... loading ...
دوستو،بیویوں کے حوالے سے اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ یاتو منفی باتیں پڑھنے کو ملتی ہیں یاپھر ان کا لطیفوں اور مزاحیہ شاعری میں بے حدتذکرہ ملتا ہے۔۔ کامیڈینز بھی اپنی کامیڈی میں بیویوں کو مذاق اڑانے سے باز نہیں آتے۔۔ لگتا ہے کہ بیویاں صرف اسی کام کے لئے رہ گئی ہیں۔۔کچھ نے اسے پیر کی جوتی بنا کر رکھا ہوا ہے کچھ خود ’’تھلے‘‘ لگے ہوئے ہیں۔۔بیلنس کہیں نظرنہیں آتا۔۔
ہمارے ایک مفتی دوست بتارہے تھے کہ ۔۔زمانہ طالب علمی میں جب اس حدیث پہ پہنچے۔۔’’ ان عورتوں سے نکاح کرو جو محبت کرنی والی ہوں بچے جننے والی ہوں‘‘۔۔ تو ہم نے استاد جی سے سوال کیا۔۔ ہمیں کیسے پتہ چلے گا کون محبت کرنے والی ہے اور کون بچے جننے والی ہے؟؟۔۔۔استاد جی نے اس کا جواب دیا تھا خاندان اور حالات سے پتہ چلتا ہے۔۔ اس وقت کچا ذہن تھا سن کر یاد کرلیا۔۔ لیکن بات سمجھ نہیں آئی۔۔ اب جب بڑے ہوگئے اور سوچنے سمجھنے لگے، دنیا کی کچھ شد بد آگئی تو بات سمجھ آئی۔۔حدیث شریف میں محبت کرنے والی پھر بچے جننے والی عورتوں کا ذکر ہے۔۔۔ جو عورتیں اپنے شوہروں سے محبت کرتی ہیں وہ ان کے لیے بچے بھی شوق سے پیدا کرتی ہیں۔۔ گویا یوں فرمایا گیا کہ ایسی عورتوں سے نکاح کرو جو آپ سے محبت کریں اور بچے پیدا کریں۔۔۔ گویا حدیث پاک میں محبت کرنے والیوں سے نکاح کا ذکر ہے۔۔۔دوسری بات۔۔ یہ حدیث خاندانی مشترکہ اقدار اور عادات کی طرف اشارہ کررہی ہے۔۔ ہر خاندان کی عورتوں کی مخصوص عادات اور خصلتیں ہوتی ہیں۔۔ کسی خاندان میں وفا زیادہ پائی جاتی ہے ۔ ۔ عورتیں گھر بسانے والی ساتھ نبھانے والی، شوہروں سے طلاقیں نہ مانگنے والی ہوتی ہیں۔۔ اور کسی خاندان میں وفا ہوتی ہے نہ ساتھ چلنے کی راہ رسم۔۔ طلاقیں لینی کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔۔کسی خاندان کی میں تکبر زیادہ پایا جاتا ہے کسی میں عاجزی زیادہ۔۔۔کسی خاندان میں عموما عورتوں میں یہ وصف کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے کہ وہ اپنے شوہر کو کسی کے ساتھ شیئر کرنا پسند نہیں کرتیں حتی کہ اپنے خاندان، والدین بہن بھائیوں سے ملنا جلنا تک پسند نہیں کرتیں۔۔ کچھ کی مشترکہ عادت ہوتی ہے کہ وہ شوہر کو مٹھی میں کرنا چاہتی ہیں۔۔۔کسی خاندان کی عورتوں میں سلیقہ اور گھر داری پائی جاتی ہے۔۔ گھر کو سجا کر، سنوار کر اور صاف ستھرا رکھتی ہیں۔۔ کسی خاندان کی عورتوں میں محبت کا وصف غالب ہوتا ہے، اپنے شوہروں سے بے پناہ محبت کرتی ہیں، شکر اور صبر کا پیکر ہوتی ہیں۔۔ کچھ خاندانوں میں بچے پیدا کرنے کا رواج ہوتا ہے زیادہ بچے پیدا کرنا معیوب نہیں سمجھا جاتا اور کچھ خاندانوں میں زیادہ بچے پیدا کرنے کو ناپسندیدہ نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اس لیے اس خاندان کی عورتین ایک دو بچے جن کر آرام سے بیٹھ جاتی ہیں۔۔ رشتہ کرتے وقت ایسے خاندانوں کا انتخاب کرنا چاہئے جس میں محبت اور گھر بسانے خوشی سے اولادیں پیدا کرنے اور پالنے کی عادات موجود ہوں۔۔اس لیے رشتے کرتے وقت خاندانی اقدار کو ضرور دیکھنا چاہئے۔۔ خاندان کی دوسری عورتوں کے حالات دیکھیں۔۔ ان کا رہن سہن چال چلن اور عادات واطوار کا مشاہدہ کریں۔۔ پہلے سے شادی شدہ بہنوں کے حالات دیکھیں۔۔ اگر وہ خوش اسلوبی سے گھر بسا رہی ہیں تو ان شاء اللہ یہ عورت بھی گھر بسائے گی۔۔۔
دولت مند باپ نے اپنے کاہل اور نکھٹو بیٹے کو ڈانٹتے ہوئے کہا۔۔۔’’تم نہایت ہی کاہل اور سست آدمی ہو، کوئی کام وغیرہ نہیں کرتے۔ بس ہر وقت پڑے رہتے ہو، فرض کرو تمہاری شادی ہو جائے اور تمہاری بیوی تمہیں گھر سے باہر جانے اور کام کرنے پر مجبور کرے تو تم کیا کرو گے ‘‘؟۔۔بیٹا جو بستر پر نیم درازاپنے موبائل پر ’’پب جی‘‘ کھیل رہا تھا ، باپ کو دیکھے بغیر کہتا ہے۔۔دوسری بیوی کی تلاش۔۔کسی استاد نے کلاس میں سوال کیا۔۔ شادی سے پہلے مرد کیا ہوتا ہے ؟ایک شاگرد نے جواب دیا، انسان۔۔استاد نے اگلا سوال داغا، اور بعد میں؟؟۔۔شاگرد نے فوری جواب دیا۔۔شوہر۔۔ایک خاتون ٹیچر نے کلاس میں بچے سے پوچھا، تم بڑے ہوکرکیا کروگے؟؟بچے نے جواب دیا، نکاح۔۔لیڈی ٹیچر نے سوال کی وضاحت کی میرا مطلب ہے کیا بنوگے؟،بچے نے کہا، دلہا۔۔لیڈی ٹیچر نے پھرسوال کیا، میرا مطلب بڑے ہو کر کیا حاصل کرو گے؟۔۔بچے نے جلدی سے کہا، دلہن۔۔ٹیچر کو غصہ آگیا، کہنے لگیں، بدتمیز، بڑے ہوکر اپنے امی،ابو کے لئے کیا کروگے؟بچے نے معصومانہ انداز میں کہا، بہو لاؤں گا۔۔ٹیچر نے پھر کہا، ارے بے وقوف، تمہارے ابوتم سے کیا چاہتے ہیں؟ بچے نے جلدی سے کہا، پوتا۔۔ٹیچر کا غصہ اپنے عروج پر پہنچ گیا، ابے نالائق،تمہاری زندگی کا مقصد کیا ہے؟، بچے نے شرماتے ہوئے کہا،شادی۔۔
بیویوں پر بات شروع ہوئی تھی۔۔ جب ایک دکاندار ایک برقع پوش خاتون کو کپڑوں کے تھان کے تھان دکھا دکھا کر تھک گیا تو زچ آکر کہنے لگا۔۔ لگتا ہے باجی، آپ کا کچھ لینے کا موڈ نہیں ہے۔۔وہ برقع پوش خاتون نہایت اطمینان سے بولی۔۔ ہاں، اصل میں سبزی لینے گھر سے نکلی تھی تو راستے میں آپ کی دکان نظر آگئی تو سوچا،کپڑے ہی دیکھتی جاؤں۔۔ اسی طرح ایک اور واقعہ میں۔۔دکاندار کپڑے دِکھا دِکھا کے تھک گیا۔۔ایک لڑکی بولی۔بھائی کچھ اور دکھائیں۔۔ دکاندار تپ کر بولا۔۔ باجی ان کے علاوہ اب صرف کفن ہی بچا ہے۔۔ویسے یہ بات بھی سوفیصد حقیقت ہے کہ عورت ہی عورت کی دشمن ہوتی ہے۔۔اس کی مثال کچھ یوں لے لیں کہ۔۔اگر بیٹی اور داماد مل کر کھانا کھائیں تو ان میں کتنی محبت ہے،اگر بیٹا اور بہو اکٹھا کھانا کھائیں تو تعویزوں کا اثر ہے۔۔سب خواتین ایک جیسی نہیں ہوتیں۔۔وہ غصے سے مڑی، الماری کھولی اور کپڑے بیگ میں پھینکنے لگی، وہ اس کی طرف دیکھے بغیر بولا۔۔ اگر آپ اپنے گھر جا رہی ہیں تو میں لینے نہیں آوں گا آپ اپنی مرضی سے جا رہی ہیں۔۔وہ مڑی اور طنزا مسکراکر کہنے لگی۔۔میں ان لڑکیوں میں سے نہیں ہوں جو لڑ کر اماں ابا کے گھر چلی جاتی ہیں، میں ان لڑکیوں میں سے ہوں جو جھگڑ ے کے بعد شوہر کے گھر ہی رہ کر اس کا جینا حرام کرتی ہیں۔اٹھایئے اپنے کپڑے اور باہر صوفے پر چلے جائیے کیوں کہ یہ الماری میرے جہیز کی ہے ،بیڈ اور ماسٹر کامولٹی فوم بھی میرے ابا کا دیاہوا ہے۔۔کچھ خواتین انتہائی سادہ اور معصوم بھی ہوتی ہیں۔۔باباجی بتارہے تھے کہ ۔۔ہمارے کچھ مہمان پنڈی سے کراچی پہلی بار آئے۔۔گھر پر دعوت کی تو بس پراؤنسprawns تیار ہونے رہتے تھے۔جب کھانا لگانے کے لیے کہا گیا تو ہم نے کہا کہ بس پراؤنسprawns تیار ہو جایئں تو لگا دیتے ہیں۔کھانا لگا بہت تعریف ہوئی اور پھر مہمان رخصت ہو گئے۔جب ہماراپنڈی جانا ہوا تو انہیںمہمانوں کے گھر ہمیںبھی دعوت دی گئی۔خاتون خانہ کے شوہر نے اپنی اہلیہ سے پوچھا۔۔ارے بھئی کھانا لگنے میںکتنی دیر ہے؟۔۔خاتون بولیں۔۔ بس ’’پران‘‘ تیار ہو جایئں تو کھانا لگاتے ہیں۔۔ہم نے پوچھا ، کیا پنڈی میں بھی prawns با آسانی مل جاتے ہیں؟۔۔خاتون خانہ نے جواب دیا۔۔ ہاں، بہت آرام سے، اگر کبھی کبھار نہیں ملتے ہیں تو میںچکن کے پران بنا لیتی ہوں۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔مسکراتے رہا کریں، دنیا اسی بات سے کنفیوز رہے گی کہ یہ کس بات پر اتنا خوش ہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔