... loading ...
کوئی مانے یا نہ مانے لیکن سچ یہ ہی ہے کہ سندھ پولیس کچے کے علاقے میں روپوش ڈاکوؤں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے لیئے یقینا ایک گرینڈ آپریشن کی تیاری کررہی تھی ، جسے آغاز سے پہلے ہی ناکامی سے دوچارکرنے کے لیے ڈاکوؤں نے سندھ پولیس پر پیشگی حملہ کردیا اور اِس کے نتیجے میں تین پولیس افسران سمیت 5 اہلکار جامِ شہادت نوش کرگئے۔یاد رہے کہ کچے کے علاقے میں چھپے ہوئے ڈاکوؤںنے اپنے سرغنہ کی پولیس مقابلے میں ہونے والی ہلاکت کا بدلہ لینے اور سندھ پولیس کے حوصلہ کو پست کرنے کے لیے تنگ آمد، بجنگ آمد کے مصداق پولیس کیمپ پر حملہ کرنے میں پہل کی ۔ ورنہ ڈاکو سندھ کے ہوں یا پنجاب کے ،خیبر پختون خواہ کے ہوں یا پھر بلوچستان کے زیادہ تر، عام لوگوں کو ہی لوٹ مار کے لیے اپنا ہدف بناتے ہیں اور پولیس کے سامنے آنے سے اجتناب ہی برتتے ہیں ۔
لہٰذا، غالب امکان یہ ہی ہے کہ گھوٹکی کے علاقے اوباڑو سے متصل کچے کے علاقہ رونتی میں ایک ہفتہ قبل اغوا ہونے والے تین مغویوں کی بازیابی کے لیے قائم کردہ کیمپ سے پولیس کے پیش قدمی کو روکنے کے لیے ڈاکوؤں نے مبینہ طور پر پولیس کیمپ حملہ کیا تھا،جس میں ڈی ایس پی اوباڑو، دو ،ایس ایچ اوز، دوسپاہی شہید ہوگئے ۔مذکورہ واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ کچے کے علاقے میں روپوش ڈاکوکتنے دیدہ دلیر اور بے خوف ہوچکے ہیں کہ وہ اَب پولیس پر حملے کرنے میں بھی پہل کرنے لگے ہیں ۔ بہرکیف اس الم ناک واقعہ کی خبر ذرائع ابلاغ پر آنے کے بعد ہونا تو یہ چاہیئے تھے کہ کچے کے علاقہ میں ڈاکوؤں کے خلاف جاری آپریشن میں شہید ہونے والے پولیس افسران اور اہلکاروں کو بہادری دکھانے پر خوب ستائش کی جاتی اور اُن کے لواحقین کے غم میں شریک ہوا جاتا۔مگر کس قدر، بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر اُلٹا سندھ پولیس کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہاہے اور کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے خلاف جاری سندھ پولیس کے آپریشن کی بابت ایسی ایسی سازشی تھیوریاں اور افسانے تراشے جارہے ہیں کہ جنہیں پڑھ کر روح تک کانپ جاتی ہے۔
بلاشبہ سندھ پولیس کو کارکردگی کے لحاظ سے کوئی مثالی پولیس فورس نہیں قرار دیا جاسکتا، لیکن اپنی تمام تر پیشہ ورانہ کوتاہیوں اور خامیوں کے باوجود سندھ پولیس نے کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے خلا ف کئی بڑے آپریشن کیے ہیں اور اُ ن میں سے بیشتر میں اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب بھی رہی ہے۔ خاص طورپر 2017 میں جب پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمہ کے لیئے تمام صوبوں میں اپیکس کمیٹیاں قائم کی گئی تھیں۔ تب اسی سندھ پولیس نے کچے کے علاقے پر مکمل طور پر کنٹرول حاصل کرلیا تھا، اور پورے تین سالوں میں کوئی ایک بھی بندہ اغوا نہیں ہوا تھا۔ مگرجب سے اپیکس کمیٹیاں غیر فعال ہوئی ہیں تب سے کچے کے علاقے دوبارہ سے ڈاکوؤں کی جنت میں تبدیل ہوگئے ہیں اور کچے کے مختلف علاقوں بشمول شاہ بیلو، باگڑجی بیلو، راؤنتی، شریف پور، الف کچو، ناگ واہ، گبلو، سدھوجا، لُڈڑ یا گیمڑو کا کچا اور پنوعاقل میں ڈاکوؤں نے اپنی کارروائیوں کا آغاز کردیا ہے۔
کچھ عرصہ سے کچے کے ڈاکوؤں نے اغوا برائے تاوان کے لیے ایک انوکھا طریقہ اپنایا ہے، جسے ’’ہنی ٹریپ کڈنیپنگ‘‘ کہاجاتاہے۔ یہ طریقہ جرم صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں کسی کو اغوا کرنے کے لیے اپنایا جاتا ہے۔ اس طریقہ واردات میں مرد، ڈاکو کسی کو بھی فون کال کر کے خاتون کی آواز میں بات کرنے کے بعد دوستی کرتے ہیں، بعد میں انہیں ملاقات کے لیے کسی مخصوص جگہ بلا کر اغوا کر لیا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خاتون کی آواز کی پر کشش آواز کے سحر کا شکار ہوکر کراچی، حیدرآباد اور میرپورخاص کے بڑے بڑے تاجر ڈاکوؤں کے ہاتھوں اغوا ہو چکے ہیں۔ سکھر پولیس کی جانب سے جاری کردہ اعدادو شمارکے مطابق گذشتہ تین برس کے دوران سندھ کے مختلف اضلاع میں تین سو سے زائد افراد، خاتون کی پرکشش آواز سن کر ہنسی خوشی اغوا ہوچکے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے ان میں 50 سے زائد لوگوں کو سندھ پولیس بازیاب کروانے میں کامیاب رہی ۔جبکہ کئی خوش قسمت افراد کو’ ’خاتون‘‘ سے ملنے سے پہلے ہی بچا لیا گیا۔
یہاں اہم سوال یہ نہیںہے کہ کچے کے علاقے میں روپوش ڈاکو لوگوں کو اغوا کرنے کے لیے کون کون سے طریقے اختیار کرتے ہیں ۔بلکہ ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ ماضی میں سندھ میں ڈاکوؤں کے خلاف کئی کامیاب آپریشن ہونے اور ڈاکوؤں کے کئی بڑے گروہوں کے خاتمہ کے بعد بھی ابھی تک سندھ کے کچے کے علاقوں میں ڈاکو راج کیوں قائم ہے؟۔دراصل صوبہ سندھ کے آٹھ اضلاع میں موجود کچا کا علاقہ صوبہ پنجاب کے علاقوں رحیم یار خان اور راجن پور کے ساتھ بھی ملتاہے ۔ لہٰذا ،جب سندھ پولیس کچے کے علاقوں میں ڈاکوؤں کے خلاف گرینڈ آپریشن شروع کرتی ہے تو پھر ڈاکو رحیم یار خان اور راجن پورکے کچے کے علاقے میں پناہ لے لیتے ہیں ۔ نیز کچھ ایسی ہی صورت حال اُس وقت بھی درپیش ہوتی ہے ، جب پنجاب پولیس اپنے کچے کے علاقوں میں ڈاکوؤں کے خلاف کوئی بڑا آپریشن کررہی ہوتی ہے تو وہاں کے ڈاکو سندھ کے کچے کے علاقے میں آجاتے ہیں۔ اس لیے جب تک پنجاب پولیس اور سندھ پولیس مل کر اپنے اپنے کچے کے علاقوں میں ڈاکوؤں کے خلاف ایک مشترکہ گرینڈ آپریشن لانچ نہیں کرتیں ،تب تک صوبہ سندھ سے ڈاکو راج کا خاتمہ ہونا ممکن نہیں ہے۔
سندھ میں ڈاکو راج ختم نہ ہونے کی دوسری بڑی وجہ سندھ پولیس کے پاس جدید ہتھیاروں کا نہ ہونا بھی ہے۔ یعنی جو ہتھیار ڈاکوؤں کے پاس ہیں ، وہ جدید ہتھیار سندھ پولیس کے پاس سرے سے ہی موجود نہیں ہیں۔ المیہ ملاحظہ ہو کہ کچے کے علاقے میں روپوش ڈاکوؤں کے پاس اینٹی ائیر کرافٹ گنیں تک موجود ہیں ،جبکہ سندھ پولیس رائفلوں اور پسٹلوں کی مدد سے اُن کے خلاف مزاحمت کررہی ہوتی ہے ۔ حالیہ واقعہ میں پولیس افسران اور اہلکاروں کے شہید ہونے کی بنیادی وجہ بھی ڈاکوؤں کے پاس جدید ترین خودکار ہتھیاروں کا ہونا ہی تھا۔ اچھی بات یہ ہے کہ مذکورہ اندوہناک سانحہ کے بعد وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ کی زیر صدارت امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے اہم اجلاس ہوا ۔جس میں ڈاکوؤں کے خلاف جاری آپریشن کے حوالے سے متعدد اہم فیصلے کیے گئے اور وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے آئی جی سندھ کو احکامات دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ کچے کے علاقوں میں انٹیلی جنس نیٹ ورک کو وسیع کیا جائے اور اب جو بھی آپریشن ہو وہ انٹیلی جنس کی بنیاد پر کیا جائے۔جبکہ ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن میں تمام کچے کے اضلاع کے پولیس افسران مل کر حکمت عملی بنائیں‘‘۔
علاوہ ازیں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے آئی جی سندھ کو ہدایت کی کہ ’’ فور ی طور پر کچے میں رورائین دریائی پولیس فورس بنانے کا پروپوزل بنایا جائے اور کچے کے علاقوں میں سڑکوں کی مرمت اور تعمیر نو کے لیئے جو بھی بجٹ درکار ہو بتایا جائے ۔کیونکہ مجھے سندھ پولیس کے افسران اور اہلکاروں کو شہید کرنے والے ڈاکو جیل کی سلاخوں کے پیچھے چاہیے‘‘۔اگر تو وزیراعلیٰ سندھ آئی جی پولیس سے کیئے گئے اپنے تمام وعدے من و عن پورے کردیتے ہیں تو پھر اُمید کی جاسکتی ہے کہ سندھ سے ڈاکو راج کے خاتمہ ہوجائے گا۔
٭٭٭٭٭٭٭