... loading ...
بقول معروف صحافی معصوم مراد آبادی، اس بحث سے قطع نظر کہ ان کی سیاست مسلمانوں کے لیے مضر تھی یا مفید، یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ وہ کھل کر مسلمانوں کے حق میں بولتے اور ان کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے جب بابری مسجد کی اراضی تین حصوں میں تقسیم کرنے کا عجیب وغریب فیصلہ سنایا تو یہ ملائم سنگھ ہی تھے جنھوں نے کہاتھا کہ “مسلمان خود کو ٹھگا ہوا محسوس کر رہے ہیں”۔ وہ مسلمانوں کے زخموں پر مرہم رکھنا جانتے تھے ، مگر دیگر سیکولر سیاست دانوں کی طرح انھوں نے بھی مسلمانوں کی فلاح وبہبود کے لیے کوئی ٹھوس کام کرنے کی بجائے جذباتی نعروں کا سہارا لیا۔ مسلم ووٹوں کے سہارے اقتدار حاصل کرنے کے بعد وہ اپنی کمیونٹی یادووں کو ہی آگے بڑھاتے رہے۔ سن 2000کے بعد سماج واد کا نعرہ بلند کرنے کے باوجود انہوں نے اپنی پارٹی کو کارپوریٹ کلچر میں ڈھالا اور ایک شاطر صنعت کار امر سنگھ کو سیاوہ سفید کا مالک بنادیا۔ آئے دن فلم اسٹاروں کے جلو میں وہ دکھائی دینے لگے۔ یہ بھی خبریں آتی تھیں، کہ بالی ووڈ کی اداکارائیں ان کے بیڈ روم میں موجود ہوتی تھیں۔ اپنے پرانے نمک خواروں کو بھول کر ٹکٹیں امر سنگھ کے کہنے پر بٹنے لگیں۔
2012 کے یوپی اسمبلی انتخابات کے نتائج آنے کے بعد انھوں نے اس بات کا برملا اعتراف کیا تھا کہ مسلمانوں نے اپنے سارے ووٹ سماج وادی پارٹی کی جھولی میں ڈال دیے ہیں، لہٰذا سما ج وادی کارکنوں کو ان کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔ اس وقت انہوں نے حکومت کی باگ ڈور اپنے بیٹے آسٹریلیا سے پڑھائی کرکے لوٹے اکھلیش سنگھ یادو کے سپرد کردی۔ اس کے ایک سال بعد جب مظفر نگر میں بھیانک مسلم کش فساد ہوا تو ان کی حکومت اس کو روکنے میں بری طرح ناکام ہوئی۔ ان فسادات نے 1989سے پہلے والے اتر پردیش کی یاد تازہ کی اور مسلمان ایک بار پھر عدم تحفظ کا شکا ر ہوگئے۔ معصوم مراد ا?بادی کے مطابق یہیں سے مسلمانوں کے ذہن میں ملائم سنگھ اور ان کی پارٹی کے تعلق سے کچھ سوالات پیدا ہونے شروع ہوئے اور غالباً اسی کا نتیجہ تھا کہ2014 اور 2019کے پارلیمانی انتخابات میں انکو بس پانچ نشستیں ہی مل پائی.۔ 2017 کے اسمبلی انتخابات میں ان کے ممبران اسمبلی کی تعداد 30 پر سمٹ گئی۔ فروری 2022 کے اسمبلی چنائو میں ملائم سنگھ کا نعرہ بالکل بدل چکا تھا۔ انھوں نے پارٹی دفتر میں کارکنوں کو خطاب کرتے ہوئے کسانوں، نوجوانوں اور تاجروں کے لیے کام کرنے کا نعرہ دیا اور مسلمانوں کا نام تک نہیں لیا، ورنہ وہ اپنی ہر تقریر میں مسلمانوں کا نام ضرور لیتے تھے۔ ملائم سنگھ یادو ، لالو پرساد یادو اور کانشی رام نے دبے کچلے مجبور و مقہور مظلوموں کو جگا تو دیا، مگر ان کا ایک واضح اتحاد بنانے میں ناکام رہے، جو ملکی سطح پر اثر انداز ہوکر بھار ت کے سماجی توازن کو ٹھیک کرکے اس خطے کی تقدیر بدل دیتا۔ بھارت میں فرقہ پرستی اور اعلیٰ ذاتوں کی ہندو قوم پرستی اور سیاست و سماج میں ان کی پکڑ کا مقابلہ صرف مسلمانوں اور نچلے طبقے پر مشتمل مظلوموں کے ایک ایسے اتحاد سے ہی ممکن ہے۔ مگر اس کیلئے شاید ایک با ر پھر کسی ملائم سنگھ یادو کا انتظار کرنا پڑے گا، جو دور اندیش اور اپنے نعرے کوعملی جامہ پہنانے اور منزل تک پہنچنے میں مخلص ہو۔الوداع ملائم سنگھ یادو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔