وجود

... loading ...

وجود

’’کھسرا ‘‘قانون۔۔

جمعه 14 اکتوبر 2022 ’’کھسرا ‘‘قانون۔۔

دوستو،پارلیمنٹ میں آج سے چار سال قبل ٹرانس جینڈر پرسنز پروٹیکشن آف رائٹس نامی بل منظور کیا گیا تھا۔ ٹرانس جینڈر ایکٹ بنیادی طور پر تیسری جنس سے تعلق رکھنے والوں کو اپنی جنس کا انتخاب اور اس شناخت کو سرکاری دستاویزات بشمول قومی شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور ڈرائیونگ لائسنس میں تسلیم کرنے کی اجازت دینے کے علاوہ خواجہ سراؤں کے اسکولوں، کام کی جگہ، نقل و حمل کے عوامی طریقوں اور طبی دیکھ بھال حاصل کرنے کے دوران امتیازی سلوک سے منع کرتا ہے اور اس کے علاوہ یہ قانون مخنث افراد کو ووٹ دینے یا کسی عہدے کے لیے انتخاب لڑنے کا حق دینے، اور ان کی منتخب جنس کے مطابق وراثت میں ان کے حقوق کا تعین کرنے اور حکومت کو جیلوں یا حوالاتوں میں مخنث افراد کے لیے مخصوص جگہیں اور پروٹیکشن سینٹرز اور سیف ہاؤسز قائم کرنے کا پابند بناتا ہے۔2018میں قومی اسمبلی میں پیش ہونے والے اس بل کے تحت خواجہ سرا افراد کو ڈرائیونگ لائسنس بنوانے اور ہراسانی سے تحفظ کی سہولت ملے اور ان سے بھیک منگوانے والوں پر پچاس ہزار روپے جرمانہ کی سزا بھی متعین کی گئی۔ٹرانس جینڈرز ایکٹ دراصل حقیقی خواجہ سراؤں کو تحفظ اور حقوق دلانے کیلیے پیش کیا گیا تھا۔ 2018 میں منظور ہونے والا ٹرانس جینڈر ایکٹ انہیں قومی دھارے میں لانے کا سبب بنا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ قانون اس قدر اچھا ہے تو ہماری مذہبی جماعتیں اور دیگر طبقات اس کی مخالفت کیوں کررہے ہیں؟ دراصل ہوا کچھ یوں کہ اس قانون کی تشکیل کے دوران مادرپدر آزاد حلقوں نے اس میں کچھ غیر فطری اور متنازع شقیں شامل کروادیں۔ جیسے کہ اس بل کی شق نمبر 3 اور اس کی ذیلی شق نمبر 2 میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی شخص کی جنس کا تعین اس کی اپنی مرضی کے مطابق ہوگا۔ یہاں سے ہم جنس پرستی کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ اب اگر کوئی مرد کسی مرد سے شادی کرنا چاہے تو وہ نادرا میں جاکر ایک جھوٹا بیان حلفی جمع کروائے کہ مجھ میں عورت کی حسیات پیدا ہوچکی ہیں۔ نادرا بغیر کسی میڈیکل چیک اپ کے اس کے جھوٹے بیان حلفی کی بنیاد پر اسے عورت کا شناختی کارڈ جاری کردے گا۔۔یعنی جو بل خواجہ سراؤں کے تحفظ کیلئے پیش کیا گیا تھا تا کہ معاشرے میں ان کی جو تذلیل کی جا رہی ہے اس کا مداوا ہو سکے اب اس کا مغربی مافیا کے در پردہ اور مغرب سے متاثرہ افراد کی جانب سے غلط استعمال شروع کر دیا گیا ہے تا کہ معاشرے میں ہم جنس پرستی کو فروغ دے کر مغرب کا ایجنڈہ پاکستان میں پھیلایا جا سکے۔
منٹو نے ہیجڑوں کی تین خصوصیات کا تذکرہ کیا ہے۔ پہلی یہ کہ وہ محافظ تھے۔ دوسری خط نویس اور تیسری یہ کہ وہ قاصد بھی تھے۔ ہیجڑے۔کئی صدیوں تک درباروں اور اقتدارروں میں رہے ہیں۔۔نواب آف اودھ پور نے محل کی پاسبانی کے لیے ہیجڑوں کی بٹالین بھی بنائی تھی۔ مغلوں سے سلطنت کیا چھینی۔ہیجڑوں سے چھت چھن گئی۔ آج لوہاروں کو مغل کہا جاتا ہے اور خواجہ سراؤںکو کھسرے،بیچارے محل سے محلے میں آگئے ہیں۔کہتے ہیں کہ ملتان کا ایک خواجہ سراکسی لاہوری پہلوان سے لڑ پڑا‘ لڑائی کے دوران ملتانی خواجہ سرا نے لاہوری پہلوان کو دھمکی دی۔۔میں تمہارے ساتھ ’’خوفناک‘‘ سلوک کروں گا۔۔ پہلوان نے قہقہہ لگا کر جواب دیا۔۔تم خواجہ سرا ہو‘ تم میرے ساتھ ’’خوفناک‘‘ سلوک کیسے کرو گے؟؟۔۔ خواجہ سرا کو اپنی غلطی کا احساس ہوا‘ وہ رکا‘ تھوڑا سا شرمایا اورپھر ہتھیلی پر ہتھیلی رگڑ کر بولا۔۔میانوالی میں میرے ماما جی رہتے ہیں‘ وہ ساڑھے چھ فٹ کے کڑیل جوان ہیں‘ میں انہیں بلاؤں گا‘ وہ تمہارے ساتھ ’’خوفناک‘‘ سلوک کریں گے‘‘ پہلوان نے قہقہہ لگایا‘ خواجہ سرا کی گردن پر مکا مارا‘ خواجہ سرا نالی میں گر گیا اور پہلوان سائیکل پر بیٹھ کر روانہ ہوگیا۔۔بشری رحمن لکھتی ہیں۔۔اکیس ویں صدی کے ہیجڑے شارع عام پر سرعام آنے سے نہیں گھبراتے۔ان کی پھبن بھی دیکھنے کے قابل ہوتی ہے۔ غرارہ۔۔ شرارہ۔۔ ساڑھی۔۔ کیپری۔۔ کیولاٹ۔۔ پاجامہ‘ شلوار قمیض۔۔ ہر قسم کے ملبوسات سے مزین نکلتے ہیں‘ میک اپ ایسا جیسے کسی بیوٹی پارلر سے آ رہے ہوں‘ بندیا بھی۔۔ گجرا بھی۔۔ کجرا بھی۔۔ نفنرہ بھی۔۔ اور ادائیں بھی۔۔موٹر میں بزرگ بیٹھے ہوں تو فوراً حج کی دعا دیں گے۔میاں بیوی اور بچے بیٹھے ہوں تو بچوں کے سہرے گانے لگ جائیں گے۔جوان جوڑے کو دیکھ کر صاحبِ اولاد ہونے کی خوشخبری دیں گے۔اور اگر بھگوڑے عاشق معشوق کو پہچان لیں تو ان کا فنِ خطابت اور فنِ موسیقی چھلک اٹھتا ہے۔ یہ پہچان لیتے ہیں کہ ڈیٹ پر کون جا رہا ہے اور سلیٹ کس کی صاف ہے۔۔ پھر ان کا انگ انگ فنونِ لطیفہ کا اظہار کرنے لگتا ہے۔مرد انہیں دیکھ کر لُطف لیتے ہیں‘ عورتیں ناک منہ چڑھاتی ہیں‘ بچے تالیاں بجاتے ہیں۔باباجی نے ایک بار ہمیں لطیفہ سنایا کہ۔۔ایک ہیجڑہ الیکشن میں ووٹ مانگ رہا تھا،عوام نے پوچھا۔۔ اگر آپ الیکشن جیت گئے اور آپ کی حکومت بن گئی تو آپ ہمیں کیا دیں گے؟ہیجڑے نے کہا۔۔ جس کے گھر بھی کاکا پیدا ہوا،حکومت مفت ناچے گی۔
ہمیں یاد ہے کچھ عرصہ ایک نیوزچینل پر خاتون نیوز اینکر نے جب یہ تشویش ناک خبر بطور’’ بریکنگ‘‘ دی کہ ۔۔چمن میں خواجہ سرا کی وبا تیزی سے پھیل رہی ہے جس کی وجہ سے 5 بچے ہلاک ہوچکے ہیں۔ سننے والے حیران تھے کہ یہ کون سی وبا ہے جو بچوں کو ہلاک کررہی ہے!خاتون نے پہلے تو کھُسرے کی وبا کہا، پھر خیال آیا کہ کھسرا کہنے سے اس مخلوق کی دل آزاری ہوگی، چنانچہ کھسرے کا مہذب ترجمہ۔۔’’خواجہ سرا‘‘ کردیا۔۔ خوشی کی بات یہ تھی کہ خاتون اینکر کو یہ معلوم تھا کہ کھسرے کا متبادل خواجہ سرا ہے ورنہ اب یہ لفظ عام نہیں رہا، زیادہ سے زیادہ ہیجڑا یا مخنث کہہ دیا جاتا ہے جس وبا کا ذکر تھا وہ’’ خسرہ‘‘ ہے۔ایک بار ہم نے باباجی سے پوچھا۔۔ یہ لاہور میں خواجہ سرا ، نہر کے کنارے کیوں کھڑے نظر آتے ہیں۔۔باباجی نے بغور ہماری طرف دیکھا پھر پراسرار سی لیکن مکروہ مسکراہٹ کے ساتھ فرمانے لگے۔۔تاکہ وہ تروتازہ رہ سکیں۔۔ہم نے باباجی کا جواب سنا ان سنا کرتے ہوئے اگلا سوال داغا۔۔ تو پھر کراچی میں ٹریفک سگنلز پر کھڑے کیوں نظر آتے ہیں۔۔ باباجی نے برجستہ کہا۔۔تاکہ گاڑی والے تروتازہ رہ سکیں۔۔باباجی کے جوابات سن کر ہم نے انہیں کہا۔۔باباجی ایک تازہ لطیفہ سنیئے۔۔باباجی ہمہ تن گوش ہوئے تو ہم نے کہا۔۔ایک ماہرِ نفسیات نے مریض سے کہا میں تصویر بناؤں گا تمہارے ذہن میں جو خیال آئے بتانا،ڈاکٹر نے دائرہ بنایا مریض نے کہا جنس۔۔ڈاکٹر نے تکون بنائی مریض نے کہا جنس۔۔ڈاکٹر نے چوکور بنائی مریض نے کہا جنس۔۔ڈاکٹر تپ گیا، غصے سے بولا۔۔ لگتا ہے تمہارے اعصاب پر جنس سوار ہے۔۔مریض نے معصومانہ لہجے میں کہا۔۔ آپ عجیب ڈاکٹر ہیں آپ خود فحش تصویریں بنا رہے ہیں اور مجھے کہتے ہیں میرے اعصاب پر جنس سوار ہے۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔جتنی ذمہ داری سے لوگ الٹی چپل کو سیدھا کرتے ہیں، اتنی ہی ذمہ داری سے خود سیدھے ہوجائیں تو دنیا جنت بن جائے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر