... loading ...
دوستو،زمانے کے ساتھ ساتھ ہر شعبے میں تبدیلیاں دیکھنے میں آرہی ہیں۔۔ہمارے زمانے میں ٹیچرز ایسے ہوتے تھے کہ جنہیں دیکھ کر ہی خوف آتا تھا۔۔لیکن اب ٹیچرز کو رکھنے کے لئے ’’خوب صورتی‘‘ کو معیار بنایاگیا ہے۔۔وسطی چین میں ایک یونیورسٹی کو حاضری یقینی بنانے کے لئے خوبصورت ٹیچر کی خدمات حاصل کرنے پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق گزشتہ ہفتے یونیورسٹی کو اس الزام کے بعد شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا کہ اس نے ایک ٹیچر کی خدمات حاصل کی ہیں تاکہ کلاسوں میں حاضری بہتر ہوگی۔یونیورسٹی کی جانب سے تنقید کے بعد جواب دیا گیا کہ ٹیچر کی بہترین تدریسی صلاحیت پر بھروسہ کرتے ہوئے خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔شاگرد نے جب اپنے ٹیچر سے کہا کہ۔۔سرجی، اگر میں غلط ہوا تو جو چور کی سزا وہ میری سزا ۔۔ٹیچر سے مسکرا کر کہا۔۔ بہت چالاک ہو،لندن جاناچاہتے ہو۔۔
کہتے ہیں کہ دوسری شادی مردکی پہلی ضرورت ہوتی ہے۔بندہ دوسری شادی کرے توکسی ’’میم ‘‘ سے کرے۔۔ جتنی دیر میں ’’میم‘‘ کو آپ کی زبان سیکھنے ۔۔فرفر بولنے اور گالیاں سمجھنے میں لگیں گی۔۔شوہرکی زندگی پُر سکون رہے گی۔دیسی لڑکی سے دوسری شادی کرنا۔ایسے ہی ہے جیسے بندہ موبائل کی نئی کیسنگ خرید لے۔پہلی بیوی بدتمیز ہے تو دوسری بھی نکلے گی۔پہلی موٹی ہوگئی تو دوسری کی بھی گارنٹی نہیں۔بلکہ ممکن ہے۔پہلی طلاق لے لے اور۔دوسری نہ لے۔طلاق کے لئے سب سے زیادہ ضروری چیز شادی ہے۔۔شادی ایسا تعلق ہے۔جس میں ایک ہمیشہ درست ہوتاہے۔اور۔دوسرا شوہرہوتا ہے۔بیوی جب کھل کے سونا چاہتی ہے۔ شوہرسے لڑائی کرلیتی ہے۔ ۔’’پھردونوں ہنسی خوشی رہنے لگے‘‘کے اخلاقی سبق صرف نصابی کہانیوں میں ہوتے ہیں۔ خواتین کاحُسن ان کی خاموشی میں چھپا ہوتا ہے۔اسی لئے خاتون جب تک بیوی نہ بن جائے اچھی اور خوب صورت ہی نظر آتی ہے۔۔ایک خوب صورت عورت ایک مرد کے ساتھ مہنگے ہوٹل میں کینڈل لائٹ ڈنر کر رہی تھی کہ اچانک ویٹر کے دیکھتے ہی دیکھتے آدمی نے کرسی کھسکائی اور آہستگی سے میز کے نیچے گھس گیا مگر عورت بے نیاز بیٹھی رہی۔ویٹر نے گھبرا کر کہا۔۔ میڈم آپ کے شوہر میز کے نیچے گھس گئے ہیں۔۔خاتون نے ویٹر کی بات پر توجہ دیئے بغیر جلدی سے کہا۔۔نہیں۔۔میرا شوہر تو سامنے سے آرہا ہے۔۔
ایک نئی تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ برابری کا مقابلہ ہونے کے باوجود لڑکیاں لڑکوں کی نسبت زیادہ بہتر نمبر لیتی ہیں کیوں کہ ان کو پڑھانا آسان ہوتا ہے۔اٹلی کی یونیورسٹی آف ٹرینٹو کے محققین نے 15 اور 16 سال کے تقریباً 40 ہزار طلبا کے متعدد امتحانات کے نتائج کا موازنہ کیا، جس میں ان کو معلوم ہوا کہ برابری کا مقابلہ ہونے کے باوجود مستقبل بنیادوں پر لڑکیوں نے لڑکوں سے زیادہ نمبر حاصل کیے۔محققین نے بتایا کہ اساتذہ لاشعوری طور پر ان طلبا کو نمبر دیتے ہیں جو روایتی زنانہ رویے، جیسے کہ خاموشی اور وضع داری، اپنانے والوں کو زیادہ نمبر دیتے ہیں کیوں کہ یہ پڑھانے کے عمل کو آسان بناتے ہیں۔2020 کی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ برطانیہ کے اسکول کے لڑکوں کے گزشتہ 30 سالوں میں لڑکیوں کے مقابلے میں امتحان کے نتائج انتہائی بدتر تھے۔تاہم، تحقیق میں معلوم ہوا کہ اس فرق کی نوعیت کامیابی کی پیمائش کے مختلف طریقہ کار کے حساب سے مختلف ہوتی ہے۔تحقیق کے مطابق اگر طلبا کو ایک معیاری امتحان کے تحت آزمایا جائے، جہاں یکساں سوالات تھے اور معیاری اسکورنگ سسٹم تھا، تو لڑکے لڑکیوں کو ریاضی میں پیچھے چھوڑ دیں گے جبکہ لڑکیوں کی کارکردگی ہیومینیٹز کے مضامین، زبانوں اور پڑھنے کی صلاحیت میں بہتر ہوگی۔
پچھلے ہفتے لاہور کے ایک کالج میں کتب میلہ منعقد ہوا۔ کالج انتظامیہ کی رپورٹ کے مطابق اس میلے میں 1200 شوارمے، 800 بریانی، 900 برگر، 1800 کولڈ ڈرنکس اور پوری 35 کتابیں فروخت ہوئیں۔۔۔ایک لڑکی اپنے والد کے ساتھ بُک شاپ میں کتابیں فروخت کررہی تھی کہ اپنے بوائے فرینڈ کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا۔۔کہنے لگی۔۔ کیا آپ المانی کی کتاب۔۔ـ’’ ابو میرے برابر میں کھڑے ہیں‘‘ خریدنے آئے ہیں؟۔۔لڑکے نے جواب دیا۔ نہیں، میں توماس ہرنانیر کی کتاب’’ کب ملو گی؟؟‘‘ خریدنے آیا ہوں۔۔لڑکی بولی۔۔یہ کتاب ہمارے پاس نہیں ہے، البتہ باتریس فرد کی کتاب ’’ کل یونیورسٹی میں‘‘ مل سکتی ہے۔۔لڑکا کہنے لگا۔۔ اچھی بات ہے لیکن کل آپ بلجیکی برنار کی کتاب ’’ رات کو فون پہ بات ہوسکتی ہے‘‘ لاسکتی ہیں؟ لڑکی نے کہا۔۔ہاں کیوں نہیں،کیا آپ میشیل دانیال کی کتاب ’’ رات دس بجے کے بعد‘‘ بھی خریدنا پسند فرمائیں گے؟ لڑکے نے جواب دیا۔۔ بسروچشم۔۔ جب لڑکا چلا گیا تو باپ نے بیٹی سے کہا۔۔ کیا یہ لڑکا ان ساری کتابوں کا مطالعہ کرسکے گا؟ بیٹی نے کہا۔۔جی ہاں ،یہ ذہین ہے اور یونیورسٹی میں شریف طالبعلم ہے۔۔والد نے کہا۔۔اچھی بات ہے بیٹی، لیکن میرے پاس تم دونوں کیلئے دو بہترین کتابیں ہیں۔۔یہ کتابیں تم دونوں ضرور پڑھنا۔۔ایک ھولندی فرانک مارتیز کی کتاب ’’میں بیوقوف نہیں ہوں سب کچھ سمجھ گیا ہوں‘‘ ہے اور دوسری روسی موریس ھنری کی کتاب ’’ کل اپنے چچازاد کے ساتھ شادی کیلئے تیار رہو ‘‘ ہے۔۔خوب صورت بیوی کا ہونا بھی کسی عذاب سے کم نہیں ہوتا۔اسی طرح ایک خوب صورت بیوی کا نوجوان شوہر ایک مولوی صاحب کے پاس گیا اور کہنے لگا، مولوی صاحب ایک مسلے کا حل پوچھنا ہے۔۔۔اکثر رات کو آفس کا کام کرتے کرتے میں صوفے پر ہی سو جاتا ہوں۔رات کو جب میری آنکھ کُھلتی ہے تو دیکھتا ہوں کہ میری بیوی بیڈ پر سوئی ہوئی ہے اور اس کے اوپر ایک رضائی ہے، اور اُس رضائی سے نُور چھلک رہا ہے، تو حضرت میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ میری بیوی کی وہ کون سی ایسی نیکی یا عمل ہے جس کی بدولت اس کی رضائی سے اس قدر نور چھلکتا ہے۔؟۔۔۔مولوی صاحب نے کھنکار کر گلہ صاف کیا اور کہنے لگے۔۔ابے گدھے۔۔تُو ضرور مرے گا کسی دن، یہ نور نہیں چھلکتا،بلکہ۔۔ تیری بیوی رات میں تیرا موبائل چیک کرتی ہے، پاسورڈ ڈال کر رکھا کر پاسورڈ۔۔ہمارے پیارے دوست فرماتے ہیں، ایک سروے میں پتہ لگا ہے کہ اکثر بیویاں اپنے شوہر کے دوستوں سے شدید نفرت کرتی ہیں، جوابی سروے میں یہ نتیجہ سامنے آیا کہ،اکثر شوہر اپنی بیوی کی سہلیوں کو ٹوٹ کر چاہتے ہیں۔۔شوہر نے جب بیوی کو اداس دیکھاتو پوچھا، کیا بات ہے تم اتنی گم سم اْداس بیٹھی ہو کیا سوچ رہی ہو ؟بیوی نے اداس لہجے میں کہا،نہیں ایسی تو کوئی خاص بات نہیں ،مگر کچھ دنوں سے مجھے یہ پریشانی ستا رہی ہے کہ آخر میری کوششوں میں کہاں کسر رہ گئی ہے کہ تم شادی کے اتنے سال بعد بھی مسکرا لیتے ہو۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔آج کل جب کسی کو عزت دیں تو دو گولی ہاضمے کی بھی دیا کریں، کیوں کہ عزت ہر کسی کو راس نہیں آتی۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔