وجود

... loading ...

وجود

چینی کمیونسٹ پارٹی کانگریس اور مغرب کے خدشات

جمعرات 03 نومبر 2022 چینی کمیونسٹ پارٹی کانگریس اور مغرب کے خدشات

 

چند سال قبل تین سینیئربھارتی صحافیوں کی معیت میں مجھے چین کے دورہ کے دوران تبت اور اسکے متصل یوننان صوبوں کے دو ردراز دیہی علاقوں کو دیکھنے کا موقع ملا۔ بلند و بالا پہاڑوں میں واقع دیہاتوں میںضرورت کی ہر چیز اور جدید وسائل سے مالا مال اسکول و دیگر ادارے وغیرہ دیکھ کر یقین کرنا مشکل ہے کہ یہ ترقی بس پچھلی ایک دہائی کی دین ہے۔ تقریباً ہر دیہات کے کمیونٹی سینٹر میں اس علاقے کی پرانی تصویریں اور ماڈل رکھے ہوئے ہیں، تاکہ یہ سند رہے کہ ایک یا دو دہائی قبل اس گاو?ں کی تصویر کیسی تھی۔ چین کی اس بے مثال ترقی کی وجہ سے کروڑوں افراد غربت کی لکیر سے نکل کر مڈل کلاس کے زمرے میں ا?گئے ہیں۔ اگر بتایا جائے کہ ان دور دراز علاقوں میں سڑکوں پر سونا بچھایا گیا ہے، تو بے جا نہ ہوگا۔ بھارت کے دور افتاد ہ اور پسماندہ اروناچل پردیش کے توانگ علاقہ کی سرحد کے دوسری طرف چین کا زڈانگ شہر خوبصورتی، جدید وسائل اور بلند و بالا عمارتوں کے معیار کو لیکر کسی بھی یورپی شہر کو شرمند ہ کرسکتا ہے۔ تبت کے دارالحکومت لہاسہ کی دو پہاڑیوں کے درمیان ایک مصنوعی جھیل بنائی گئی ہے۔ بلندی پر واقع دلائی لامہ کی سابق رہائش گاہ پوٹالہ پیلس سے اس کا نظارہ نہایت ہی خوش نما ہے۔ اس جھیل کے کنارے اس کا انچارج انجینئر مترجم کے ذریعے ہمیں بتا رہا تھا کہ اس جھیل کو بنانا سول انجنیئرنگ کے نقطہ نظر سے نہایت ہی مشکل کام تھا، کیونکہ دریائے لہاسہ کا لیول اس کے نیچے تھا، اس لئے دریا کے بیڈ کو بلاسٹ کرناپڑا۔ جب میرے ایک ساتھی نے سوال کیا کہ اس پروجیکٹ کی تعمیر میں کتنا وقت لگا، تو اس چینی ا نجینئرنے نہایت ہی ندامت اور پشیمانی کے ساتھ جواب دیا۔ ’’کہ اس جھیل کو بنانے میں ڈیڑھ سال کا عرصہ لگا۔‘‘ اس کے خیال میں یہ بہت زیادہ وقت تھا۔ ہم ہنس پڑے۔
جنوبی ایشیاء میں ہمارے ملکوں میں تو پروجیکٹ رپورٹ بنانے میں ہی کئی دہائیاںلگ جاتی ہیں۔ چین اور ترکی دو ایسے ممالک ہیں، جو 70 اور 80ء کی دہائیو ں میں زندگی کے معیار کے حوالے سے بھارت اور پاکستان سے بھی گئے گذرے تھے۔ گو کہ یہ بحث طلب امرہے کہ کیا اقتصادی ترقی و خوشحالی ،آزادی اظہار کا نعم البدل ہوسکتی ہے، مگر یہ بھی سچ ہے کہ چند دہائیوں میں ہی ایک موثر، پر خلوص اور سنجیدہ لیڈرشپ کی بدولت یہ ممالک ترقی کی منزلیں طے کرتے گئے اور ا ن کا ہر شہر یا گائوں اس وقت ٹیکنالوجی پر مبنی ضروریات زندگی، بنیادی ڈھانچہ، وسائل اورعوام کو سوشل سیکورٹی کور دینے کے اعتبار سے یورپ یا امریکا سے کہیں آگے ہیں۔ 1978میں چینی لیڈرڈنگ ڑائو پنگ نے معاشی اصلاحات کو جو بیڑا اٹھایا اور جس طرح اب موجودہ سربراہ شی جن پنگ نے انکو آگے بڑھایا، انہو ں نے چاہئے ملٹری ہو یا اقتصادی وسائل، چین کو تقریباً امریکا کے برابر کھڑا کر دیا ہے۔ڈنگ ڑائو پنگ نے جس وقت آہنی دیوار میں شگاف کرکے معاشی لبرلائزیشن کا اعلان کرکے مارکیٹ اکانومی کو اپنایا، تو تب تک چینی کمپنیاں اس لیول تک پہنچ چکی تھیں کہ وہ مغربی دنیا کی مسابقت کر سکیں۔ مغربی کمپنیوں کو چین جیسی وسیع مارکیٹ تو ملی، مگر اس سے بڑی مارکیٹ چینی کمپنیوں کو حاصل ہوگئی۔ اس کے برعکس بھارت نے جب 1991میں معاشی لبرلائزیشن کا اعلان کیا تو اس کی کمپنیاں مسابقت کے لیے تیار ہی نہیں تھیں۔ جس کی وجہ سے ملک میں مینو فیکچرنگ تقریباً منجمد ہو گئی ہے۔ بھارت کی اپنی ایمبسڈر کار، جس کی مارکیٹ پر اجارہ داری تھی، لبرلائزیشن کے بعد نظر ہی نہیں آرہی ہے۔ ہاں انگریزی زبان سے واقفیت کی وجہ سے سروس سیکٹر میں بھارت کو برتری مل گئی۔
امریکا کی 19.4ٹریلین ڈالر کے مقابلے چین کی اکانومی کا حجم 12.2ٹریلین ڈالر ہے۔ دس سال قبل یہ تین ٹرلین ڈالر سے بھی کم تھی۔ 2011میں ہوجن تائوکے اقتدار کے آخری مہینوں کی سب سے بڑی خبر تھی، کہ چین نے جاپان کی اکانومی جو ان دنوں تین ٹریلین ڈالر کے لگ بھگ تھی، کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ جاپا ن اس وقت چار ٹریلین ڈالر کی اکانومی کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے اور چین سے کوسوں پیچھے ہے۔ لگ بھگ چین کی ہی جتنی آبادی والے ملک بھارت کی اکانومی کا حجم بس 2.6ٹریلین ڈالر ہے۔ الیکٹرک کاریں بنانے میں چین اس وقت ورلڈ لیڈر ہے۔ چین کی اسی بڑھتی ہوئی اقتصادی اور ملٹری طاقت کی وجہ سے بیجنگ کے گریٹ ہال میں منعقد چینی کمیونسٹ پارٹی کی بیسویںکانگریس پر سب کی نگاہیں ٹکی ہوئی تھیں۔ اس طرح کی کانگریس پانچ سال کے بعد ہوتی ہے، اس میں حکومت کی کارکردگی پر بحث و مباحثہ کیا جاتا ہے اور مستقبل کے لیے پالیسی ڈائیرکشن دی جاتی ہے۔ اس کانگریس کے اختتام پر فیصلہ کیا گیا کہ جنگی جذبے کے ساتھ اندرونی چیلنجوں کا مقابلہ کیا جائیگا اور دنیا میں طاقت کے بدلتے توازن کا بھر پور فائدہ اٹھاکر دنیا کے سامنے ایک نیا تزویراتی ویڑن رکھا جائیگا۔ یہ اشارہ اقوام عالم میں امریکا کی گرتی ہوئی ساکھ اور چین کی طرف سے اس خلا کو پر کرنے کے عزم کا اظہار تھا۔ جس نے امریکا اور مغربی ممالک میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔ بیجنگ میں ملک بھر سے آئے 2,300ڈیلی گیٹس نے طویل مدتی اثرات کے حامل فیصلے کرتے ہوئے پارٹی کے ایک ڈھانچے کو بھی منظوری دی۔ یعنی ایک نئی 24رکنی پولٹ بیورو اور اس کے اند ر سات رکنی پولٹ بیورو اسٹینڈنگ کمیٹی (پی ایس سی)جو ایک طرح سے سپر کیبنٹ کاکام کرتی ہے ، کا قیام عمل میں لایا۔ اس میں چار نئے چہروں، لی کیانگ، کائی کیو، ڈنگ زوکسیانگ، اور لی ڑی کو جگہ مل گئی اور ظاہر ہے کہ یہ چین کے مسقبل کے لیڈران ہونگے۔ پرانے لیڈران میں ڑائو لیجی اور وانگ ہننگ نے اپنی رکنیت برقرار رکھی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ 69 سالہ صدر شی جن پنگ نے جن کو تیسری بار کمیونسٹ پارٹی کے لیڈر کے طور پر اگلے پانچ سال کے لیے پھر منتخب کیا گیا، پی ایس سی کو اپنے وفاداروں سے بھر دیا ہے۔ جن اراکین کی طرف سے موہوم سی بھی اختلاف رائے کا خدشہ تھا، ان کو باہر کا راستہ دکھایا گیا ہے۔ اسی قد م نے مغربی ممالک کے تجزیہ کاروں کی نیندیں حرام کر کے رکھ دی ہیں۔ ان کے مطابق اس کا مقصد یہ ہے کہ ملک کی تاریخ کے سب سے زیادہ بااثر حکمران کے طور پراپنے ا? پ کو منوانے کے بعد اب شی جن پنگ اب کوئی اہم قدم اٹھانے والے ہیں، جس کو منوانے اور عملی جامہ پہنانے کے لیے پارٹی اور حکومت کے اندر انہوں نے راستے صاف کر دیے ہیں۔ وہ چینی کمیونسٹ پارٹی کی سیاست میں اتنی طاقت حاصل کرنے والے پہلے شخص بن گئے ہیں
(جاری ہے )


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر