وجود

... loading ...

وجود

جسٹس ریٹائرڈ نور محمد مسکانزئی قتل کیس میں پیشرفت

بدھ 02 نومبر 2022 جسٹس ریٹائرڈ نور محمد مسکانزئی قتل کیس میں پیشرفت

معلوم نہیں کہ بلوچستان میں غیر یقینی حالات کا اختتام کب ہوگا، صوبے میں بدامنی کے واقعات میں ایک بار پھر اضافہ دیکھا گیا ہے۔خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں ٹی ٹی پی کارندوں کی آمد پر پورا علاقہ سراپا احتجاج بن گیا۔ یقیناً ریاست متحرک تھی اور دہشتگرد گروہوں کے سوات میں ٹھکانوں کے امکانات اور اندیشوں کا خاتمہ کردیا، یہ گروہ افغانستان کے اندر سے بھتہ وصولی کے فون کر تے ہیں۔عوامی اور سیاسی حلقوں کی تشویش بجا ہے تاہم ان کے کئی الزامات درست نہیں۔ بہر حال خیبر پختونخوا میں ان گروہوں کے خطرات بدستور موجود ہیں۔ یہاں بلوچستان میں قانون نافذ کرنے والے ادارے بدامنی کے پہلو پر نظر رکھی ہوئی۔ وقتاً فوقتاً کارروائیاں بھی عمل میں لائی جاتی ہیں۔ گویا کامیابیوں اور ناکامیوں کے ساتھ ان گروہوں سے نبرد آزمائی ہورہی ہے۔ایران کی سرزمین پر ان گروہوں کی موجودگی کی خبریں اور اطلاعات ہیں۔وفاقی شرعی عدالت اور بلوچستان ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس محمد نور مسکانزئی کے قتل میں ملوث گرفتار ملزم نے بھی ایرانی حدود میں تربیت لینے کا انکشاف کیا ہے۔
جسٹس نور مسکانزئی کو 14 اکتوبر 2022 کو خاران میں مسلح افراد نے مسجد کے اندر عشاء کی نماز کے دوران بہیمانہ اور بزدلانہ طور پر گولیاں برسا کر قتل کردیا تھا۔گرفتار ملزم شفقت اللہ عرف دلاور عرف سجاد خاران ہی کا رہائشی ہے۔ بقول کا?نٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے یہ نوجوان نے 2020ء میں کالعدم بی ایل اے سے وابستہ ہوا اور کئی واقعات میں ملوث رہا۔ سی ٹی ڈی نے 29 اکتوبر کو تفصیلات سے آگاہ کیا جس کا اہتمام آئی جی پولیس آفس میں کیا گیا تھا۔یہاں گرفتار ملزم کا اعترافی ویڈیو بھی اخبارات اور ٹی وی چینلز کے نمائندوں کو دکھایا گیا۔ کائونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ پولیس کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل اعتزاز احمد گورائیہ کے مطابق گرفتار شخص محمد نور مسکانزئی کے قتل کا مرکزی ملزم ہے۔ بلاشبہ جسٹس نور محمد مسکانزئی کے قتل کی شرمناک واردات کی ذمہ داری حربیار مری سے منسوب کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کرلی تھی۔اس واقعہ نے بلوچستان کو شرمسار کیا ہے، صوبے کی روایات، شائستگی اور بڑوں اور زعماء کے احترام اور تہذیب کا چہرہ بد نما اور مسخ کرکے رکھ دیا ہے، یقیناً صوبے کے اندر اس گروہ کی مذمت و ملامت ہوئی ہے، پارلیمان میں بیٹھے بعض قوم پرستوں کی خاموشی کو بھی صریح تضاد تصور کیا گیا ہے چناںچہ اس افسوسناک واقعے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے فوری طور پر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی گئی۔ڈی آئی جی سی ٹی ڈی اعتزاز احمد گورائیہ کی سربراہی میں آٹھ ارکان پر مبنی اس جے آئی ٹی میں ڈی آئی جی رخشان ڈویڑن، ایس ایس پی انویسٹی گیشن کوئٹہ، انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) خاران، ملٹری انٹیلی جنس خاران، انٹیلی جنس بیورو (آئی بی ) خاران، ایف سی انٹیلی جنس خاران کے نمائندے شامل ہیں۔ڈی آئی جی اعتزاز گورائیہ نے بتایا ہے کہ گرفتار ملزم نے کالعدم بی ایل اے میں شامل ہونے کے بعد تربیت ایران کے علاقے‘‘سراوان‘‘ میں حاصل کی تھی۔ یہ ملزم 2021ء میں ایف سی چیک پوسٹ خاران پر گرنیڈ لانچر حملے، خاران کے چیف چوک پر موٹر سائیکل بم دھماکے میں بھی ملوث تھا۔جسٹس (ر) محمد نور مسکانزئی کے بھائی کے بلاک بنانے والی فیکٹری میں کام کرنے والے دو مزدوروں کو بھی فائرنگ کرکے زخمی کردیا تھا۔ خاران میں حساس ادارے کے دفتر پر گرنیڈ لانچر حملہ کرچکا ہے۔ یہاں تک کہ کوئٹہ میں بھی وارداتیں کی ہیں۔ 2022ء میں کوئٹہ کے چمن پھاٹک پر دستی بم حملے کا اعتراف بھی کیا ہے۔اعتزاز گورائیہ کہتے ہیں کہ سی ٹی ڈی کی کارروائیوں کو مشکوک کہنا غلط ہے، کئی بار کارروائیوں میں اہلکار شہید اور زخمی ہوچکے ہیں۔ کسی سے ذاتی دشمنی نہیں، سی ٹی ڈی پولیس کا حصہ ہے، پولیس کے قوانین اور آئین کے تحت کام کرتے ہیں اور اس کا آئی جی پولیس دفتر اور محکمہ داخلہ باقاعدہ چیک اینڈ بیلنس رکھتا ہے۔ سی ٹی ڈی کی کارروائیوں پر اگر کسی کو اعتراض و تحفظات ہیں تو محکمہ پولیس سے رابطہ کرسکتا ہے۔
اگر کسی کو شبہ ہے کہ کوئی شخص لاپتہ تھا تو اس کی ایف آئی آر بھی درج ہوئی ہوگی۔گورائیہ کہتے ہیں کہ ہر ایک شخص کو مسنگ پرسن نہیں کہہ سکتے۔وفاقی حکومت، پولیس، محکمہ داخلہ بلوچستان کا باقاعدہ طریقہ ہے جس کے تحت کسی شخص کو لاپتہ قرار دیا جاتا ہے۔ لاپتہ افراد کے حوالے سے باقاعدہ فورم موجود ہے۔انہوں نے سی ٹی ڈی کی جانب سے گزشتہ ایک دو برسوں کی گرفتاریوں کی تفصیلات بھی پیش کیں اور کہا کہ‘‘ 666 افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں سے 121 ملزمان کو سزائیں ہوئیں ،بعض کو دس دس اور چودہ چودہ سال بھی سزا ہوئی اورعدالت عالیہ نے بھی ا ن سزا?ں کی توثیق کی۔ 36 افراد ضمانت پر جبکہ 158 ملزمان مفرور اور اشتہاری ہیں جن کی گرفتاری کی کوشش کی جارہی ہیں۔ کچھ لوگ بری بھی ہوئے ہیں جن کے خلاف عدالتوں میں اپیلیں دائر کی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سی ٹی ڈی کی کارروائیوں کے بعد ایک طرح سے بیانیہ بنایا جاتا ہے تاکہ سیکیورٹی ادارے زیادہ آگے نہ بڑھ سکیں۔بہر حال یہ حقیقت ہے کہ کالعدم گروہ مختلف ذرائع سے حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے رہتے ہیں۔ 12 جولائی کو زیارت سے لیفٹیننٹ کرنل لئیق اور اس کے کزن کے اغوا اور قتل کی ذمہ داری کالعدم بی ایل اے بشیر زیب دھڑا قبول کرچکا ہے۔ یہ گروہ اکثر زیادہ نقصان پہنچانے کے دعوے کرتے ہیں۔ 25 ستمبر کو ہرنائی کے خوست میں پاک فوج کے ہیلی کاپٹر حادثہ کو بھی اپنی کارروائی کہا۔یہ حادثہ ہرنائی کے علاقے خوست کے مقام پر پیش آیا تھا جس میں دو میجر پائلٹ سمیت چھ اہلکار شہید ہوگئے تھے۔ ان دنوں اس گروہ نے دو افراد کو اغوا کرلیا تھا جن کی ویڈیو بھی جاری کی گئی۔ بعد ازاں رہائی کے بدلے اپنے لوگوں کی رہائی کا مطالبہ کردیا۔ مغویوں میں ایک صوبیدار کلیم اللہ اور دوسرا محمد فیصل ہے، بقول حکام محمد فیصل اینٹوں کا کاروبار کرتا ہے جو ہرنائی کے علاقے زرد آلود سے اغوا ہوا تھا۔31 اکتوبر کو ہرنائی ہی کے علاقے شاہرگ کے پہاڑوں میں کئے گئے آپریشن میں مسلح گروہ کے چار بندے مارے گئے۔آئی ایس پی آر کے مطابق آپریشن میں دو اہلکار شہید ہوگئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر