... loading ...
قابل ذکر بات یہ نہیں ہے کہ آٹھ برس کے طویل وقفے کے بعد ایم کیو ایم پاکستان کے کسی رہنما نے صوبہ سندھ کے 34 ویں گورنر کی حیثیت سے حلف اُٹھالیا ہے بلکہ سرِ دست، سب سے زیادہ اہم بات تو یہ ہے کہ کامران ٹیسوری کو گورنر سندھ کا عہدہ سنبھالنے پر جن سیاسی رہنماؤں نے اُنہیں سب سے پہلے مبارک باد اور تہنیت کے پیغامات بھیجے ہیں، اُن کی بڑی اکثریت کا شمار، ایم کیو ایم پاکستان کی شدید ترین سیاسی مخالفین میں ہوتاہے۔ جبکہ ایم کیو ایم پاکستان کی اعلیٰ قیادت اپنے نامزد کردہ نئے گورنر کو مبارک دینے میں ا بھی تک شدید ہچکچاہٹ کا شکار دکھائی دیتی ہے۔صرف اِس ایک مثال سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ نئے گورنر سندھ،کامران ٹیسوری کا ایم کیوایم پاکستان سے نظریاتی طور پر کتنا تعلق بنتا ہے۔
شاید یہ ہی وجہ ہے کہ کامران ٹیسوری ایم کیو ایم کے ڈپٹی کنوینر اور گورنر سندھ کے منصب ِ جلیلہ پر فائز ہوتے ہوئے بھی کسی دوسری سیاسی جماعت کے گورنر محسوس ہورہے ہیں۔ جبکہ ذرائع ابلاغ میں ایسی خبریں بھی زیرِ گردش ہیں کہ ایم کیو ایم پاکستان کی رابطہ کمیٹی میں کامران ٹیسوری کو گورنر سندھ بنانے کے بعد اختلافات بے پناہ شدت اختیار کرگئے ہیں اور، ایم کیوایم پاکستان کے دیرینہ کار کنان نے کامران ٹیسوری کے گورنر بننے پر اپنے سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے۔بات تو اَب یہاں تک جا پہنچی ہے کہ ایم کیوا یم پاکستان کے کئی سر کردہ رہنماؤں اور منتخب نمائندوں نے رابطہ کمیٹی پر واشگاف الفاظ میں واضح کردیا ہے کہ اگر کامران ٹیسوری،بدستور گورنر سندھ کے عہدے پر برقرار رہتے ہیں تو وہ بہت جلد اپنی سیاسی راہیں ایم کیو ایم پاکستان سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا بھی کرسکتے ہیں۔
جبکہ ایم کیوا یم کے ایک اہم ترین رہنما شہاب امام، جنہوں نے کامران ٹیسوری کو گورنر سندھ کے لیے نامزد کیے جانے کی صرف خبر پرہی پارٹی سے استعفادے دیا تھا،انہوں نے باضابطہ طور پر پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔جبکہ ایم کیو ایم پاکستان کے مزید کئی رہنما بھی پی ٹی آئی میں شامل ہونے کے لیے پوری طرح سے تیار کامران دکھائی دے رہے ہیں۔ دراصل ایم کیو ایم پاکستان کے ناراض رہنماؤں اور کار کنان کا موقف ہے کہ کامران ٹیسوری کو گورنر سندھ بنانے کے فیصلے سے آئندہ بلدیاتی انتخاب میں اُن کی جماعت کو سخت جھٹکا لگے گا، کیونکہ پارٹی کی نچلی سطح کی بیشتر قیادت اور کارکنان،گزشتہ چند ماہ میں رابطہ کمیٹی کی جانب لیے جانے والے سیاسی فیصلوں پر پہلے ہی سخت ناراض اور نالاں دکھائی دے رہے تھے اور اَب رابطہ کمیٹی کے ایک اور نئے ”سیاسی کارنامہ“ نے کارکنان کی بڑی اکثریت کو عملی طور پر ایم کیو ایم پاکستان سے مکمل کنارہ کشی اختیار کرنے پر مجبور کردیا ہے۔
جس کا سب سے بڑا ثبوت سوشل میڈیا پر کامران ٹیسوری کو ایم کیو ایم کی جانب سے گورنر سندھ بنائے جانے پر ایم کیوایم پاکستان کی قیادت کو آڑے ہاتھوں لیا جانا ہے۔سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیجئے کہ جہاں کامران ٹیسوری کے لیے گورنر سندھ کا عہدہ،شادمانی کا باعث بنا ہے،وہیں اُن کی تقرری نے ایم کیو ایم پاکستان میں ہرسمت صفِ ماتم بچھا دی ہے اوررابطہ کمیٹی کے اراکین دو حصوں میں برابر،برابر تقسیم ہوگئے ہیں۔بعض سیاسی تجزیہ کاروں نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ سیاسی تقسیم اگلے بلدیاتی انتخابات ہی نہیں بلکہ آئندہ قومی انتخابات میں بھی ایم کیو ایم پاکستان کے لیے سخت سیاسی نقصان اور ضرر کا باعث بن سکتی ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر کامران ٹیسوری، بطور گورنر سندھ،ایم کیو ایم پاکستان کے کارکنان کے لیے ناقابل قبول کیوں ہیں؟ بظاہر کامران ٹیسوری اور ان کا خاندان کراچی کی ایک بڑی کاروباری خاندان کے طور جانے جاتے ہیں اور ماضی میں گورنر سندھ کیلئے کسی شخصیت کا کراچی اور ایم کیو ایم سے منسلک ہونا ہی کافی سمجھا جاتا تھا۔ 48 سالہ کامران ٹیسوری،اِن دونوں شرائط پر بخوبی پورا اُترتے ہیں۔ نیز وہ ”ٹیسوری گولڈ“کے نام سے سونے کے بڑے کاروبار کے مالک ہیں اور ان کا یہ کاروبار پاکستان، مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک اور یورپ تک پھیلا ہوا ہے۔یاد رہے کہ شہرکی، بڑی کاروباری شخصیت ہونا گورنر سندھ کے عہدے لیے ہمیشہ سے ایک اضافی خوبی سمجھی جاتی رہی ہے۔ مگر اِس بار بیشتر لوگوں کو یہ خوبی بھی خامی محسوس ہورہی ہے۔
جبکہ کامران ٹیسوری سیاست کا بھی کافی تجربہ رکھتے ہیں۔ انہیں سب سے پہلے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں وزیر اعلیٰ سندھ، ارباب غلام رحیم کے ساتھ دیکھا گیا تھا جن کے ساتھ ان کے اتنے قریبی مراسم تھے کہ بعض صوبائی وزراء کو بھی”وزیر اعلی سندھ“سے رابطے کے لیے پہلے کامران ٹیسوری سے رابطہ استوار کرنا پڑتا تھا اور پھر یہ سیاسی مراسم اس قدر پختہ ہوئے کہ کامران ٹیسوری نے مسلم لیگ فنکشنل میں شمولیت اختیار کرلی، جس کے بعد وہ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کے زیرِ عتاب آگئے، اُن پر بدین اور ٹھٹھہ میں زمینوں پر قبضے، کراچی میں پولیس مقابلے سمیت دیگر الزامات کے تحت مقدمات بھی قائم کیے گئے۔بعدازاں کامران ٹیسوری کا سیاسی سفر متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ شروع ہوا،اورسال 2018 کے عام انتخابات میں انہوں نے پہلے پارٹی سے ناراضی پر آزادانہ انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا لیکن پھر اُن کا صلح نامہ ہوگیا اور وہ انتخابات سے دستبردار ہوگئے۔ کامران ٹیسوری ایم کیوایم میں کئی بار داخل ہوئے اور کئی بار باہر بھی گئے لیکن بالآخر وہ ایم کیو ایم کے بل بوتے پر ہی پاکستان کے دوسرے بڑے صوبے کا گورنر بننے میں کامیاب ہو ہی گئے۔
کامران ٹیسوری کے گورنر سندھ بننے کے بعد ایم کیو ایم سخت تنقید کی زد میں ہے اور ناقدین کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ رابطہ کمیٹی کو اپنے کسی موزوں رہنما کو گورنر سندھ بنانا چاہیئے تھا۔ مگر ہمارے خیال میں ایم کیو ایم پاکستان میں جو سیاسی مال فی الحال دستیاب ہے، اُس میں سب سے زیادہ موزوں ترین تو فقط کامران ٹیسوری ہی تھے۔ یقینا وہ بھی ایک متنازعہ سیاسی شخصیت ہیں،لیکن پاکستان میں کون سی ایسی سیاسی شخصیت ہے، جس کی ذات بابرکات کے ساتھ کوئی نہ کوئی سیاسی تنازعہ نہ جڑا ہو۔
دراصل گورنر سندھ بننے کے بعد اصل امتحان تواَب کامران ٹیسوری کا شروع ہونے والا ہے۔ اگر موصوف منصب ِ گورنری پر رہتے ہوئے کراچی شہر کے لیے واقعی کوئی کارہائے نمایاں انجام دینے میں کامیاب رہے توپھر اُن کی ذات پر لگائے جانے والے تمام الزامات اور تنقید قطعی بے معنی ہو کرجائے گی۔ کیونکہ اَب صوبہ سندھ کی عوام، کامران ٹیسوری کو کسی سیاسی جماعت کے سیاسی رہنما کے طور پر نہیں بلکہ گورنر سندھ کے طور پر یادرکھے گی۔اَب یہ عوامی یادیں تلخ ہوں گی یا شیریں،اس کا تمام تر انحصار صرف گورنرسندھ کامران ٹیسوری کی انتظامی کارکردگی پر ہوگا۔ بہرکیف ہمار ی نیک تمنائیں اُن کے ساتھ ہیں کہ اگر اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے کامران ٹیسوری کو گورنری کے عظیم منصب پر فائز کیا ہے،تو پھر، اُنہیں اس انتظامی ذمہ داری سے خوش اسلوبی کے ساتھ عہدہ برآ، ہونے کی توفیق بھی عنایت ہو۔آمین۔
٭٭٭٭٭٭٭