... loading ...
اسلام آباد کے شہری آج کل کنٹینروں کی مدد سے کیے گئے ایک جزوی اور عارضی روڈ بلاکیڈ کی وجہ سے خود کو اذیت میں محسوس کرتے ہیں۔اس پر ہر کسی کی ناراضگی اور غصے کا اظہار اپنے انداز کا ہے۔ اس ’کنٹینر گردی‘ کا جواز پیش کرنے والے اسے محض ایک انتظامی اقدام قرار دیتے ہیں لیکن ناقدین اسے شہریوں کے نقل و حرکت کے حق کی خلاف ورزی سے جوڑتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ حکمرانوں نے کنٹینر گردی کا یہ اقدام اپوزیشن جماعت تحریک انصاف کے شہر میں ’استقبال‘ کے لیے کیا ہے۔ جس کے قائدین اور کارکن دور دراز کے علاقوں میں چیونٹی کی چال سے جاری اپنے ’لانگ مارچ‘ کے بارے میں خود بھی واضح نہیں کہ وہ اسلام آباد کب پہنچ سکیں گے۔ البتہ دارالحکومت میں سیاہ و سفید کی مالک سمجھی جانے والی 13 جماعتی اتحادی حکومت نے شہر میں کنٹینروں کی بھرمار کرنے کا کام شروع کر دیا ہے۔
مگر اسلام آباد کے اس منظر سے کہیں زیادہ خطرناک اور سنگین محاصرے کی جانب دوسرے عالمی مراکز کی طرح اس بین الاقوامی شہر کے لوگوں کی توجہ بھی کم ہی جاتی ہے۔ اس محاصرے کا تازہ آغاز گذشتہ ماہ سے فلسطین کے قدیمی، تاریخی اور مزاحمتی روایات کے حامل شہر نابلس میں اسرائیلی قابض فوج نے کیا ہے۔؎
رومی حکمرانوں کے دور میں قائم کیے گئے فلسطینی شہر نابلس کی کئی شناختیں ہیں۔ یہ پہاڑوں کے درمیان آباد ہے۔ ایک زرعی شہر ہے۔ زیتون کے باغوں سے سجا ہوا ہے۔ ڈیڑھ دو لاکھ کی آبادی کے اس شہر کی ایک شناخت یہ بھی رہی ہے کہ یہ بیرون ملک سے لا کر مسلط کردہ قوتوں کے خلاف مزاحمت کا مرکز بنتا رہا ہے۔
نابلس کے آزادی پسند فلسطینیوں سے برطانوی قبضہ کاروں کو بھی مسائل رہے ہیں۔ آج امریکی سہولت کاری سے قائم ناجائز اسرائیلی قابض حکومت کے فوجی بھی اس شہر کے لوگوں سے خوش نہیں۔ اس لیے نابلس کے باسیوں کو اسرائیلی قابض فوج نے اور اس کے باغوں کو امپورٹڈ قسم کے یہودی آباد کاروں نے ہمیشہ نشانہ پر رکھا ہے۔
اسی سبب گذشتہ ماہ کے پہلے عشرے سے نابلس کا محاصرہ جاری ہے۔ اس دوران کئی فلسطینیوں کی جان بھی لی جا چکی ہیں۔ لیکن نابلس شہر کے باسیوں کے خلاف اسرائیلی قابض فوج کی کارروائیاں ہیں کہ مسلسل جاری ہیں۔
گھروں سے نوجوانوں کو اغوا کیا جاتا ہے۔ چوک چوراہوں پر گولی چلائی جاتی ہے۔ زہریلی آنسو گیس کا اندھا دھند استعمال کیا جاتا ہے۔ بے گناہوں کو جیلوں میں نظر بند کیا جاتا ہے۔ لیکن عالمی ذرائع ابلاغ اور عالمی ضمیر دونوں ہیں کہ چین کی نیند سو رہے ہیں۔ جیسے یہ گلوبل ویلج کے نہیں ایک عالمی قبرستان کے مکین ہوں۔ یا اس کے ساتھ جس نے کندھوں پہ اٹھا لیا ہو۔
نابلس سے 110 کلومیٹر کے فاصلے پر غزہ کی پٹی ہے۔ 20 لاکھ کی آبادی کی یہ بستی، بستے بستے بسنے والی اور بس بس کر اجڑنے والی ایک فلسطینی بستی اسرائیلی قابض فوج کے ظالمانہ اور معلوم تاریخ کے طویل ترین محاصرے کی ایک نمونہ مثال ہے۔
غزہ کے فوجی محاصرے کو ساڑھے 15 سال ہونے کو ہیں، غزہ کے تین اطراف میں خشکی پر اسرائیلی فوجی ناکوں اور چیک پوسٹوں کی صورت میں ہمہ وقتی گشت اور پہروں کی صورت موجود ہوتے ہیں۔ جبکہ چوتھی جانب سمندر میں اسرائیلی بحریہ کا محاصرہ موجود ہے۔ جبکہ فضائی نگرانی کے ہمہ وقت اہتمام کے علاوہ بمباری جیسی ستم کاری بھی اسرائیل جب دل چاہے کر لی جاتی ہے۔
محاصرے کے ان مسلسل ساڑھے پندرہ برسوں نے غزہ کو دنیا کی بدترین کھلی جیل میں تبدیل کر رکھا ہے۔ اس کھلی جیل کا کسی ایک آدھے حوالے سے اگر کوئی تقابل ہو سکتا ہے تو وہ جنت نظیر وادی کشمیر ہے۔ جنت ارضی کشمیرپر بھی پچھلی کئی دہائیوں سے تقریباً سات لاکھ بھارتی افواج نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ وہ بھی ایک کھلی جیل ہے۔حالیہ برسوں کی ایک مثال برما کے روہنگیا مسلمانوں کی صوبہ اراکان بھی رہی ہے۔ انہیں بھی اسی طرح گھیر کر مارا گیا۔ ابھی بھی حالات میں کوئی جوہری تبدیلی نہیں ہے۔
تاہم غزہ کا معاملہ کئی حوالوں سے دیگر سب محاصروں سے زیادہ خوفناک اور المناک ہے۔ یہ ایک ہی بستی ہے۔ اس بستی کا رابطہ ہر دوسری بستی سے کاٹ دیا گیا ہے۔ یہ دنیا کی گنجان ترین آبادیوں میں سے ایک ہے۔ اس کی خوراک کی ضروریات سے لے کر لباس، رہائشی حاجات اور ادویہ سمیت تقریباً ہر چیز کا انحصار دوسری جگہوں سے آنے پر ہے جو مکمل ’بلاکیڈ‘ کی وجہ سے ممکن نہیں رہا ہے۔
ساڑھے 15 سال کو چھونے والے اس متواتر ’بلا کیڈ‘ کی وجہ سے 20 لاکھ کی آبادی میں سے کم از کم 10 لاکھ کی آبادی کو صبح و شام سادہ سی خوراک بھی میسر آنا آسان نہیں رہا ہے۔ بھوک افلاس اور خوراک کی قلت کے شکار ان اہل غزہ کے لیے ان کے اڑوس پڑوس کے لوگوں سمیت دنیا بھر کے انسانی حقوق اور عالمی برادری کے سب نعرہ باز خاموش ہیں۔
غزہ کے مسلسل اسرائیلی فوجی محاصرے کی وجہ سے یہ بستی عملاً بیروزگاروں کی غالب اکثریت کی بستی بن چکی ہے۔ غزہ سے باہر مزدوری کے لیے جانے کے حق سے بھی اہل غزہ کومحروم کر دیا گیا ہے۔ حصول تعلیم کے لیے بھی غزہ سے نکلنا ممکن نہیں ہے۔ حتیٰ کہ علاج معالجے کے لیے کسی ہسپتال اور مناسب علاج گاہ تک پہنچنا غزہ کے مکینوں کے لیے غیر ممکن ہے۔
صرف یہی نہیں، ان ساڑھے 15 برسوں کے دوران پانچ مرتبہ اسرائیل کی طرف سے دنیا کی اس کھلی جیل پر جنگی جارحیت مسلط کی جا چکی ہے۔ بار بار غزہ کے ٹوٹے پھوٹے ہسپتالوں اور ادھورے تعلیمی اداروں کو بمباری کا نشا نہ بنایا جا چکا ہے۔ گویا مہذب دنیا کی قیادت کرنے والی انسان دوست عالمی طاقتوں کے سامنے ان فلسطینیوں کو باندھ کر مارا جا رہا ہے۔ دور دور تک کوئی امکان نہیں ہے کہ اسرائیل اس محاصرے کو ختم کر دے گا۔
ستم بالائے ستم یہ کہ رفح کی راہداری ان اہل غزہ کے لیے اس محاصراتی زندگی میں سانس لینے کی واحد صورت ہے۔ اسے بھی مصر جب چاہے بند کر دیتا ہے۔ بلاشبہ اسرائیل سے دوستی اور محبت و سفارت کا بانی مبانی ہونے کی وجہ سے مصر کو اپنے دوست اسرائیل کے لیے وفا شعاری کا تقاضا نبھانا ہوتا ہے۔ادھر اقوام متحدہ کے ادارے ’انروا‘ کی دو سال سے سرگرمیاں مالی مشکلات کی وجہ سے محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔ ’انروا‘ غزہ میں زیر محاصرہ انسانوں کے لیے ایک سہارا بن گیا تھا۔ ’انروا‘ تعلیم و صحت کے معاملات میں بھی متحرک ہو گیا تھا۔ اس لیے غزہ پر جنگی جارحیت کے دوران غزہ کے تمام شہریوں کی طرح یہ ’انروا‘ بھی اسرائیلی بمباری کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
امریکانے اقوام متحدہ کی امداد بند کر کے اس کا گلا بھی گھونٹ دیا ہے۔ اسرائیل کو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے فلسطینی پناہ گزینوں کی موجودگی بھی تکلیف دیتی ہے۔ جبکہ ’انروا‘ ان فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے کام کرنے لگا تھا۔غزہ کی آبادی پر مسلسل فوجی محاصرہ ہونے کی وجہ سے اس کی پندرہ سال تک کی تقریباً 45 فیصد آبادی نے اسی محاصرے کے ماحول میں آنکھ کھولی ہے۔ یہ 45 فیصد آبادی نہیں جانتی کہ غزہ کے باہر کی فلسطینی بستیاں کیسی ہیں؟ اگر یہ اسرائیلی محاصرہ اگلے پندرہ سال بھی جاری رہتا ہے تو بلاشبہ غزہ کی آبادی کا 60 فیصد سے زیادہ حصہ وہ ہو سکتا ہے جسے غزہ کی اس جیل سے باہر نکلنے ہی نہ دیا گیا ہو گا۔
اسرائیل کا منصوبہ پورے فلسطین کو جیل بنا دینے اور سارے ہی فلسطینی عوام کو اس طرح قید کر رکھنے کا ہے۔ اسی مقصد کے لیے 2002 میں اسرائیل نے مغربی کنارے کے علاقے میں ایک دیوار کھڑی کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ یہ 708 کلومیٹر تک پھیلی دیوار ہے جس نے مغربی کنارے اور یروشلم کے درمیان بھی رخنہ پیدا کیا ہے اور خود مغربی کنارے میں آباد بستیاں بھی اسرائیل کی قائم کردہ اس دیوار کی زد میں ہیں۔
شروع میں 67 شہروں، قصبوں اور دیہات کو اس دیوار کی زد میں لانے کا منصوبہ تھا تاکہ انہیں اس دیوار کے ذریعے محاصرے میں لیا جا سکے۔
اسرائیل کی بنائی گئی اس دیوار کی لمبائی اس کی زد میں آنے والے بستیوں کے محاصرے کی وسعت کا اظہار ہے۔ اس کی بلندی نو فٹ سے لے کر 30 فٹ تک ہے۔ بلاشبہ یہ فلسطینیوں کے ہر طرح کے معاشی، سماجی، سیاسی اور تعلیمی مقاطعے کے سارے مقاصد پورے کرتی ہے۔ لیکن اس کی تعمیر میں اسرائیلی بدنیتی کا دائرہ اس سے بھی وسیع تر ہے۔اسرائیل نے یہ بھی اہتمام کیا کہ جہاں بھی کسی فلسطینی بستی کے نزدیک کنواں، چشمہ، ندی یا پانی کسی بھی دوسرے امکان اور ذخیرے کی صورت موجود تھا۔ اسرائیل نے اس دیوار کے ذریعے اس بستی کو کاٹ کر اپنے ساتھ ملا لیا یے تاکہ فلسطینی اور ان کی سرزمین پانی کو ترستی رہے۔
مگر آفرین ہے فلسطینیوں پر کہ انہوں نے اسرائیل کی اس دیوار کو اپنے لیے دیوار گریہ نہیں بنایا کہ صدیوں سے روتے رہنے والی قوم کہلائیں۔ فلسطینیوں نے اسی دیوار کو اپنی آواز بلند کرنے کا ذریعہ بنا لیا ہے اور جگہ جگہ اس دیوار پر احتجاجی آرٹ کے نقوش و نگار بنا کر اس دیوار کو اسرائیل کے خلاف احتجاج کی گواہی بنا دیا ہے۔اسی اسرائیلی دیوار پر فلسطینی نڑاد امریکی صحافی خاتون شیریں ابو عاقلہ کی تصویر بنا دی گئی ہے کہ ابو عاقلہ نے اپنی جان پیش کر کے اپنی قوم کی آزادی کے لیے جدو جہد میں حصہ لیا تھا۔ اس کی تصویر بنانے والے فلسطینی مصور نے اسرائیلی دیوار پر بنائی گئی تصویر کے ساتھ لکھا ہے۔
انگریزی زبان میں لکھی گئی یہ تحریر دراصل فلسطینی جدوجہد کا وہ نوشتہ دیوار ہے کہ جو بزبان شاعر اس امید کا بلند ا?ہنگ اظہاریہ ہے کہ
میں کٹ گروں کہ سلامت رہوں یقیں ہے مجھے
کہ یہ حصار ستم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی تو گرائے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔