... loading ...
اس کاحلیہ بتارہاتھا وہ کہیں دور سے آ یاہے یقینا اس کا تعلق مدینہ طیبہ سے نہیں ہوسکتا اپنے ہی پسینے میں شرابور کچھ ڈرا ،کچھ سہماسہما سا ،چہرے پرپریشانی صاف دکھائی دے رہی تھی مسافر ایک جگہ رکا کچھ لوگ ایک دکان کے آگے کچھ کھاپی رہے تھے اس نے اسلام و علیکم کہا اور ایک شخص سے پوچھا خلیفہ المسلمین سے ملاقات کہاںپرہوسکتی ہے ؟
آپ کو ان سے کیا کام ؟ اس شخص نے سوالات کی بوچھاڑکردی ابوبکرؓ سے کیوں ملنا چاہتے ہو؟
یہ میں انہیں کو بتائوںگا مسافرنے تھوک نگلتے ہوئے جواب دیا
چلو آپ کی مرضی اس شخص نے نرمی سے کہا لگتاہے کہیں دور سے آ رہے ہو اس لحاظ سے آپ تو مہمان ہوئے نا اور مہمان تو اللہ کی رحمت ہوتے ہیںوہ مسکراتے ہوئے کہنے لگا اگرآپ پسند کریں تو میں آپ کی کچھ میزبانی کی سعادت حاصل کرنا چاہتاہوں مسافربھی مسکرادیا وہ تو یہی چاہتا تھا کچھ کھانے کو مل جائے وہ ملک شام سے سفر کرتا ہوا آیا تھا جیب خالی اور چہرے پر تفکرات ۔۔ وہ کچھ سوچنے لگا کہ میزبان کی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی آپ منہ ہاتھ دھو لیں پھر میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میںآپ کو ساتھ لیے جائوںگا مسافر نے اثبات میں سر ہلایا ۔ کچھ خاطر مدارت کے بعدمیزبان اسے لے کر مسجد نبوی ﷺ آگیا اس نے اشارے سے بتایا کہ وہ ہمارے خلیفہ ہیں ۔مسافرآپؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا کہ آپ امیر بھی ہیں یعنی مالدار بھی ہیں اور امیر بھی یعنی مسلمانوں کے سربراہ بھی ہیں۔ جناب کاروبار میں نقصان ہونے کی وجہ سے میں بہت مقروض ہوگیا ہوں میری مد فرمائیں آپ مسافر کو اپنے گھر لے گئے مسافرنے دیکھا باہر سے دروازہ بہت خوبصورت تھا لیکن گھر میں مفلسی کے آثارنمایاں تھے کوئی ایک چارپائی بھی نہ تھی کھجور کی چھال کی چٹائیاں بچھی ہوئی تھیں اور وہ بھی پھٹی ہوئی سیدناصدیق ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے چٹائی پر بٹھا یا اندر گئے اور اسے کھجوریں پیش کیں پھراس سے مخاطب ہوکر کہنے لگے میں آپ کو سچی بات بتاتاہوں تین دن سے میں نے ایک اناج کا دانہ بھی نہیں کھایا میرا اور میرے اہل ِ خانہ کاکھجوروں پر گزارا ہورہاہے ،بیت المال سے جو وظیفہ ملتاہے اللہ کا شکرہے گذربسرہوجاتی ہے مسافرنے مایوسی سے کہا حضور میں اب پھر کیا کروں میں تو بہت دور سے امید لگا کر آیا تھا۔ سیدناصدیق ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے تبسم فرمایااوربڑی متانت سے کہا میں تمہیں ایک ایسے شخص کے پاس بھیج دیتاہوںجوبڑا غنی ہے جس پر اس کا دست ِ شفقت ہوجائے وہ بھی غنی ہوجاتاہے۔
مسافرکہنے لگا مجھے تو بہت سارے پیسے چاہیے ہیں جس سے میرا قرض بھی اداہوجائے،گھروالوںکی کفالت بھی اور میں چھوٹا موٹا کاروبار بھی کرلوں میں بڑی امیدلے کر آپ کے پاس آیا تھا آپ کی باتیں سن کر میں بہت مایوس ہوگیاہوں افسوس یہاں تک کی مسافت بے کارگئی۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا جہاںمیں تجھے بھیج رہاہوں وہ اتنا غنی ہے کہ جس پر اس کا دست ِ شفقت ہوجائے وہ غنی ہوجاتاہے جہاںتیری سوچ وہاں ختم ہوتی ہے جہاں سے عثمان ؓ کی سخاوت شروع ہوتی تو مسافرنے بھی حضرت عثمان غنی کے درجنوں قصے سن رکھے تھے وہ جانتا تھا موصوف نے مدینہ شریف میں 35000درہم میں میٹھے پانی کا ایک کنواںخریدکر مسلمانوںکے لیے وقف کردیا ہے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کا نام سن کر مسافر کی جان میں جان آئی ۔مسافر کہنے لگا میںآپ کا نام لوں کہ مجھے امیرالمومنین نے بھیجا ہے ۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا شایداس حوالے کی ضرورت ہی نہ پڑے لور تمہارا کام ہوجائے۔بس صرف اتنا بتانا کہ میں مقروض ہوں اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہ کا نوکر ہوں۔ مسافر کہنے لگا کیا وہ دلیل یاحوالہ نہیںمانگیں گے۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا عثمانؓ سخاوت کرتے وقت دلیل یا حوالے نہیں مانگتے عثمان اللہ کی راہ میں دیتے ہوئے تفتیش بھی نہیں کرتا ،اور سخاوت کرتے وقت ٹٹولنا عثمان کی عادت نہیں۔
مسافر امید اور مایوسی کی الجھن میں چلا گیا پوچھتے پوچھاتے اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ مطلوبہ دروازے پر دستک دی ۔اندرسے کسی مردکی آواز آرہی تھی وہ سوچنے لگا شایدیہی حضرت عثمان غنی ہوں گے جو “اپنے بچوں کو ڈانٹ رہے تھے کہ کتنے فضول خرچ ہو جو دودھ میں شہد ملا کر پیتے ہوں دودھ میٹھا شہد بھی میٹھا ہوتاہے ایک چیز استعمال کرلو تم کوئی بیمار تھوڑی ہوں۔مسافر نے دل ہی دل میں خودکلامی کے سے اندازمیں کہا خلیفہ ابوبکرؓ تو اس شخص کے بارے میں بڑی بڑی باتیں بتا رہے تھے لوگوںنے اس کی سخاوت کے قصے مشہورکررکھے ہیں یہاں تو دودھ اور شہد پر لڑائی ہو رہی ہے اور مجھے تو کئی ہزار دینار چاہئیںکیا یہ اتنی بڑی رقم دینے کا حوصلہ رکھتاہے اسی اثناء میںکہ اندر سے دروازہ کھلنے کی آواز آئی مسافر الرٹ ہوگیامکان سے روشن چہرے والا ایک بارعب شخص نمودارہوا مسافرنے کہااسلام علیکم!اس شخص نے بڑی گرم جوشی سے سلام کا جواب دیا اور بڑی لجاحت سے مسافرکومخاطب ہوکر کہا بھائی معاف کرنا آنے میں ذرا دیر ہو گئی۔ان کا پہلا جملے نے ہی ان کی شخصیت کے بڑے پن کااظہارکردیاتھا ،پھر انہوںنے دروازہ کھول کرمسافرکو اندر آنے کا اشارہ کیا۔مسافرپر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے جب ایک خادم نے بڑی سی طشتری میں جو چیز پیش کی وہ دودھ ملا شہد تھا ابھی وہ پی کرفارغ بھی نہ ہوا تھا کہ خادم کھجور کا حلوہ لے آیا مسافرکے دل میں خیال آیا یہ بڑا عجیب شخص ہے گھر والوں کے ساتھ جھگڑا کر رہاتھا ایک چیز استعمال کیا کرو میرے لیے تین تین چیزیں آ گئی ہیں اس کے دل میں خیال کیا عثمان ؓ غنی اتنا بڑا سخی ہوسکتاہے جتنا خلیفہ ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے بتایا ہے چلو کچھ ہی دیرمیںپتہ چل جائے گا کہ ان باتوںمیں حقیقت کتنی ہے فسانہ کتنا۔ وہ انہی سوچوںمیں گم تھا کہ روشن چہرے والے نے بڑی نرمی اور پنائیت سے پوچھا بھائی کیسے آنا ہوا؟ میرے لائق کوئی حکم کوئی خدمت؟
مسافرنے کہا کہ میں ملک شام کے گاؤں کارہنے والا آ پکا مسلمان بھائی ہوں اور کاروبارمیں خاصا نقصان ہواجس سے مقروض ہوگیا ہوں گھرمیں کھانے کو کچھ نہیں الٹا قرض خواہ تنگ کرتے رہتے ہیں زندگی اجیرن ہوگئی ہے یہ کہتے ہوئے مسافرکی آنکھوںسے پانی چھلک پڑا روشن چہرے والے عثمان ؓ غنی نے اٹھ کر مسافرکے کندھے پر ہاتھ رکھااور کہاآپ پریشان نہ ہوں اللہ پر بھروسہ رکھیں وہ ضرور آپ کی مدد کرے گا اللہ کی توفیق کے بغیرکوئی کسی کی مدد نہیں کرسکتا جب آپ میرے پاس آئے تھے آپ کی حالت دیکھ کر میں نے اندازہ لگالیا تھا کوئی ضرورت مندآیا ہے، یہ بنی پاک ﷺ کے صدقے اللہ کا کرم ہے کہ میں کسی کے کام آئوں۔۔پھر عثمان ؓ غنی نے ایک آواز دی تو ایک غلام سامان سے لدا اونٹ لیکر حاضر ہوا مسافرنے حیرت سے اونٹ اور اس پرلدے سامان کی طرف دیکھا تو اسے یقین نہ آیا وہ دل ہی دل میں حساب لگانے لگامجھے تین ہزار اشرفیاں مل جائیںتومیرے سارے مسئلے حل ہو سکتے ہیںابھی میں نے کچھ بتایا نہیں تھا شاید یہ میری ضرورت سے بھی زائدہوگاکیا حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ دلوںکا حال جانتے ہیں ۔ روشن چہرے والے نے کہا ” اس اونٹ پر تیرے اورتیرے گھر والوں کے لیے میں نے کچھ کھانے پینے کا سامان،کپڑے اور 6000 اشرفیاں رکھوا دی ہیں اورتو پیدل آیا تھااب اونٹ لے کر جانا”مسافر نے انتہائی تشکر سے عثمان ؓ غنی کودیکھا بھرائی ہوئی آوازمیں کہاحضور میں اتنی دور شام سے یہ اونٹ انہیں واپس کرنے کیسے آئوں گا۔ روشن چہرے والے حضرت عثمان فرمانے لگے میں نے یہ اونٹ واپس کرنے کے لیے دیا ہی نہیں یہ تحفہ سمجھ کر قبول کرلے مسافرزمین پر بیٹھ کر رونے لگا حضرت عثمان غنی نے اسے بڑی محبت سے اٹھاکر گلے لگالیا وہ بولا حضور آپ نے تو مجھے میری ضرورت سے کہیں بڑھ کر نواز دیا ہے معاف کیجئے گا میں تو سوچ رہا تھا گھر میں تودودھ شہد پر تو گھر میں لڑائی ہو رہی ہے یہ شخص میری کیا مددکرے گا تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے جواباً کہا کہ اللہ نے جو وسائل عثمان کو دئیے ہیں وہ اس لیے نہیں دئیے کہ میری اولاد عیش مستی کرتی پھرے میرے مالک نے مجھے اس لیے نوازا ہے تاکہ میں محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کہ غلاموں کی خدمت کروں۔ مسافربغلگیرہوکر دروازے تک گیا تو عاجزی سے کہا آپ کا شکریہ! میرے بچے بھی تاقیامت آپ کو دعادیں گے۔یہ سن کر روشن چہرے والے نے کہا شکریہ اداکرناہے تو خلیفہ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا ادا کرنا جس نے تجھے یہ راستہ دکھایا ہے۔مسافر دم بخودرہ گیا بڑی حیرت سے پوچھا لیکن میں نے تو آپ کو بتایا ہی نہیں کہ مجھے ابوبکر صدیقؓ نے بھیجاہے ؟ روشن چہرے والا مسکرا یا تبسم فرماکرکہا اس بات کو چھوڑو آم کھائو پیڑگننے کی کیا ضرورت ہے۔جلدی سے گھرجائوبچے آپ کی راہ تک رہے ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔