... loading ...
پاکستان اور چین جس طرح کے مضبوط سفارتی تعلقات کے بندھن میں،ایک دوسرے کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں ،اُنہیں مدنظر رکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا کہ وزیراعظم پاکستان جناب شہباز شریف کا دورۂ چین کتناکامیاب رہا؟ بالکل ایک لایعنی اور فضول سی بات ہے کیونکہ پاک چین دوستی کی پوری سفارتی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی پاکستانی قیادت نے بیجنگ کی جانب رختِ سفر باندھا ہے تو اُسے چینی قیادت اور عوام کی جانب سے ہمیشہ ہی غیر معمولی پذیرائی میسر آئی ہے ۔ ماضی کی طرح اِس بار بھی بیجنگ میں وزیراعظم پاکستان کا انتہائی کامیاب رہا اور چین نے یقین دہانی کروائی کہ معاشی استحکام کے لیئے چین ، پاکستان کے ساتھ اپنا تعاون مزید بڑھائے گا۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف کے دو روزہ، دورہ چین میں اُن کی سب سے اہم ملاقات چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ بیجنگ میں چینی حکومت کے دفتر میں موجود پیپلز گریٹ ہال آف چائنا میں ہوئی۔اس اہم ترین ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے چین اور پاکستان کے مابین پاک چین اقتصادی راہ داری (سی پیک) کے منصوبوں کی بحالی کے عزم سمیت کثیر جہتی تعاون بڑھانے اور اسٹریٹجک شراکت داری مزید مضبوط کرنے پر اتفاق کیا۔یاد رہے کہ سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان کے ساڑھے تین سالہ دورِ حکومت میں سی پیک منصوبہ کو مکمل طور پر نظر انداز کردیا گیا تھا ،جس کے باعث سی پیک کے تمام منصوبے سست روی کا شکار ہوگئے تھے۔ خاص طور پر ایم ایل ون منصوبہ جسے پاکستان کی اقتصادی ترقی کے لیے گیم چینجر سمجھا جارہا تھا بری طرح سے حکومتی عدم توجہی کی زد پر آگیا تھا۔
بہرکیف شہباز شریف نے وزیر اعظم بننے کے فوری بعد سی پیک کو دوبارہ زندہ کرنے پر کام شروع کیا اور وہ اپنے مختصر سے دورِ حکومت میں گوادر کے ایک دفعہ نہیں دو تین دفعہ سرکاری دورے کیے۔نیز گوادر کو سستی بجلی فراہم کرنے کے لیے فوری طور پر ایران سے معاہدہ بھی کیا گیا۔جبکہ گوادر کو پاکستان کی mainٹرانسمیشن لائن سے جوڑنے کے لیے عملی منصوبے جات کا بھی آغاز کیا گیااور گوادر کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کے لیے بھی کام شروع کیا گیا۔ علاوہ ازیں سی پیک کے بند منصوبوں کو دوبارہ شروع کیا گیااور منصوبوں کی رفتار بھی تیز کی گئی۔ عمران خان کے دور میں سی پیک کے جو منصوبے چل بھی رہے تھے ان کی رفتار بھی جان بوجھ کر سست کر دی گئی تھی، تا کہ وہ مکمل ہی نہ وہ سکیں۔چونکہ نئے تیز ترین ریلوے ٹریک کے بغیر سی پیک کا کوئی تصور نہیں۔ اسی لیے جب سی پیک شروع کیا گیا تھا۔ تب ہی ایم ایل ون ریلوے ٹریک پر بات شروع کی گئی تھی۔ لیکن سب کو پتہ تھا کہ ایم ایل ون ناگزیر ہے اور عمران خان نے اپنے دور وزارت عظمیٰ میں ایم ایل ون کو آگے نہیں بڑھنے دیا۔ لہٰذا ، وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کے حالیہ دورۂ چین میں سی پیک منصوبہ کی از سر ِ نو بحالی کا اعلان ہونے سے سی پیک کے تن مردہ میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مذکورہ معاملہ کی سنگینی کا چین کے سرکاری میڈیا میں بھی خوب چرچا ہے اور چینی ذرائع ابلاغ کے مطابق وزیراعظم پاکستان شہباز شریف سے ملاقات کے دوران چینی صدر شی جن پنگ نے سب سے زیادہ زور ،سی پیک منصوبہ کی بحالی پر دیتے ہوئے کہا کہ’’ سی پیک منصوبہ کی تعمیر کے لیے پاکستان اور چین کو مزید مؤثر انداز میں آگے بڑھنا چاہیے‘‘۔چینی صدر کے صرف ایک جملہ سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ تحریک انصاف کے پچھلے دورِ حکومت میں سی پیک کی راہ میں کتنی زیادہ انتظامی مشکلات حائل کرنے کی حکومتی کوشش کی گئیں ہوگی ۔ مثال کے طور پر سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان کے مشیر برائے اقتصادی اُمور نے اپنا منصب سنبھالتے ہی بیان داغ دیا تھا کہ ’’پاکستان کو چند برسوں کے لیے سی پیک منصوبہ معطل کردینا چاہئے ،کیونکہ ہماری حکومت چین کو ایسے اضافی فوائد نہیں دے گی ،جس سے ہماری مقامی صنعت کو نقصان پہنچے ‘‘۔
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ جیسا سابق وزیراعظم پاکستان عمران کے مشیر برائے اقتصادی اُمور عبدالرزاق داؤد نے کہا تھا ، ہوا بھی بالکل ویسا ہی اور گزشتہ ساڑھے تین برسوں میں تحریک انصاف کی حکومت نے چینی کمپنیوں کی راہ ہر وہ مشکل کھڑی کرنے کی کوشش کی ، جس سے سی پیک منصوبہ سست روی کا شکار ہوسکے ۔ ایک وقت تو ایسا آگیا تھا کہ چینی کمپنیوں نے پاکستان چھوڑ کر واپس چین جانا شروع کردیا تھا اور عالمی ذرائع ابلاغ میں اس طرح کی خبریں بھی گردش کرنا شروع ہوگئی تھیں کہ چین ،پاکستان سے ناراض ہوگیا ہے۔ اس تناظر میں وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کے حالیہ دورہ بیجنگ کو عالمی ذرائع ابلاغ میں غیر معمولی اہمیت دی جارہی تھی۔
واضح رہے کہ رواں سال اپریل میں وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد شہباز شریف کا یہ چین کا پہلا سرکاری دورہ ہے جہاں وہ چینی ہم منصب لی کی چیانگ کی دعوت پر دورہ کر رہے ہیں۔وزیراعظم شہباز شریف دنیا کے ان اوّلین رہنماؤں میں سے ایک ہیں، جنہیں چین کی کمیونسٹ پارٹی کی تاریخی 20ویں قومی کانگریس کے بعد مدعو کیا گیا تھا۔اچھی بات یہ ہے کہ وزیراعظم پاکستان کے حالیہ دورہ بیجنگ میں محمد شہباز شریف کی دعوت پر چینی کمپنیوں نے پاکستان میں سرمایہ کاری میں گہری دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے کراچی میں پینے کے پانی کی فراہمی سمیت دیگر بڑے منصوبوں میں سرمایہ کاری پر رضامندی ظاہر کی ہے۔دراصل وزیر اعظم شہباز شریف نے چینی کمپنیوں کو پاکستان میں حکومت کے 10 ہزار میگاواٹ کے شمسی اور دیگر قابل تجدید توانائی کے منصوبوں کے لیے سرمایہ کاری کی دعوت دی، جس پر چینی کمپنیوں کی جانب سے حوصلہ افزا ردعمل آیا ہے۔جبکہ وزیراعظم پاکستان نے وزیر اعظم نے ماضی میں چینی کمپنیوں کی جانب سے درآمدی کوئلے پر ادائیگیوں کے حوالے سے درپیش رکاوٹوں پر اظہار افسوس بھی کیا اورانہوں نے چینی تاجروں اور سرمایہ کاروں کو یقین دہانی کروائی کہ موجودہ حکومت نے اپریل میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے چینی کمپنیوں کو درپیش متعدد مسائل حل کر لیے ہیں۔
مزید برآں وزیر اعظم نے کہا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کی ہدایت پر 50 ارب روپے کی ’’سیڈ منی‘‘ سے گردشی فنڈ قائم کیا ہے۔دیگر منصوبوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے شہباز شریف نے گوادر میں بین الاقوامی ہوائی اڈے کی جلد تکمیل پر زور دیا، چینی کمپنیوں کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی کہ یہ منصوبہ آئندہ برس کے آغاز تک مکمل ہو جائے گا۔وزیراعظم نے دیامر بھاشا ڈیم کے لیے زمین کے حصول اور مہمند ڈیم منصوبے کی تکمیل میں حائل رکاوٹوں کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کا بھی عزم کیا۔نیزشہباز شریف نے پاکستان کے ترقیاتی منصوبوں بالخصوص گوادر بندرگاہ اور مین لائن ون (ایم ایل ون) ریلوے ٹریک میں خصوصی دلچسپی لینے پر چینی کمپنیوں کا شکریہ ادا کیا۔وزیر اعظم نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ پاکستان اور چین کے درمیان مضبوط کاروباری اور سرمایہ کاری کے روابط دوطرفہ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کا سبب بنیں گے۔
علاوہ ازیں وزیراعظم پاکستان نے نے تاجروں اور سرمایہ کاروں کے خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ پاکستان میں کام کرنے والے چینی اہلکاروں خصوصاً پاک،چین اقتصادی راہداری (سی پیک) پر کام کرنے والوں کو فول پروف سیکیورٹی فراہم کرنے کی یقینی بنائی جائے گی ‘‘۔ نیز وزیراعظم نے پاکستان میں کام کرنے والے چینی شہریوں کو نشانہ بنائے جانے کے واقعات پر اظہار افسوس کرتے ہوئے بتایا کہ’’ ان واقعات میں ملوث افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے اور انہیں مثالی سزا ملے گی۔ اجلاس کے اختتام پر شہباز شریف نے پاکستان میں بڑے پیمانے پر سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے چین کی جانب سے دی جانے والی فراخدلانہ امداد کا شکریہ بھی ادا کیا‘‘۔
وزیراعظم پاکستان کا حالیہ دورہ ٔ چین کس قدر کامیاب رہا ہے اِس کا اندازہ صرف اس ایک بات سے لگایا جاسکتاہے کہ بھارت اور امریکا نے شہباز شریف کے مذکورہ دورہ بیجنگ پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ خاص طورپر بھارت کو یہ خدشہ ہے کہ پاکستان پاک چین راہ داری اقتصادی منصوبہ کو اپنی معاشی ترقی کے لیئے استعما ل کرتے ہوئے خطے میں اپنا سیاسی و سفارتی اثرورسوخ بڑھائے گا ۔جبکہ امریکا کو یہ فکر لاحق ہے کہ پاکستان اورچین کی بڑھتی ہوئی دوستی خطے میں امریکی اثرو رسوخ کو متاثر کرسکتی ہے۔ دراصل سی پیک منصوبہ جہاں پاکستان اور چین کی ترقی کے لیے ناگزیر ہے ،وہیں اِس منصوبہ کی کامیابی سے امریکا اور بھارت کے سیاسی مفادات سخت ضرب پڑنے کا بھی امکان ہے ۔ لہٰذا ، وزیراعظم پاکستان ، شہباز شریف کے دورۂ بیجنگ پر تنقید کرتے ہوئے امریکا اور بھارت نے بیک وقت اپنے خدشات اور تشویش کا اظہار کیا ہے۔
یاد رہے کہ وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کے حالیہ دورہ بیجنگ میں چین اور پاکستان کے درمیان چینی کرنسی یوآن میں دوطرفتہ تجارت کرنے کے بات میں تعاون کی یادداشت پر دستخط نے امریکا اور بھارت حقیقی معنوں میں پریشان کردیا ہے۔ خاص طور پرایسے حالات میں جب عالمی اقتصادیات کساد بازاری کی زد پر ہونے کی وجہ سے امریکی ڈالر پہلے ہی سے سخت معاشی دباؤ کا شکار ہو۔ مذکورہ یادداشت پر دستخط ہونے کے بعد چین کے مرکزی بینک نے یہ کہا ہے کہ یوآن میں تجارت سے دونوں ملکوں میں ادائیگی کے متبادل آپشن کی راہ ہموار ہو جائے گی ۔جبکہ چینی کرنسی یوآن میں ادائیگیوں سے ایک اور فائدہ یہ ہوسکتا ہے کہ پاکستان کو رعایتی روسی تیل خریدنے میں بھی مدد حاصل ہو سکتی ہے کیوں کہ چینی کرنسی روس کیلئے قابلِ قبول ہے۔ خیال رہے کہ پاکستان اس وقت تیل کی ادائیگی امریکی ڈالر میں کر رہا ہے اور روپے کی قدر میں گراوٹ کے رجحان کے باعث پاکستانی معیشت شدید دبائو کا شکار ہے۔ امید ہے کہ دونوں ملکوں کا حالیہ فیصلہ ترقی کی نئی راہیں کھولے گا اور یہ پیش رفت پاک چین دوستی میںنئے عہد کے آغاز کی بنیاد ثابت ہو گی۔
٭٭٭٭٭٭٭