وجود

... loading ...

وجود

بلوچستان حکومت اورسیاسی تضادات

جمعرات 27 اکتوبر 2022 بلوچستان حکومت اورسیاسی تضادات

بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان ماہ اکتوبر کے پہلے عشرہ کوئٹہ آئے،کچھ دن مقیم رہیں۔اسمبلی اجلاس میں شرکت کی۔ جام کمال کی آمد نے عبد القدوس بزنجو ، ہمنوائوں اور سیاسی پشت بانوں کے اوسان خطا کرد یے ۔ جمعیت علما اسلام اور عبدالقدوس بزنجو کی بن نہ سکی ہے۔ جے یو آئی یقینا حکومت میں زیادہ حصہ پر مصر تھی جو دینا بوجہ عبدالقدوس بزنجو کے لیے آسان نہ تھا۔ اسی بات چیت کے دوران کابینہ کے کئی ارکان وہم و تردد کا شکار رہے کہ کہیں جے یو آئی سے بات بننے کی صورت میں ان کا کابینہ سے اخراج نہ ہو۔ جے یو آئی بلوچستان کے امیر جو وفاقی وزیر ہائوسنگ اینڈ ورکس بھی ہیں نے آخر کار 10 اکتوبر کو کھل کر گفتگو کرلی کہ عبدالقدوس بزنجو کی جانب سے حکومت میں شامل ہونے کی پیش کش جے یو آئی کے شایان شان نہیں۔ مولانا نے پیشکش کا شکریہ ادا کرتے ہوئے حزب اختلاف میں بھر پور کردار ادا کرنے کا کہا۔ جب بات نہ بنی تو مولانا نے یہ بھی کہا کہ انہیں توقع نہیں کہ اس حکومت میں جے یو آئی اپنا کردار ادا کرسکے گی۔ دلیل حکومت میں شامل ہونے کی خواہش کی یہ دی کہ جے یو آئی یہ چاہ رہی تھی تاکہ سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی خدمت و مدد کی جاسکے اور حکومت کا باقی ماندہ عرصہ عوام کی خدمت کرسکیں۔نیز عبدالقدوس بزنجو کی کابینہ میں شمولیت کے لیے چارٹر آف ڈیمانڈ میں وہی اسلامی نظام کا نفاذ، صوبے میں قاضی عدالتیں اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات مد نظر رکھنا وغیرہ بھی شامل تھا۔ جیسے جے یوآئی پہلے کبھی حکومت میں رہی نہ ہو۔ دراصل بات کابینہ میں بڑے حصے کے تقاضے کی وجہ سے آگے نہ بڑھ سکی ہے۔پیش نظر اگر واقعی اسلامی نظام ،قاضی عدالتیں وغیرہ ہوتی تو اس کے لیے بدیہی طور یہ جام کمال خان کے خلاف عدم اعتماد کی بھاگ دوڑ موقع تھا ۔
تحریک انصاف حلقہ کے با اثر افراد اور قدوس وغیرہ کے سامنے یہ مطالبات رکھے جاتے۔تب ان کو ارکان اسمبلی کی حمایت کی بہر حال اشد ضرورت تھی ۔جن کے کہنے اور اشارے پر یہ سب کئی دنوں تک کلی الماس فارم ہائوس میں مقیم رہیں۔اور اس عرصہ طرح طرح کی محفلیں ان کی موجودگی میں سجائی جاتی رہیں۔ اب انہیں صوبے کے اندر جاری کشمکش ، غیر یقینی کیفیت، خراب گورننس آسامیوں کی فروخت یاد آئی ہے ۔ کہا کہ خامیوں اور برائیوں کی نشاندہی کی جائے گی مگراب تک کی نشاندھی بھی نہ کرسکی ہے ۔ گویا اسمبلی میںحزب اختلاف کے کردار کی ادائیگی اب محض دعویٰ سیاسی ملمع کاری کے سوا کچھ نہیں۔ دیکھا جائے تواسمبلی میں وہی سب کچھ ٹھیک اور تضادات کی سیاست چل رہی ہے۔انہیں معلوم تھا کہ جام کے خلاف عدم اعتماد لاکر برائیاں جنم لیں گی۔ صوبے کے اندرحزب اختلاف میں ہوتے ہوئے سرکار میں شمولیت کی یہ روایات جمعیت علماء اسلام اور بلوچستان نیشنل پارٹی نے رکھی ہے۔ مولانا عبدالواسع نے بی این پی پر بھی جملہ کسا کہ ان کے اراکین اسمبلی کو عبدالقدوس کے بیڈ روم تک رسائی رکھتے ہیں۔ حالاں کہ یہ رسائی جے یو آئی کے ارکان اسمبلی کو بھی حاصل ہے۔جو آج کے دن تک بزنجو سے شیر و شکر ہیں۔ حزب اختلاف کے ہوتے ہوئے آئے روز مطالبات کے حق میں احتجاج کرنے والے ملازمین شاہراہوں اور اسمبلی عمارت کے سامنے نعرے لگا رہے ہوتے ہیں۔ آئے روز پولیس کو مظاہرین کو گاڑیوں میں ٹھونس کر تھانوں میں بند کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ جام کمال دور میں ایسے کسی بھی احتجاج میں جے یو آئی، بی این پی عملاً شریک ہو جایا کرتی تھی ۔ یہان تک کہ 18جون2021ء کو بجٹ اجلاس کے موقع پر پرتشدد احتجاج کی مثال بھی قائم کردی ۔ اسمبلی کے داخلی دروازوں کو تالے لگاد یے۔ جام کمال پر جوتے اور پانی کے بوتلوں کے وار کیے۔ پولیس نے مین گیٹ بکتر بند گاڑی سے توڑا تو اس کے بعد یہ بجلی روڈ تھانہ گرفتاری دینے پہنچ گئے۔ کئی دن تھانے میں ماحول بنائے رکھا۔ اس سارے سیاسی کھیل تماشے میں عبدالقدوس بزنجو شریک تھے۔ ایسا وہ اسمبلی کے اسپیکر کی کرسی پر بیٹھ کر کررہے تھے اور پھر اسی منصب پر بیٹھے عدم اعتماد کی تحریک کی کھلم کھلا لابنگ کرتے رہیں۔ کسی مجاز ادارے نے نہ پوچھا کہ اسمبلی اسپیکر کس قانون کے تحت حکومت مخالف لابنگ اور رابطوں کا حصہ بن سکتا ہے۔ حیرت ہے کہ صوبے میں پی ڈی ایم کی جماعتوں نے تحریک انصاف کے حامی حکومت بنانے میں ہر طرح سے ساتھ دیا۔ جام کمال خان کے خلاف وہ لوگ متحرک تھے جو تحریک انصاف کی پشت پر تھے۔ پیسوں کی ریل پھیل ہوئی۔ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے اس دوران رابطہ کار کا کردار ادا کیا۔
سردار اختر مینگل صادق سنجرانی کے اب بھی وکیل بنے ہوئے ہیں۔ ان کے خلاف عد م اعتماد کی تحریک کے مخالف ہیں ۔یہاں تک حامی ہیں کہ باقی جماعتوں کو بھی باز ر کھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ قیمتی تحائف کا دور دوراں ہے ۔ کسی کو برواہ نہیں کہ صوبے کی حکومت کس ابتر حالات سے دوچار ہے اور صوبے میں نظام اور جمہوریت کس قدر بدنما ہو چکی ہے ۔ زیر زمین معدنیات کے معاہدوں میں شرکت دار ی ہو رہی ہے۔ بقول جام کمال کہ بلوچستان میں معدنی لیز ایک موبائل فون سے بھی سستا اور آسان ہے۔ یہ بات جام کمال نے لسبیلہ کے ساحلی علاقوں میں مائننگ کے نام پر زمینوں کی پر الاٹمنٹ کے پیش منظر میں کہی۔ لشکری رئیسانی کہا کرتے ہیں کہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے265 پرقاسم سوری کے خلاف ان کی پیٹیشن میں بی این پی اور پی ڈی ایم نے کوئی تعاون نہیں کیا۔52ہزار ووٹوں کی تصدیق نہ ہونے پر الیکشن ٹربیونل بلوچستان نے قاسم سوری کی کامیابی کو کالعدم قرار دیا تھا۔ وہ آخر تک سپریم کورٹ کے حکم امتناع کے سبب رکن اسمبلی رہے۔ گویا لشکری رئیسانی کا شکوہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کی جماعت کو قاسم سوری کا رکن اسمبلی بر قرار رہنا ہی مقصود تھا۔ بہر کیف جام کمال10 اکتوبر کو مولانا عبدالواسع کی رہائشگاہ گئے۔ 2021ء کے بجٹ اجلاس میں پیش آنے والے واقعہ جس میں جے یو آئی کے رکن اسمبلی واحد صدیقی کا بازو فریکچر ہوا تھا،پر معذور کرلی۔ اسمبلی گیٹ بکتر بند گاڑی کے ذریعے توڑنے اور اراکین کے لیے اندر جانے کا راستہ صاف کرانا آئی جی پولیس محمد طاہر رائے کے حکم پر ہوا تھا۔اس بات کا وہ بر ملا اظہار کرتے ۔ اپنی رہائش گاہ پر صحافیوں کے سامنے بھی کیا جنہیںعشائیہ پر مدعو کیا تھا ۔سلیم شاہد،شہزادہ ذوالفقار احمدزئی ، نسیم حمیدیوسفزئی ،،نور الہی بگٹی ،عرفان سعید ،افضل مغل ،رشید بلوچ اور دوسرے صحا فیوں کی موجود موجودگی میںراقم کے پو چھنے پر محمد طاہر رائے نے کہا کہ گیٹ توڑ نے کا حکم انہوں نے دی تھا تاکہ راستہ کھلے ،اورراکین اسمبلی کو بجٹ اجلاس میں شرکت کے لیے اندر جاسکے ۔ حالانکہ یہ بات تب کہی جب عبدالقدوس بزنجو وزارت اعلیٰ کی کرسی پر بھیٹے ہوئے تھے ۔ آئی جی پولیس محمد طاہر رائے صاف اور کھرے آفیسر تھے ۔جس نے قانون اور اس پر عمل در آمد مقدم رکھا ۔ یہی وجہ تھی کہ جام کمال خان کے بعد بننے والی حکومت نے ترجیحی بنیاد پر اس کا تبادلہ کرادیا۔یہ پوچھنے اور تحقیقات کی باتیں ہیں کہ آئی جی محمد طاہر رائے کا تبادلہ کن وجوہات کی بنا پر کرا یا گیا۔ یہ بھی باز پرس کا متقاضی معاملہ ہے کہ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کی جانب سے چیف سیکریٹری مطہر نیاز رانا کے تبادلے کی کہانی کیا ہے۔مطہر نیاز رانا نے کن کن چیزوں پر گرفت کر رکھی تھی ؟۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر