... loading ...
اگر گزشتہ ہفتہ، الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے کراچی میں23 اکتوبر کو منعقد ہونے والے بلدیاتی انتخابات ملتوی کیئے جانے کا غیر متوقع اعلان نہیں ہوتا تو اَب تک نہ صرف کراچی کے منتخب عوامی بلدیاتی اُمیدواروں کی کامیابی کا سرکاری نوٹیفیکیشن جاری ہوچکاہوتا بلکہ اگلے ایک ،دو ہفتوں میں میئر کراچی بھی بلدیہ عظمی کراچی میں اپنی ذمہ داریوں کو سنبھالنے کے لیے پَر تول رہے ہوتے ۔ مگر! !خاطر جمع رکھیئے کہ اَب ایسا کچھ نہیں ہونے والا کیونکہ الیکشن کمیشن نے سندھ حکومت کی درخواست پر کراچی کے بلدیاتی انتخابات غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیئے ہیں اور اِس اعلان کے ساتھ ہی اہلیانِ کراچی کا اپنی من پسند شہری حکومت بنانے کا خواب ایک بار پھر سے ٹوٹ کر چکنا چور ہوگیا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کراچی میں تھوڑے سے عرصہ میں بلدیاتی انتخابات تین بار ملتوی ہونے تک شہر کے مختلف اضلاع کی یونین کمیٹیز کے 12 امیدوار بلدیاتی انتخاب لڑنے کی حسرت لیے دنیا سے ہی رخصت ہوگئے۔یعنی المیہ ملاحظہ ہو کہ کراچی میں ہر تھوڑے عرصہ کے بعد بلدیاتی انتخابات کروانے کی تاریخ پر تاریخ آتی رہی اور پھر بلدیاتی انتخابات ملتوی ہوتے رہے۔بدقسمتی سے اس دوران کراچی کے مختلف اضلاع کی یونین کمیٹیز کے لیے چیئرمین، وائس چیئرمین اور جنرل کونسلر کی نشستوں پر حصہ لینے والے 12 امیدوار انتقال کرگئے۔ کراچی میں بلدیاتی انتخابات کی بدلتی ہوئی تاریخوں کے درمیان ضلع کورنگی کی یونین کمیٹیز سے چیئرمین اور وائس چیئرمین کے دو ،امیدوار انتقال کرگئے، ضلع غربی میں یوسی چیئرمین کے ایک امیدوار بھی اس دوران چل بسے ۔ ضلع وسطی کی بھی یونین کمیٹیز کے چیئرمین اور وائس چیئرمین کے دو امیدوار جہانِ فانی سے کوچ کرگئے۔ضلع کیماڑی، ملیر، کورنگی اور شرقی سے جنرل کونسلر کے 7 امیدوار بھی بلدیاتی انتخابات کی تاریخوں کے درمیان زندگی کی بازی ہارگئے۔
یہاں ہم یہ نہیں کہنا چاہ رہے کہ مذکورہ نامزد بلدیاتی اُمیدواروں کا انتقال کراچی بلدیاتی انتخابات ملتوی ہونے کا صدمہ برداشت نہ کرنے کی وجہ سے ہوا ہے ۔مگر ذرا لمحہ بھر کے لیے سوچئے کہ اگر کراچی کے بلدیاتی انتخابات اپنے وقت ِ مقررہ پر ہوجاتے تو یہ مرحومین بھی کم ازکم ،چیئرمین ،وائس چیئر مین یا کونسلر بننے کی ’’سیاسی مسرت‘‘ اپنے دل میں لیے تو جہانِ فانی سے جہانِ باقی کی جانب کوچ کرتے۔مگر مصیبت یہ ہے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے کراچی کی’’سیاسی قسمت ‘‘ ہی بہت خراب ہے۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ پچھلے 45 سال میں صرف چھ بلدیاتی انتخابات ہوئے ہیں جن میں 2015 کے صرف ایک بلدیاتی انتخاب چھوڑ کر باقی سارے بلدیاتی انتخابات آمرانہ ادوارِ حکومت میں ہوئے ہیں ۔ اَب چاہے وہ بلدیاتی انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہوئے ہوں یا جماعتی بنیادوں پر۔ حالانکہ بلدیاتی انتخابات کروانے کی تمام تر ذمہ داری جمہوری حکومتوں پر عائد ہوتی ہے ۔لیکن تلخ حقیقت یہ ہے ہمارے وطن عزیز میں جمہوری سیاسی جماعتیں اور جمہوری حکومتیں بلدیاتی انتخابات کروانے میں ایک بہت بڑی سیاسی و انتظامی رکاوٹ کے طور پر سامنے آتی رہی ہیں ۔
ہمیشہ کی طرح اِس بار بھی ایسا ہی ہوا اور سندھ حکومت نے بلدیاتی انتخابات کی تاریخ بالکل قریب آجانے کے بعد کراچی میں بلدیاتی انتخابات3 ماہ تک ملتوی کرنے کی اَن گنت وجوہات کے ساتھ ایک باضابطہ درخواست الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ارسال کردی۔ جس پر چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میںالیکشن کمیشن نے سندھ حکومت کے مؤقف اور موجودہ صورتحال کے پیش نظر کراچی میں بلدیاتی انتخابات کو ملتوی کردیا۔حیران کن بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے کراچی میں بلدیاتی انتخابات کی ملتوی سے اپنے آپ کو مکمل طور پر بری ذمہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ’’الیکشن کمیشن نے کراچی میں بلدیاتی انتخابات کرانے کی ہر ممکن کوشش کی، بلدیاتی انتخابات کے لیے گزشتہ روز سیکرٹری وزارت داخلہ سے میٹنگ کی گئی، وزارت داخلہ سے انتخابات کے پر امن انعقاد کے لیے فوج اور رینجرز کی فراہمی یقینی بنانے کا کہا تھا،مگر سندھ حکومت کے اِس انکار کے بعد کہ اُن کے پاس سندھ پولیس کی نفری کم ہے اور سندھ حکومت پولنگ اسٹیشنز پر انتظامات کی ذمہ داری نہیں لے سکتی ۔لہٰذا، الیکشن کمیشن کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ فی الحال بلدیاتی انتخابات ملتوی کردیے جائیں‘‘۔
واضح رہے کہ بلدیاتی انتخابات کے خلاف پاکستان کی ہربڑی سیاسی جماعت کا گٹھ جوڑ ہوا ہے یعنی اگر صوبہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات پاکستان پیپلزپارٹی کی جمہوری حکومت کو بالکل اچھے نہیں لگتے تو دوسری جانب صوبہ پنجاب میں تحریک انصاف کی’’ انصاف پسند‘‘ صوبائی حکومت کو بھی بلدیاتی انتخابات کروانے کا سُن کر اچانک غشی کے دورے پڑنا شروع ہوجاتے ہیں ۔ اس لیے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کا یہ کہنا تو بالکل بجا ہے کہ ’’کوئی صوبائی حکومت بھی اپنے صوبہ میں بلدیاتی انتخابات نہیں کروانا چاہتی ‘‘۔ لطیفہ ملاحظہ ہوکہ پاکستان تحریک انصاف صوبہ سندھ میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے معزز سربراہ کوبلدیاتی انتخابات نہ کروانے کے جرم پر تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے تو صوبہ پنجاب میں اُن کی ذات کو صرف، اس لیے طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ وہ پنجاب میں فوری بلدیاتی انتخابات کیوں کروانا چاہتے ہیں ۔دراصل پاکستان کی ہر سیاسی جماعت کے نزدیک اپنا سیاسی مفاد زیادہ اہم ہے ۔جبکہ کسی بھی سیاسی جماعت کو عوامی یا ملکی مفاد کی ذرہ برابر بھی پروا ہ نہیں ہے۔
خاص طور پر بلدیاتی انتخابات تو پاکستان کی کسی بھی بڑ ی سیاسی جماعت کے مفاد میں نہیں ہیں کیونکہ بلدیاتی انتخابات کے نتیجہ میں تمام تر انتظامی اختیارات صوبائی حکومت سے نچلی سطحوں پر منتقل ہوجاتے ہیں ۔لہٰذا ، سیاسی جماعتیں بلدیاتی انتخابات کو اپنی سیاسی کمزوری سے تعبیر کرتی ہیں اور اُن کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ اوّل تو بلدیاتی انتخابات منعقد ہی نہ ہونے دیئے جائیں اور اگر بالفرض محال عوامی دباؤ یا پھر عدالتی احکامات کی روشنی بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کروانا ازحد ضروری ہوجائے تو پھر اُس کی راہ میں مختلف قانونی ، انتظامی اور آئینی رکاؤٹیں کھڑی کردی جائیں تاکہ بلدیاتی انتخابات منعقد کروانے میں جس قدر تاخیر کی جاسکتی ہے ،کم ازکم وہ تو کرہی دی جائے اور لوگ بلدیاتی انتخابات کے سارے تماشہ سے ہی متنفر ہوجائیں ۔
یعنی جتنی بار کراچی میں اَب تک بلدیاتی انتخابات ملتوی ہو چکے ہیں، اُس کے بعد اگر بالفرض اگلے ہفتہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے یہ اعلان بھی ہوجائے کہ فلاں تاریخ کو شہر میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد بہر صورت کیاجائے گا، تو اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کتنے فیصد لوگوں کو یہ خدشہ نہیں ہوگا یہ انتخابات ایک بار پھر سے اچانک ملتوی نہیں کیے جائیں گے؟۔ ہماری دانست میں تو کوئی ایک شخص بھی پختہ یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتاکہ اَب کی بار واقعی کراچی میں بلدیاتی انتخابات منعقد ہوجائیں گے۔بے یقینی کی اِس دل خراش کیفیت میں بلدیاتی انتخابات سے کراچی شہر کی سیاست میں کوئی بڑی جوہری تبدیلی لانے کی توقع رکھنا ہی عبث ہے ۔کیونکہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں بلدیاتی انتخابات ’’سیاسی سرگرمی ‘‘نہیں بلکہ ایک ’’سیاسی حادثہ ‘‘ ہے اور اہلیانِ کراچی کے ساتھ یہ حادثہ کب رونما ہوتاہے ؟۔آپ بھی انتظار کریں ، ہم بھی منتظر ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭