... loading ...
تیل ایک ہتھیار ہے ،اس سیاسی و سفارتی نعرہ کی گونج سب سے پہلے اُس وقت دنیا بھر میں سننے کو ملے تھی ، جب 1973 میں عرب اسرائیل جنگ کے دوران ، سعودی عرب کے فرمانروا ، شاہ فیصل نے اسرائیل کی حمایت کی پاداش میں امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کو تیل کی سپلائی بند کردینے کا جرات مندانہ سیاسی فیصلہ کیا تھا۔یاد رہے کہ سعودی فرمانروا، شاہ فیصل نے تیل کا ہتھیار استعمال کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ’’ جب تک اسرائیلی افواج تمام مقبوضہ عرب علاقے خالی نہیں کرتیں اور فلسطینی عوام کو خود ارادیت کا حق نہیں دیا جاتا، اُس وقت تک سعودی عرب تیل کے ہتھیار سے مؤثر طور پر کام لینے، مصری مفادات کو تقویت پہنچانے اور عرب اتحاد کو مستحکم کرنے کی پالیسی پر گامزن رہے گا‘‘۔ نیز، اوپیک ممالک نے بھی شاہ فیصل کے فیصلہ کی ہر طرح سے حمایت اور توثیق کرنے کا اعلان کر کے تیل کی ہتھیار کی طاقت کو مزید مہلک بنادیا تھا۔
عرب ، اسرائیل جنگ کے دوران تیل کا ہتھیار مجموعی طور پر عربوں کے لیے بہت مفید اور کارگر ثابت ہوا ۔کیونکہ تیل کی بندش سے پوری دنیا کی معیشت ہچکولے کھانے لگی ،خاص طور پر امریکی معیشت تیل کی بندش سے تقریباً زمین بوس ہوگئی ۔نیز امریکی شہریوں نے موٹر بائیکس کی سوار ی ترک کر کے سائیکلیں چلانا شروع کردیں ۔ جبکہ متمول طبقہ سے تعلق رکھنے والے امریکیوں نے بھی اپنی بڑی کاریں اونے پونے داموں بیچ کر چھوٹی کاریں خرید لیں تاکہ زیادہ سے زیادہ کم تیل کی کھپت کو یقینی بنایا جا سکے۔ لہٰذا ، تیل کی بندش سے یورپی ممالک میں تیل کا شدید بحران پیدا ہوگیا اور اُنہیں اپنا معاشی پہیہ کو چلانے کے لیئے بلیک مارکیٹ سے تیل مہنگے داموں خریدنے پر مجبور ہونا پڑا۔یوں تیل پیدا کرنے والے تمام عرب ممالک نے بھاری منافع کمایا۔
تاہم ، 1980تک عرب تیل کا ہتھیار مکمل طور پر کند اور غیر موثر ہوچکا تھا ،جس کی ایک وجہ تو انقلاب ایران تھا ،جبکہ دوسری وجہ انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کا قیام تھا ، جس کے پلیٹ فارم سے امریکا نے عرب ممالک سے تیل خریدنے والے صارفین کو ایک مشترکہ نعرہ ’’عرب تیل کا متبادل تلاش کرنا ہوگا‘‘ کے تحت اکٹھا کرنا شروع کردیا۔ انٹرنیشنل انرجی ایجنسی نے گہرے سمندر میں تیل کی تلاش سمیت ،توانائی کے دیگر ذرائع دریافت کرنے کا آغاز کردیا۔ اسی دوران سوویت یونین کے زوال سے Caspian Sea میں موجود تیل کے بہت بڑے ذخائر امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کی دسترس میں آگئے ۔نیز جدید ٹیکنالوجی کی نت نئی ایجادات نے بھی مغرب بالخصوص امریکا کو تیل میں خود کفیل بنانے میں اہم ترین کردار ادا کیا ۔یہاں تک آج امریکا اس قابل ہوگیا ہے کہ وہ اپنی ضرورت سے زائد تیل دنیا کے دیگر ممالک کو فروخت بھی کرتاہے۔ امریکا اور مغرب میں تیل کی بہتات سے دنیا فراموش کرچکی تھی کہ عرب تیل کبھی ایک ہتھیار کے طور پر بھی ا ستعمال ہوا تھا۔
شایدیہ ہی وجہ ہے کہ جب ایک عام آدمی حالیہ دنوں عالمی ذرائع ابلاغ میں تیل کے بطور ہتھیار استعمال کی خبریں ملاحظہ کرتاہے تو اُسے سمجھ ہی نہیں آتی کہ جب امریکا اپنی ضرورت سے زائد تیل پیدا کرتا ہے تو ایسے میں سعودی عرب یا کوئی دوسرا عرب ملک کیسے تیل کو بطور ہتھیار ،امریکا کے خلاف استعمال کرسکتا ہے۔ دراصل لوگوں کی اکثریت تیل کی بندش کو ہی تیل کا بطور ہتھیار ،واحد استعمال سمجھتی ہے۔ حالانکہ آج کی دنیا میں تیل کی ترسیل میں غیر معمولی اضافہ تیل کو ایک ایسے کاری ہتھیار میں تبدیل کرسکتاہے ، جس کا جواب امریکا سمیت دنیا کے کسی مغربی ملک کے پاس موجود نہیں ہوگا۔ واضح رہے کہ سعودی عرب نہ صرف دنیا میں تیل کے سب سے بڑے ذخائر کا مالک ہے بلکہ یہ تیل پیدا کرنے والا وہ واحد ملک ہے جس کے پاس تیل کی اضافی مقدار مہیا کرنے کی اتنی صلاحیت موجود ہے کہ وہ کسی بھی وقت تیل کی مارکیٹ میں ’’سیلاب‘‘ لا سکتا ہے۔ سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیجئے کہ ماضی میں سعودی عرب نے تیل کی فروخت اور پیداوار کم کرکے امریکا اور مغربی ممالک کو ناکوں چنے چبوادیئے تھے تو آج وہی سعودی عرب کسی بھی وقت اپنی تیل کی پائپ لائنوں کے دہانے کھول کر یعنی تیل کی ترسیل اور پیدوار میں اضافہ کرکے تیل فراہم کرنے والوں دوسرے ملکوں کا صرف ستیاناس ہی نہیں بلکہ سواستیاناس بھی کرسکتاہے۔
حالیہ دنوں ،تیل پیدا کرنے والے ملکوں کی تنظیم اوپیک اور اس کے اتحادیوں (اوپیک پلس) کی جانب سے پیداوار میں کمی کا فیصلہ امریکا کے لیے ایک بڑا دھچکا ثابت ہوا ہے اور اب اس فیصلے کے اثرات کو کم کرنے کے لیے امریکی صدر جو بائیڈن اور ارکان کانگریس سعودی عرب کے خلاف متعدد اقدامات پر غور کر رہے ہیں۔ امریکی جریدے میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق، اوپیک کی جانب سے چند روز قبل پیداوار میں 20 لاکھ بیرل یومیہ کی کٹوتی کے فیصلے کے بعد امریکا میں پٹرولیم کی قیمتوں میں زبردست اضافے کا خدشہ ہے۔ اوپیک کے اس غیر معمولی اقدام کی وجہ سے امریکا کی سعودی عرب کے ساتھ سفارت کاری کو بھی سخت خطرات لاحق ہوتے نظر آ رہے ہیں کیونکہ موجودہ صورتحال کے پیش نظر، امریکا میں حکومت اور ارکان کانگریس امریکی صارفین کے تحفظ کے لیئے متعدد اقدامات اُٹھانے پر انتہائی سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں ۔جن میں اوپیک سے آئل مارکیٹس کا کنٹرول چھیننے، امریکی کمپنیوں کی تیل کی برآمدات محدود کرنے اور غیر دوستانہ ممالک پر عائد کردہ پابندیوں میں نرمی کرنے جیسے سخت اقدامات شامل ہیں۔ اگرچہ یہ تمام اقدامات سنجیدہ نوعیت کے نظر آتے ہیں لیکن بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ان کے نتیجے میں امریکی مفادات کو اُلٹا نقصان بھی ہو سکتا ہے۔
سعودی عرب اور امریکا کے درمیان معاملات کتنے سنگین ہیں،اس کا اندازہ صرف اس بات سے بھی لگایا جاسکتاہے کہ رواں ہفتہ امریکی صدر نے دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ’’ ہمارے پاس کئی متبادل آپشنز موجود ہیں لیکن ابھی ہم نے کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ فی الحال، وائٹ ہائوس ارکان کانگریس کے ساتھ ایک قانون سازی پر کام کرنے پر غور کر رہا ہے جس کے تحت امریکی حکومت کو بھروسہ توڑنے پر آئل کارٹیل (تیل پیدا کرنے والے والے ملکوں کی تنظیم) کیخلاف مقدمہ کرنے کی اجازت مل جائے گی‘‘ ۔ واضح رہے کہ امریکا کی جانب سے عرب ممالک کے خلاف یہ ایک ایسا انتہائی اقدام ہوگا، جس کے حوالے سے امریکی حکومت اور کانگریس نے ماضی میں بھی سعودی عرب کو کئی مرتبہ دھمکی دے چکی ہے۔سعودی عرب اور امریکا کے سفارتی تعلقات کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہے کہ امریکی صدر ،ارکانِ کانگریس کے ساتھ مل کر سعودی عرب کے خلاف انتہائی نوعیت کی قانون سازی پر سنجیدگی کے ساتھ غور کر رہے ہیں۔
امریکی سینیٹ میں اکثریتی رہنما چک شوُمر کا کہنا ہے کہ’’ اوپیک نے خوفناک اور مذموم اقدام کیا ہے جس سے بہتر انداز سے نمٹنے کے لیے ہم قانونی اقدامات پر غور کر رہے ہیں‘‘۔نیز وائٹ ہاؤس نے بھی اپنے ایک بیان میں امریکی سینیٹر کے بیان کی توثیق کرتے ہوئے کہاہے کہ’’ تیل کی قیمتوں پر اوپیک کا کنٹرول کم یا بالکل ختم کرنے کیلئے کانگریس سے بات کی جا رہی ہے اور مختلف طریقوں پر غور اور حکام سے بات کی جا رہی ہے‘‘۔ واضح رہے کہ ممکنہ طور پر جس قانون سازی کا اشارہ دیا جا رہا ہے اس کا حوالہ عالمی ذرائع ابلاغ میں امریکی قانون سازوں کی جانب سے ماضی میں بھی کئی مرتبہ دہرایا جا چکا ہے۔ اس ضمن میں OPEC (اوپیک) کیخلاف جو قانون لانے پر غور کیا جا رہا ہے اس کا نام NOPEC یعنی نان آئل پروڈیوسنگ اینڈ ایکسپورٹنگ کارٹیل ہے۔ یہ قانون بھروسہ توڑنے کے قوانین کو تبدیل کر دے گا تاکہ امریکی محکمہ انصاف کو ایسے ممالک کیخلاف مقدمہ کرنے کی اجازت دی جا سکے جو تیل، قدرتی گیس یا کسی بھی پٹرولیم مصنوعات کی برآمدات کو روکتے ہیں۔
غالب امکان ہے کہ یہ بل سال کے آخر تک کانگریس میں منظوری کے لیے پیش کر دیا جائے۔لیکن بعض تجزیہ کاروں کو اندیشہ یہ قانون صرف ایک دھمکی ہے اور عین ممکن ہے کہ NOPEC کی دھمکی کے نتیجے میں اوپیک ممالک امریکی مطالبات کے آگے جھک جائیں لیکن اس قانون کے نفاذ اور اوپیک ارکان کیخلاف عدالتی کارروائی کے نتیجے میں امریکا اور اوپیک ممالک خاص طور پر سعودی عرب کے درمیان دشمنی کا ایک نیا باب کھل سکتا ہے جس سے ممکنہ طور پر آئل مارکیٹس میں خوف کی لہر دوڑ سکتی ہے۔
دوسری جانب سعودی وزیر مملکت برائے خارجہ امور عادل الجبیر نے کہا ہے کہ’’ سعودی عرب تیل اور اوپیک پلس اتحاد کو امریکا کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کرتا اور ہم تیل کی منڈیوں میں استحکام کیلئے اپنے عزم کا اظہار کرتے ہوئے سختی سے تردید کرتے ہیں کہ سعودی عرب نے امریکا کو نقصان پہنچانے کے لیے تیل کی پیداوار میں کمی نہیں کی ہے۔کیونکہ تیل ہماری نظر میں عالمی معیشت کے لیے بہت اہم ہے جس میں ہمارا اپنے بھی بڑے معاشی مفادات پوشیدہ ہیں ۔لہٰذا ہم تیل یا اس سے متعلق فیصلوں پر سیاست نہیں کرتے۔‘‘نیز سعودی وزیر مملکت برائے خارجہ امور عادل الجبیر کا مزید یہ بھی کہنا تھا کہ ’’امریکہ میں ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سعودی عرب ہرگز نہیں ہے ،بلکہ تیل صاف کرنے والی امریکی ریفائنریوں کی پیداوار میں کمی سے امریکا میں تیل کی قیمتوں میں غیرمعمولی اضافہ ہواہے۔امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات سٹریٹجک نوعیت کے ہیں، یہ تعلقات شراکت داری اور اتحاد پر مبنی ہیں اور ہمارا ماننا ہے کہ تیل کوئی ہتھیار نہیں ہے‘‘۔
اَب یہاں اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا امریکی قیادت، سعودی وزیرمملکت برائے اُمور خارجہ کی تفصیلی وضاحت سے مطمئن ہوکر تیل پیدا کرنے والے ممالک کے خلاف ممکنہ قانون سازی کے فیصلہ پر نظر ثانی کرے گی؟۔بظاہر ایسا لگتاہے کہ امریکی صدر جوبائیڈن سعودی عرب کے خلاف انتہائی قانونی اقدامات اُٹھانے کے لیئے اپنا ذہن بنا چکے ہیں اور امریکی ارکانِ کانگریس بھی اِس بار اوپیک کے خلاف قانون منظور کروا کر ہی دم لیں گے۔ دراصل سعودی عرب تسلیم کرے یا نہ کرے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ اُس کے پاس واقعی تیل کا مہلک ہتھیار ہمیشہ سے موجود رہاہے اور امریکا مذکورہ ہتھیار کی کاری ضرب ماضی میں محسوس بھی کرچکا ہے لہٰذا ،اَب اُس کی شدید خواہش ہے کہ وہ جلد ازجلد تیل کے ہتھیار کو بے اثر کردے ۔ تاکہ مستقبل قریب اُسے اپنے خلاف تیل کا ہتھیار استعمال ہونے کا کوئی ڈریا خوف نہ رہے۔
٭٭٭٭٭٭٭