... loading ...
دوستو،اس وقت پورا ملک کرکٹ کے بخار میں مبتلا ہے،جیسے تیسے کرکے قومی کرکٹ ٹیم ورلڈ کپ ٹی ٹوئنٹی کے فائنل میں تو پہنچ گئی، لیکن اب سوال یہ بھی سامنے آرہا ہے کہ کیا بانوے کی تاریخ دھرائی جائے گی؟ انیس سو بانوے میں بھی جب ورلڈ کپ آسٹریلیا میں ہورہا تھا تو سیمی فائنل میں ہم نے نیوزی لینڈ کو شکست دی تھی اور فائنل میں انگلینڈ سے سامنا ہوا تھا۔۔ بانوے میں بھی ورلڈ کپ میچز میں بارشیں ہورہی تھیں۔ بانوے میں بھی ہماری ٹیم اگر،مگر اور دعاؤں کے سہارے ہی آگے بڑھتی گئی،یہاں تک کہ سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کو ہرادیا ۔۔کوڑا کے ساتھ لگنے والے ’’کرکٹ‘‘ اور میدان میں کھیلی جانے والی ’’کرکٹ‘‘ میں ویسے تو بہت فرق ہے، لیکن جس حساب سے ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کی پرفارمنس سامنے آرہی ہے، ہمیں تو اب دونوں میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔۔آج اگر بارش نہ ہوئی تو میلبورن کرکٹ گراؤنڈ میں پاکستان اور انگلینڈ کا آمنا سامنا ہوگا۔۔ دعا ہے کہ آج تو گرین شرٹس کچھ اچھا کھیل جائیں۔۔
1970ء کی دہائی تک کرکٹ کی اپنی ثقافت اور معیار تھے۔ یہ کھیل تماشائیوں کو ذہنی تناؤ اور بلند فشار خون کی بجائے سکون اور آسودگی دیتا تھا۔ پانچ روزہ ٹیسٹ میچ اکثر ہار جیت کے فیصلے کے بغیر ختم ہوجایا کرتے تھے لیکن اس وقت شاید ’’ہار جیت ‘‘ کچھ زیادہ معنی بھی نہیں رکھتی تھی۔ کرکٹ کو جنگ و جدل کی بجائے ایک نفیس کھیل سمجھا جاتا تھا۔ شائقین کھلاڑیوں کے ہنر، تکنیک اور کھیلنے کے انفرادی اسٹائل سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔ کھلاڑی بھی مہذب، شائستہ اور پرتحمل تھے۔ پیسے اور شہرت کے جنون پر شوق اور اسپورٹس مین اسپرٹ حاوی تھا۔ میچ فکسنگ، جوئے اور سٹے کا تصور تک نہیں تھا۔ اس وقت تک کرکٹ کمرشلائز نہیں ہوا تھا۔۔کمرشل کرکٹ کا آغاز80 کی دہائی میں آسٹریلیا کے بڑے سرمایہ دارکیری پیکر نے کرایا تھا۔ پہلے پہل آئی سی سی نے اس رجحان کو روکنے کی کوشش کی لیکن سرمائے نے اس ادارے کو بھی ہڑپ کرلیا۔ ون ڈے کے بعد اس کھیل کو مزید منافع بخش بنانے کیلئے T-20 کا آغاز کیا گیا۔ پھر آئی پی ایل جیسے ٹورنامنٹ شروع ہوئے جہاں طوائفوں کی طرح کھلاڑیوں کی بولیاں لگائی جانے لگیں۔ دولت کی ہوس نے سماج کے ہر شعبے کی طرح کرکٹ کو بھی برباد کر دیا۔کچھ عرصہ پہلے کرکٹ کے ’’بگ تھری‘‘ کا معاملہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح کھیل دولت کے شکنجے میں جکڑا جاچکا ہے۔ پاکستانی کرکٹرز محمد عامر، محمد آصف اور سلمان بٹ کو جوئے بازی کے معاملات میں ملوث ثابت ہو جانے کے بعد پانچ سال سات سال اور دس سال کیلئے کرکٹ کھیلنے پرجب سزا دی گئی تو یہی یہ لوگ میڈیا پر ایک ہیرو کی طرح نظر آتے ہیں؟ جو لوگ اس معاملے میں سامنے آئے وہ بڑے فخر سے اپنی حیثیت کو سامنے لاتے ہیں۔
دو پاگل کرکٹ دیکھ رہے تھے۔۔آفریدی نے چھکا مارا توایک پاگل زور سے چلایا۔۔ واہ کیا گول کیا ہے۔۔۔ دوسرا فوری بولا۔۔ ابے بے وقوف گول اس میں نہیں کرکٹ میں ہوتا ہے۔۔ویسے اب آفریدی کے چھکے تو صرف ٹی وی کے اشتہار میں ہی نظر آتے ہیں۔۔ آفریدی کے بچے ٹی وی پر کرکٹ میچ دیکھ رہے تھے، اچانک ایک بچی زور سے چلائی۔۔مما،مما۔۔ جلدی آئیے پپا نے کیا زوردار چھکا مارا ہے۔۔ مما کچن سے چلائیں۔۔ غور سے دیکھو بیٹا وہ شیمپو کا اشتہار ہوگا۔۔ویسے یہ بات بھی اپنی جگہ سوفیصد درست ہی ہے کہ آفریدی پاکستانی کرکٹ کے مولانا فضل الرحمان ہیں۔ جگہ ہو نہ ہو رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ مولانا کو حکومت میں آفریدی کو ٹیم میںلیکن اب نہ مولانا ایوانوں میں ہیں نہ آفریدی ٹیم میں۔۔ایک دوست فون پراپنے دوست کوبتارہا تھا۔۔یار پرسوں ہمارا کرکٹ کا فائنل میچ تھا ، خوب فائٹ ہوئی اور بعد میں بہت لڑائی ہوئی۔۔ احمدشہزاد کسی دعوت میں گئے، میزبان نے پوچھا کھانا کیسا لگا۔۔ قومی ٹیم کے اوپنر کہنے لگے۔۔سارا کھانا بہت مزیدار تھا لیکن میٹھا۔۔۔۔ بہت میٹھا تھا۔۔ یاسر شاہ سے کسی نے پوچھا۔۔بھینس کی کتنی ٹانگیں ہوتی ہیں۔۔لیگ اسپنر نے کہا۔۔ یہ تو کوئی بے وقوف بھی بتادے گا۔۔ پوچھنے والے نے جگت لگائی۔۔اسی لیے تو تم سے پوچھ رہا ہوں۔۔ آفریدی کو بچپن میں استاد نے پوچھا۔۔ کوئی سے پانچ پھلوں کے نام بتاؤ۔۔ آفریدی بولا۔۔ تین مالٹے دو سیب۔۔قومی ٹیم کے پروفیسرحفیظ نیوزی لینڈ کی ایک مشہور بیکری گئے۔پوچھا ۔۔ یہاں کیا کیا ملتا ہے۔۔ سیلزمین نے کہا، سرجوآپ چاہیں گے، مل جائے گا۔۔حفیظ نے کہا۔۔کتے کے کھانے کا کیک ہوگا۔۔سیلزمین بولا۔۔سر یہیں کھائیں گے یا گھر لے جائیں گے۔۔شعیب ملک کا تعلق سیالکوٹ سے ہے، ان کے پڑوسی نے ایک بار پوچھا۔۔ کیا آپ بتاسکتے ہیں، گائے مفید ہے یا بکری۔۔ شعیب ملک کہنے لگے۔۔ میرے خیال میں بکری مفید ہے، اس لیے کہ گائے نے ایک بار مجھے ٹکر ماری تھی۔۔عمرگل سے کسی نے پوچھا۔۔خان صاحب کیا جنت میں نسوار ملے گی؟۔۔ شگفتہ مزاج عمرگل بولے۔۔ ہاں ضرور… لیکن اس کو تھوکنے کے لیے جہنم میں جانا پڑے گا۔۔نیوزی لینڈ کے دورے میں ٹیم کے کھلاڑی سیروتفریح میں مشغول تھے کہ ۔۔سرفراز کو ایک بھکاری نظرآیا جو ہاتھ میں پلے کارڈ اٹھائے بھیک مانگ رہاتھا۔۔ پلے کارڈ پر لکھا تھا میں بہرہ اور گونگا ہوں برائے کرم میری مدد کرو۔۔سرفراز بھکاری کے قریب گیا اور پوچھا۔۔ آپ کب سے گونگے اور بہرے ہیں۔۔بھکاری نے فوری جواب دیا۔۔’’ پیدائشی گونگا اور بہرہ ہوں۔‘‘۔۔سرفراز بھی نرم دل تھے جیب سے دس ڈالر کا نوٹ نکال کر فقیر کو دے دیا۔۔عمادوسیم سے استاد نے کہا۔۔ سب لڑکوں نے دودھ پر دو صفحات کا مضمون لکھا ہے، اور تم نے دو سطر کا۔۔ عماد وسیم نے کہا۔۔ جناب! میں نے خالص دودھ پر مضمون لکھا ہے۔۔
80 کی دہائی کے آخر میں ایک لطیفہ بہت مشہور ہوا تھا. یہ وہ وقت تھا جب پاکستانی کرکٹ ٹیم انڈیا میں سیریز کھیلنے گئی اور وہاں پر انڈین کپتان کپل دیو سے سوال کیا گیا کہ پاکستان کے کونسے کھلاڑی آپ کو مل جائیں تو آپ کسی بھی ٹیم کو شکست دے سکتے ہیں. اس نے عمران خان ،جاوید میانداد اور سلیم ملک وغیرہ کے نام لیے۔ جب یہی سوال عمران خان سے کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ مجھے صرف انڈین ایمپائر دے دو اور پھر دنیا کی جو مرضی ٹیم لے آؤ۔۔ یہ وہ وقت تھا جب ہوم سیریز والی ٹیم کو ہوم ایمپائر کا ایڈوانٹیج ہوتا تھا اور کسی بھی ٹیم کو اس کے ہوم گراؤنڈ پر ہرانا انتہائی مشکل تھا۔۔ اس سیریز کے بعد عمران خان نے کرکٹ میں نیوٹرل ایمپائر کی جدوجہد شروع کی اور وہ کام کر دکھایا جو کرکٹ کی 150 سالہ تاریخ میں کوئی نہ کر سکا ۔۔ایک سردار جی کی بیوی کی رنگت بہت کالی تھی۔ایک دن اس نے سْرخ جوڑا پہنااورسردار جی سے پوچھا۔۔سردار جی میں کیسی لگ رہی ہوں ؟؟سردار جی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہنے لگے۔۔ بالکل کرِس گیل ۔۔۔ونس اپان اے ٹائم، سڈنی کرکٹ گراؤنڈ میں میچ سے قبل پریکٹس سیشن تھا، کپتان محمد یوسف واپس آئے تو میڈیا نے گھیر لیا، وہ اس افتاد کیلئے تیار نہ تھے، آسٹریلینز کا لب ولہجہ سمجھنا ویسے بھی آسان کام نہیں، سوالات میک گرا کے باؤنسرز کی طرح ان کے سر سے گذر گئے، یوسف نے برابر میں موجود ایک پاکستانی سے پنجابی میں پوچھا ’’ پائی جان اے کی پچھ ریا اے‘‘(بھائی جان یہ کیا پوچھ رہا ہے)ایسے میں اچانک ٹیم منیجر آگئے اور انھوں نے کپتان کو مشکل صورتحال سے نکالا۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ انیس سوبانوے میں بھی شیخ رشید کنوارہ تھا، دوہزار بائیس میں بھی کنوارا ہے، اس لیے ورلڈ کپ ہمارا ہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔