔ اور کچھ کو تو دیکھ کر کنی کترانے کا دل کرتا ہے۔۔ڈار صاحب موجودہ کابینہ کے واحد وزیرہیں جو جب چاہیں پوری قوم کو ـ’’ تختہ ڈار‘‘ پر لٹکا سکتے ہیں۔۔ہمیں ڈار صاحب پنجاب کے ’’ شیخ‘‘ لگتے ہیں، یہی شیخ قوم جب کراچی میں ہوتی ہے تو انہیں اپنی عادات و اطوار کے حساب سے ’’ میمن ‘‘ کہاجاتا ہے۔شیخ اور میمنوں میں ایک خوبی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے وہ ہے ان کی کنجوسی۔۔ان کی جیب سے پیسے نکلوانا کشمیر آزاد کرانے کے برابر ہوتا ہے۔ایک بار ایک میمن کو اس کی بیوی نے ایس ایم ایس کیا۔۔ جانو میں جس جہاز پر ہوں وہ لینڈ کرتے ہوئے گرنے والا ہے۔۔شوہر نے فوری جواب دیا۔۔ تم ایک کام کرو زلیخا ، جلدی سے اپنا بیلنس میرے نمبر پر بھیج دو۔۔ ہمارا ایک دوست ’’شیخ‘‘ ہے۔۔ایک دن ایک آنکھ پر ہاتھ رکھے جارہا تھا۔۔تشویش ہوئی ،پوچھا۔۔ خیرتو ہے،آنکھ میں درد ہے یا کوئی اور تکلیف۔۔ وہ کہنے لگا۔۔جب ایک آنکھ سے نظر آجاتا ہے تو پھر دوسری آنکھ استعمال کرنے کا کیا فائدہ؟؟
بات ہورہی تھی اسحاق ڈار صاحب کی۔۔بچپن سے بہت تیزدماغ پایا۔۔دروازے پر دستک ہوئی۔والد نے کہا ، دیکھو دروازے پر کون ہے؟ اسحاق ڈار نے دروازے پر جاکر ملاقاتی سے پوچھا، آپ کون ہیں، اس نے اپنا نام ریاض بتایا۔ ڈارصاحب نے نے واپس آکر کہا:’’ابا جان! باہر سعودی عرب کے دارالخلافہ کھڑے ہیں۔ایک بار ان کی بلی نے اون کا گولہ کھالیا۔۔تو اپنی امی کو کہنے لگے۔۔امی امی۔۔اب ہماری بلی کے بچے سوئیٹر پہن کے پیدا ہوں گے۔اپنے والد کے ساتھ بازار میں جارہے تھے کہ ٹھیلے والے آوازلگائی۔۔لنگڑا آم چالیس روپے کلو لے لو۔۔انہوں نے ٹھیلے والے سے معصومیت سے پوچھا ۔۔ اور دو ٹانگوں والے آم کتنے کے ہیں؟۔۔کلاس میں ٹیچر نے جب ڈار صاحب سے سیب کافائدہ پوچھاتو وہ کہنے لگے۔۔پھل والا اسے بیچ کر پیسہ کماتا ہے۔۔ٹیچر غصے سے کہا میں نے ’’ایپل‘‘ سے متعلق پوچھا ہے۔۔ ڈار نے اسی معصومیت سے جواب دیا۔۔ ’’ایپل‘‘ کے کیمرے اچھے نہیں ہوتے،سیلفی اچھی نہیں بنتی۔۔ ایک دن ڈار صاحب نے اپنی اہلیہ سے شدید شکوہ کیا۔۔ آخر کب تک تم میرے بلیڈ سے بچوں کی پنسلیں تراشتی رہوگی۔۔بیگم نے بڑی معصومیت سے جواب دیا۔ جب تک تم میری لپ اسٹک سے بچوں کی کاپیاں چیک کرتے رہوگے۔۔ڈار صاحب ایک دن اپنے نوکر پر برس پڑے ۔۔شرفو یہ تم نے کیسی چائے بنائی ہے؟۔۔نوکرنے جواب دیا۔۔جناب! آپ نے کہا تھا جب دودھ نہ ہو تو ملک پاؤڈر سے بنالیا کرو۔ آج ملک پاؤڈر بھی نہیں تھا، سو میں نے ٹالکم پاؤڈر سے بنالی۔۔ڈار صاحب نے دوست کو گھرمدعوکیا۔۔سوپ پیش کیا تو اس میں مکھی تیررہی تھی۔۔دوست نے کہا۔۔یارڈار تیرے سوپ میں مکھی تیررہی ہے۔۔جس پر وہ مسکرا کربولے۔۔ دل وڈا ہونا چاہیے مکھی نے کتنا سوپ پی لینا ہے ۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔انتقام یا بدلہ لینے پر اپنا وقت ضائع نہ کرو جو تم سے نفرت کرتے ہیں، اس نفرت کی آگ ہی اُن کی سب سے بڑی سزا ہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔