وجود

... loading ...

وجود

آخر عمران خان کے پیچھے کون ہے ؟

منگل 08 نومبر 2022 آخر عمران خان کے پیچھے کون ہے ؟

ٓٓ

سابق وزیر اعظم عمران خان پر حالیہ ناکام قاتلانہ حملے کے بعد اب اس حقیقت سے کوئی انکا ر نہیں کرسکتا کہ اس حملے میں ناکامی کی وجہ سے ان کے مخا لفین کو عوامی سطح پر شدید نقصان پہنچا ہے لیکن اگر یہ حملہ کامیاب ہو جاتا تو مسلم لیگ ن اور جمیعت علماء اسلام (ف) پر شدید منفی اثرات ہوتے شاید مسلم لیگ ن انتخابات میں آنے والے ایک یا دو سال بعد حصہ بھی لیتی تو وہ چند سیٹو ں تک محدود ہوجاتی اسی قسم کا نقصان جے یو آئی( ف) اور پیپلز پارٹی کو بھی ہوتا لیکن سندھ میں شاید اس کے اثرات شہری علاقوں تک محدود رہتے جہاں تک ایم کیو ایم کا تعلق ہے وہ تحریک انصاف سے علیحدگی کے بعد جس بحران کا شکار ہے اس سے نکلنے میں ناکام ہے اور عوامی سطح پر زوال پذیر ہے اس حملے کا خطرناک پہلو اسے مذہبی رنگ دینا ہے جس کا نقصان مستقبل میںپیپلز پارٹی کی سیاست پر نسبتاًزیادہ ہوگا اور مسلم لیگ (ن) بھی اس کے منفی اثرات سے محروم نہیں رہے گی اس حملے کے بعد یہ خیال کیا جارہاتھا تحریک لبیّک اور پی ٹی آئی آمنے سامنے آجائیں گے اور گلی گلی لڑائی کے بعد ملک میں ہنگامی حالات نافذ کردیے جائیں گے پی ٹی آئی اور تحریک لبیّک کو انتخابی عمل سے باہر کردیا جائے گا اگر یہ حملہ نہ ہوتا چند روز بعدچاہے کتنی ہی بڑی تعداد اسلام آباد میں جمع ہوجاتی حکومت کو کوئی نقصان نہ ہوتا بلکہ خود پی ٹی آئی کو اس کا کوئی فائدہ نہ ہوتا اگر وہ ناقابل یقین ایک کروڑ لوگ بھی جمع بھی کر لیتی تو بھی کچھ نہ ہوتا اگر وہ اہم عمارتوں کی طرف رخ کرتے تو عمران خان اور انکی جماعت کے اہم رہنما نااہل ہوجاتے شاید پارٹی پر پابندی لگ جاتی لوگوں کے عمارتوں چڑھ دورنے سے امن وامان کا مسئلہ ہوسکتاہے لیکن حکومت نہیں بدلی جاسکتی پاکستان میں یہ تصور عام ہے کہ طاقتور ادارے یا امریکا جو چاہے کر سکتے ہیںالف سے ے تک سب کچھ ان کے قابو میں ہے اس تصور کی اہمیت سے انکا ر نہیں کیا جاسکتا لیکن اسے من وعن حقیقت قرار دینا مناسب نہیں ہے۔
مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی اور دیگر اتحادی جماعتیں اس تصور کے سحر میں اس قد ر مبتلا ہیں کہ وہ اس آدھے سچ کو حرف آخرسمجھ کر اپنے پیڑوں پر مسلسل کلہاڑی مار رہی ہیں نتیجہ یہ ہے کہ انتخابات میں شکست کے خوف میں مبتلا ہوکرمکمل طور پر طاقتور حلقوں کے رحم وکرم پر ہیں اس سراب نما مفروضے کی وجہ سے عمران خان کے پیچھے ان طاقتوں کو تلاش کرنا چاہتی ہیں جس کی وجہ سے عمران خا ن کی عوامی حمایت آٹھ مارچ سے مسلسل بڑھ رہی ہے اور حکمراں اتحاد کی حمایت کم ہورہی ہے وہ یہ یقین کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ عمران خان بغیر کسی سرپرستی کے اپنی عوامی حمایت ،سیاسی طاقت اور مقبولیت اضافہ کررہے ہیں جس کی وجہ سے پی ڈی ایم کی جماعتوں اور بعض دانشوروں نے یہ الزام بھی لگانا شروع کردیا کہ طاقتور حلقے یا ا ن کا ایک حصہ ان کی پشت پناہی کررہا ہے جبکہ طاقتور حلقوں نے حکمر ان اتحاد سے یہ توقع وابستہ کرلی کہ مسلم لیگ (ن) اور دیگر ملک کا انتظام بہت بہتر انداز میں چلائیں گی اور ان کی مدد سے اچھی حکمرانی کا سلسلہ شروع ہوگا معیشت مستحکم ہوگی سیاسی بحران بھی نہیں ہوگا لیکن آغاز سے ہی کھیل بگڑنے لگا عمران خان کی حکومت آئینی طریقہ کار سے تبدیل کی گئی لیکن اس کا انداز بہت بھونڈ ا تھا جس انداز سے اراکین اسمبلی کو سندھ ہائو س میں جمع کیا گیا وہاں سے اسلام آباد کی ہوٹل میں منتقل کیا گیا رقوم کی ترسیل کے الزامات پر مشتمل خبریں شائع ہونے لگیں حکومتی اتحادیوں نے علیحدگی اختیارکی یہ جماعتیں سمجھ رہی تھیں کہ عمران خان کوئی مزاحمت نہیں کرے گا لیکن اس نے عوامی اجتماعات سے خطاب کرنا شروع کیا سائفر کا سہارا لے کر سازش کی کہانی کو عوام میں بیان کرنا شروع کیااگر پیپلز پارٹی اپنے کسی اچھی ساکھ رکھنے والے غیر معروف رکن اسمبلی کو وزیر اعظم بناتی تو نسبتاً بہتر نتیجہ نکلتا لیکن شہباز شریف کے مقدمات کو ختم کرانے اور پنجاب میں منحرف اراکین اسمبلی کے ذریعے حمزہ شہباز کی حکومت تشکیل دینے کے عمل سے اس پورے عمل میں عوامی اعتماد کو مزید ڈھچکا لگااور تیزی سے مسلم لیگ کی حمایت کم ہونے لگی قومی اسمبلی میں بھی تحریک عدم اعتما د کے دوران کی جا نے والی تقاریر میں پی ٹی آئی حاوی ہوگئی پی ٹی آئی نے سوال اٹھایا کہ یہ اسمبلی جو کہ پی ڈی ایم کی نظر میں جعلی تھی اچانک اصلی کیسے ہوگئی۔
عمران خان نے ملک گیر جلسوں کا سلسلہ شروع کردیا اور عوام کی کثیر تعداد کی شرکت کی وجہ سے ان کی مقبولیت بڑھتی گئی ا گر شہباز شریف اور بلاول بھٹو جلد بازی نہ کرتے اور پیچھے رہتے تو بہتری کی صورت نکل سکتی تھی اختر مینگل کو بھی وزیر اعظم بنایا جا سکتا تھا جس طرح بھارت میں 1996 میں دیو گوڈا کو وزیر اعظم بنایاگیا تھاجن کا تعلق ایک چھوٹی سی جماعت سے تھا اوراکثریتی جماعت کانگریس نے حمایت کی تھی اس طرح کافارمولہ زیادہ موثر ہوتا مسلم لیگ اور پی پی پر تنقید کم ہوتی حالات کی خرابی کی براہ راست ذمہ داری نہ آتی دوسرا مسئلہ بجلی اور پٹرول کی قیمت ہے جس کے اضافے کے ساتھ کسی بھی حکومت کو عوام میں پذیرائی نہیں مل سکتی یہ مسئلہ آئی ایم ایف سے بہتر مذاکرات سے حل ہو سکتا تھا اس میں بھی جلد بازی سے مسئلہ خراب ہوا پیپلز پارٹی نے وزارت خزانہ حاصل کرنے کی کوشش کی تھی شاید وہ زیادہ اچھی ڈیل کرتے عمران خان کو مزید مقبول بنانے میں مریم نواز ،رانا ثنا ء اللّہ،شہباز شریف اور پی ڈی ایم کے دیگر رہنمائو کے غیر سنجیدہ بیانات نے بھی کردار اداکیا اور عمران خان اپنے جلسوں میں ان بیانات کو اچھالتے رہے حکمراں اتحاد نے طاقتور حلقوں سے یہ توقع وابستہ کرلی کہ عمران خان کی جماعت کو مکمل کچل دیا جائے اور تمام صوبوں خصوصاً پنجاب میں انہیں حکومت دی جائے اس سلسلے میں کوشش بھی ہوئی لیکن مسلم لیگ (ن) موثر لائحہ عمل تیار نہ کرسکی تحریک انصاف نے چودھری پرویز الٰہی کو ساتھ ملاکربازی پلٹ دی پی ڈی ایم کا آخری کھیل طاقتور حلقوں اور پی ٹی آئی کو تصادم کی کیفیت میں مبتلا کرنا تھا جس کے لیے بعض گرفتاریوں اور ممتا ز صحافی ارشد شریف کے کینیا میں قتل نے جلتی پر تیل کا کام کیااس کے بعد مسلسل پریس کانفرنس کا سلسلہ رہا حالانکہ یہ ایسی کوشش تھی جیسے بلیک بورڈ پر کوئلے سے لکھ کر دکھایا جا رہا ہو اور یہ بھی کہا جا رہا ہو کہ ہاتھ کالے نہیں ہو رہے ہیں یعنی نتائج منفی رہے اب موجودہ ناکام حملہ دنیا بھر کی توجہ بن گیا اب عمران خان کی بات پوری دنیا میں زیادہ توجہ سے سنی جارہی ہے اور عالمی قوتیں بھی سوچ وبچار کرسکتی ہیں عمران خان کے پیچھے ان کے کارکنان اور حامیوں کی بڑی تعداد ہے جو ہر شعبے میں ہے کچھ سامنے سے کھل کر مدد کرتے ہیں کچھان کو اطلاعات فراہم کرتے ہیں لیکن ان کے پیچھے ایک اور بڑی قوت خودحکمراں اتحاد کی ناقص پالیسیا ں اور امضحکہ خیز بیا نات بھی ہیں وقت ثابت کر رہا ہے کہ عمران خان ایک ا یسے اسٹیل اسپرنگ کی مانند ہیں جنہیں جتنا دبایا جاتا ہے وہ اتنی ہی تیزی سے ابھر کر سامنے آتے ہیں سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ حکمران اتحاد طوفان کے تھمنے کا انتظا ر کرنے بجا ئے سامنے کھڑا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر