وجود

... loading ...

وجود

بے باک صحافی کی موت سانحہ

بدھ 26 اکتوبر 2022 بے باک صحافی کی موت سانحہ

صحافیوں کی زندگی کو لاحق خطرات کا کبھی مکمل طورپر خاتمہ نہیں ہوامگر گزشتہ دہائی سے خطرات میں خوفناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے جن کا مقصد صحافیوں کوپیشہ وارانہ مہارت دکھانے سے بازرکھنااور دیانت سے کام کرنے سے روکنا ہے ایک محتاط اندازے کے مطابق رواں برس کے دوران اب تک دنیا بھر میں 57سے زائد صحافی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ تشدد سے زخمی ہونے والے یا دیگر نوعیت کے نقصانات سے دوچار ہونے والوںکی تعداد سینکڑوں میں ہے یہ قتل یا تشدد کا سلسلہ کبھی ختم ہوگا ؟ اِ س سوال کاجواب کسی صورت ہاں میں دینا ممکن نہیں کیونکہ صحافی سچ کا کھوج لگانے کی کوشش کرتے ہیں اور پھرمعلومات ہاتھ لگتے ہی شائع کردیتے ہیں جن سے ریاستیں اور قوتیں خوفزدہ رہتی اور صحافیوں کو دبائو میں رکھنے کی کوشش کرتی ہیںاِس کے لیے طاقت اور دولت کے حربے آزمائے جاتے ہیں مگر دیانتدار اور نڈر صحافی تمام تر دبائو کے باوجود جب مصلحت پر آمادہ نہیں ہوتے اور کھوج جاری رکھتے ہیں توارشد شریف جیسے المناک انجام کا امکان بڑھ جاتا ہے مگر اب یہ سلسلہ تھم جانا چاہیے اگر کسی کو سچ سامنے آنے سے بدنامی یا ساکھ خراب ہونے کا خوف ہے تو بہتر ہے زندگی قانون کی پاسداری اور ریاست کے طے کردہ قواعد و ضوابط کے مطابق گزاریں تاکہ بدنامی کا احتمال ہی نہ رہے۔
ارشد شریف ایک ایسا جوہرِ قابل تھا جس نے ہمیشہ بے باکی سے تحقیقی صحافت کی پانامہ لیکس کا اسکینڈل اُجاگر کرنے میں اُن کا کلیدی کردار ہے حالانکہ ملوث لوگ صاحبان ِ اقتدار ہونے کی بنا پر بہت باختیار تھے مگر یہ اقتدار یا اختیار بھی ارشد شریف کی راہ میں رکاوٹ کا باعث نہ بن سکا بلکہ وہ پانامہ لیکس کے ایسے مزید خفیہ گوشے بے نقاب کرنے کا باعث بنے جس سے دنیا ابھی ناآشنا تھی ایسی ہی صحافتی خدمات پر 2012 میں اُنھیں آگاہی ایوارڈملا جبکہ 2019 میں پرائڈ آف پرفارمنس سے نوازاگیا اُن کی بے وقت اور ناگہانی وفات سے صحافی حلقے ہی سوگوار نہیں بلکہ ہر مکتبہ فکر صدمے میں ہے مزید ستم ظریفی یہ ہے کہ اُن کی موت کو طرح طرح کے رنگ دینے کے لیے بے سروپا قیاس آرائیاں جاری ہیںجو نہ صرف ملک میں بے چینی پھیلانے کا باعث بن سکتی ہیں بلکہ اہلِ خانہ کے دکھ بڑھاکر غلط فہمیوں کی فضاکو گہراکرنے کا موجب بننے کا امکان بھی رَد نہیں کیا جاسکتا ضرورت کسی سے محبت و الفت کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اِس آڑ میں کسی شخصیت یا اِدارے کوہدف بناکرساکھ سے کھیلنے کی کوشش کی جائے جو ایسی روش پر گامزن ہیں اُنھیں راہ گم کردہ مسافر تو کہہ سکتے ہیں محب الوطن یا مثبت سوچ کامالک نہیں کہہ سکتے لہذا ضرورت اِس امرکی ہے کہ سچ سامنے لانے کے لیے آواز تو بلند کی جائے لیکن من گھڑت افواہوں کو سنجیدہ نہ لیا جائے۔
ضربِ عضب کے ذریعے ملک میں جاری دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے دہشت گردوں کے خلاف ٹھوس کاروائیاں کی گئیں ارشد شریف کی اپنے وطن سے یہ محبت ہی تھی جو اُنھیں خطرات کے باوجود محاز پر لے جانے کا باعث بنی اِس دوران انھوں نے جان کی پرواہ کیے بغیرایسی بے مثال رپورٹنگ کی جس کے درج زیل نتائج سامنے آئے عوامی حلقوں میں خوف و دہشت کی فضا کا خاتمہ ہوادوم دہشت گردوں سے برسرِ پیکارنوجوانوں کے جوش و جذبہ میں اضافہ ہوا نیز اِداروں پر عوامی اعتمادمیں بھی حد درجہ بہتری دیکھنے میں آئی سوم دہشت گردوں میں مایوسی پھیلی یہ ایسے نتائج تھے جس سے ڈرو خوف سے بے نیاز ہوکرہر خاص و عام بے باکی سے ریاستی اِداروں کے ساتھ نظر آیا اِس لیے ایسی قیاس آرائیاں کہ ناگہانی موت میں کوئی اِدارہ ملوث ہے ہر گزدرست نہیں ویسے بھی جس کا والد نیوی میں کمانڈر رہا ہو اور بھائی بری فوج میں میجر کے عہدے پر فائز ، اُس پر ریاستی اِداروں کو شک ہو ہی نہیں سکتا لہذا جو لوگ افواہیں پھیلانے کا باعث ہیں وہ اغیار کے کارندے تو ہو سکتے ہیں پاک وطن کے خیر خواہ ہر گز نہیں ۔
ارشد شریف کی موت ایک جوہر ِ قابل کی موت ہے یہ خاندان گزشتہ کئی برسوں سے پے درپے صدموں کی زد میں ہے والد کی وفات ہی ایک بڑا صدمہ تھا کہ دلیر بھائی وزیرستان سے محافظوں کے بغیر آتے ہوئے راستے میں بنوں کے قریب شہید کر دیے گئے ایسے المناک صدمات کا سامنا کرنے کے باوجود ارشد شریف خوفزدہ یا مایوس نہ ہوئے بلکہ پیشہ وارانہ سرگرمیاں جاری رکھیں قدم قدم پر خطرات کا سامنا کرنے کے باوجود جرات و بے باکی سے صحافت کی وہ بے باک صحافی اور کمال کے اینکر پرسن تھے اُنھیں بولنے اور لکھنے کا طریقہ و سلیقہ آتا تھا اب وہ منی لانڈرنگ کا ایک بڑانیٹ ورک بے نقاب کرنے کے لیے محو سفر تھے یہ تحقیقی صحافت ہی اُنھیں مادرِ وطن سے دورلے گئی اور اِس دوران ہی موت کی وادی میں چلے گئے بلاشبہ ایسا جراتمند صحافی کم ہی دیکھنے میں آتا ہے جو خطروں سے آگاہی کے باوجود ثابت قد م رہے ۔
دیارِ غیر میں ایک معروف پاکستانی صحافی واینکرپرسن کی وفات کو حکومت نے سنجیدہ لیکر اعلٰی سطح پرنہ صرف رابطہ کیا ہے بلکہ میت کوپاکستان لانے کے ساتھ محرکات اور ملوث لوگوں کے بارے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے کینیا کے صدر نے مطالبے کے جواب میں ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا ہے مگر ارشد شریف کے قتل کی کہانی جس طرح بیان کی جارہی ہے اُسے زہن تسلیم نہیں کرتاکینیاکی پولیس کہتی ہے ارشد شریف کے زیرِ استعمال گاڑی جیسی ہی ایک گاڑی میں سوار ملزم کے تعاقب میں تھی اور نہ رُکنے پر غلط فہمی میںنشانہ بنایاہے یہ ہر حوالے سے ایک کمزور کہانی ہے جو کئی ایک سوالات کو جنم دیتی ہے مثال کے طور پر اگردنیا بھر میں پولیس کسی ملزم کے تعاقب میں ہو تو سب سے پہلے ملزم کو زندہ گرفتار کرنے کی کوشش کرتی ہے اِس کے لیے سب سے پہلے ہوائی فائرنگ سے ملزم کو خوفزدہ کیا جاتا ہے جب بات نہ بنے تو ٹائروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے پھر بھی مطلوبہ نتائج نہ ملیں تو ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے شخص کو زخمی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے مگر ارشدشریف کے واقعہ میں ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ سیدھا سادھا فائر مار کر قتل کر دیا گیاہے مزید یہ کہ اگر یہ تصور کر لیا جائے کہ جس طرح وقوعہ بیان کیا جاتا ہے واقعہ اُسی طرح ہی پیش آیا ہے تو بھی ذہن بیان کیے گئے واقعات کو من و عن تسلیم کرنے سے قاصر ہے کیونکہ ایسا ہونے کی صورت میں دائیں یا بائیں یا پھر آگے یا پیچھے سے گولی لگتی مگر تصویر میں ایک سے زائد گولیاں سر کے اوپری حصے میں لگی نظر آتی ہیں ایسا تو ممکن ہی نہیں کہ کسی پولیس مین نے گاڑی کی چھت پر بیٹھ کر ارشد شریف کو نشانہ بنایا ہو اسی لیے اِن خیالات کو تقویت ملتی ہے کہ بتائے گئے واقعات میں سوفیصد صداقت نہیں بلکہ ایسا کچھ ہے جو چھپایا جارہا ہے اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پاکستانی صحافی کی جان لی گئی ہے ایسا سفاک کون شخص ہے؟یہ بے نقاب کرنا حکومت کا کام ہے اگر حکمران سنجیدگی کا مظاہرہ کریں اور کینیا کے قانون نافذ کرنے والے اِداروں کے ساتھ ملکر ہمارے اِدارے تفتیش کریں تو مزکورہ بالا سوالات کے نہ صرف جوابات حاصل کیے جا سکتے ہیں بلکہ عوام کے پسندیدہ اور دلیر صحافی کے قاتلوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانا بھی ممکن ہو سکتا ہے سچ سامنے آنے سے قیاس آرائیوں اور افواہوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر