... loading ...
صحافت میں سب سے زیادہ اہمیت پہلے سوال کی ہے۔ پہلا سوال اُٹھانا سب سے زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ کیونکہ کسی بھی معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے پہلا سوال کیا بنتا ہے، یہ مسئلہ صلاحیت کے ساتھ صالحیت سے بھی جڑا ہے؟ ایک باصلاحیت شخص ہی پہلے سوال کا ادراک کرپاتا ہے، مگر ایک صالح شخص ہی اپنی منصبی ذمہ داری کا احساس رکھتے ہوئے اُس سوال کو اُٹھانے کا خطرہ مول لے سکتا ہے۔ صحافت گاتی گنگناتی شاہراؤں پر بے خطر دوڑنے کا نام نہیں۔ یہ نازک لمحات میں ذمہ داریوں کی تفہیم کا سماجی احساس ہے۔ یہ احساس ہی خطرات کا سامنا کرنے کی ہمت دیتا ہے۔ ایسے میں اہمیت ذمہ دارانہ طور پر پہلا سوال اُٹھانے کی ہے۔ کسی بھی معاملے میں پہلا سوال کیا ہے؟ یہ تفہیم کسی دماغ کی نہیں، دل کی بھی ترجمانی کرتی ہے۔
پاکستان میں سیاست اور حاملین ریاست کے غیر متعلق اور جعلی دعوے داروں نے سماج اور دیگر معاشرتی دھاروں کو بھی مکمل طور پر اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔ مثلاً سچ ، جھوٹ، حقیقت ، مغالطے، ذمہ داری، لاتعلقی جیسے معاشرتی اور اخلاقی موضوعات بھی اب سیاسی ترجمانی کے تابع بن چکے ہیں۔ ساکھ سے کسی کو دلچسپی نہیں، جانب دار دکھائی دیتے ہوئے بھونڈے اور بھدے محسوس ہوتے ہیں تو کیا ہوا؟ عمومی برتاؤ ہے کہ کیا فرق پڑتا ہے؟ قومی، سیاسی اور ریاستی معاملات سے متعلق حساس مسائل پر بھی یہی رویہ یکساں رہتا ہے۔ قومی مسائل کے اہم ترین ریاستی ذمہ داروں کا چال چلن بھی اب حساس ترین معاملات میں انتظامی ذمہ داریوں کی طرح کا ہو گیا ہے۔ کیا فرق پڑتا ہے کہ آج جسے غدار ثابت کیا جارہا ہے، وہ کل محب وطن کہلائے؟ آج محب وطن قرار پانے والے کو کل غدار باور کرا دیں۔ یہ سب کچھ قومی احساس ، دیانت اور منصبی فرائض سے زیادہ اب انتظامی ضرورتوں اور سیاسی تقاضوں کے تابع بن چکا ہے۔ یہ مشق اتنی دفعہ دُہرائی جا چکی ہے کہ غداری اور حُب الوطنی کے الفاظ کی حساسیت ختم ہوگئی ہے۔ اس منظر نامے میں جو چیز سب سے پہلے غائب ہوتی ہے، وہ ہے پہلا سوال؟ پہلا سوال لاپتہ آدمی سے بھی پہلے غائب ہوتا ہے۔ اس عمومی رویے میں پہلی ترجیح قومی مفاد نہیں رہتی۔ طاقت کے مراکز پر گرفت مطمح نظر ہوتا ہے۔ اس نقطۂ نظر کے تحت قومی مفاد کی تشریح کی جاتی ہے۔ چنانچہ کسی بھی مسئلے میں یہ بنیادی مقصد ناقابل گفتگو بنا دیا جاتا ہے۔ تاکہ پہلا سوال اُٹھایا ہی نہ جا سکے۔ یہاں وہ خطرناک منطقے شروع ہوتے ہیں جس میں قدم رکھنے والے مقدمات کے جال میں پھنستے ہیں۔ غائب ہوتے ہیں۔ سڑکوں پر مرے پڑے ملتے ہیں۔ تب ان معاملات پر بھی پہلا سوال نہیں اُٹھ سکتا۔
ذرائع ابلاغ پہلا سوال غائب کرانے کے سب سے بڑے آلے ہیں۔ برصغیر میں صحافت اپنی ابتدا میں صرف پیشہ ورانہ نہیں تھی، بلکہ مشنری تھی۔ نوآبادیاتی دور میں قد کاٹھ نکالنے والی صحافت آقاؤں اور حکمرانوں کے خلاف ایک جہاد کی طرح ہوتی تھی۔ تقسیم کے بعد پاکستان میں بھی صحافت کا ابتدائی منظرنامہ اتنا مایوس کن نہ تھا۔ پہلا سوال اُٹھایا جاتا تھا۔ خطرات مول لیے جاتے تھے۔ اس پر موٹے پیٹوں کے لشکروں اور گھامڑوں کے جتھوں کا قبضہ نہ تھا۔ ریاست کے جعلی دعوے داروں نے جب اقتدار اور اختیار کی منظم تقسیم کا عمل شروع کیا اور سیاست کو ایک گھناؤنا عمل بنانے کی کوشش ہوئی تو صحافت بھی ساتھ ہی آلودہ کی گئی۔ ذرائع ابلاغ پر منظم قبضہ کیا گیا۔ مگر تب بھی یہ عمل بہت سست تھا۔ جان ہتھیلی پر رکھنے والے کلمہ ٔ حق بلند کرتے تھے۔ حکمرانوں سے ہی نہیں ، اختیار کے اصل مراکز سے بھی بے رحمانہ سوالات کیے جاتے تھے۔ یہ اصل بڑے لوگ تھے، جو محفلوں میں اگلی صفوں میں دکھائی نہ دیتے تھے۔ پھر کیا ہوا؟ کارپوریٹائزیشن کے عمل میں سب سے پہلے سچ کو صنعت کا مال بنایا گیا۔ صنعتی مال کی کھپت نفع نقصان کی بنیاد پر ہوتی ہے، حق و باطل کی نہاد پر نہیں۔ چنانچہ اب سچ برائے فروخت تھا۔ اس نوع کی صحافت میں سچ انتظار کرکے بولا جاتا ہے، جب اس کے بولنے سے کوئی خطرہ نہ ہو۔ یوں صحافت روز مرہ کا سچ نہ رہی۔ انتظار کرکے بولا جانے والا سچ ، صحافت کے زمرے میں نہیں تاریخ کے خانے میں آتا ہے۔ ایسے سچ کی صحافت میں پہلا کام ، پہلا سوال غائب کرنا ہوتا ہے۔ تاکہ آج کے خطرے سے خود کو دور رکھیں۔ آج کا فائدہ آج ہی سمیٹیں۔ یہ عمل حقیقی اور آدرش رکھنے والے صحافیوں کی موجودگی میں ممکن ہی نہیں۔ چنانچہ پورا صحافتی اُفق ایسا گدلا کردیا گیا کہ ایک باضمیر شخص اس میں اپنے لیے کوئی گنجائش ہی محسوس نہ کر سکے۔ وہ سانس گُھٹنے کے باعث خود ہی خود کو دورکھنے پر مجبور رہے۔ اگر پھر بھی کچھ لوگ اس رومان کے باعث میدان میں اُتریں تو اُنہیں نشانِ عبرت بنا دیا جائے۔ ایسی گھٹن آلود صحافت گزشتہ چار عشروں سے جاری ہے۔ مگر اس کی نہایت گھٹیا رومانوی توجہیات کی جاتی ہیں۔ اگرکسی بھی معاملے میں پہلے سوال کو تلاش کرنے کا عمل شروع کیا جائے تو یہ گزشتہ چالیس برسوں سے ہر معاملے میں غائب ملے گا۔ پاکستان میں پہلا لاپتہ کوئی شخص نہیں یہی سوال ہے، پہلا سوال۔ پاکستان میں پہلا قتل کوئی آدمی نہیں، یہی قتلِ سوال ہے، پہلا سوال۔ پاکستان میں پہلی پھانسی بھی کسی فرد کو نہیں بلکہ اسی سوال کی ہوئی، پھندے میں جھولتا پہلا سوال۔ یہ اقتدار و اختیار کی تقسیم میں منظم اور مرحلہ وار قبضے کے نتیجے میں زوالِ ریاست و سیاست کی حقیقی تصویر ہے۔ جس پر آج تک پہلا سوال نہیں اُٹھایا گیا۔ ذرائع ابلاغ اب بھی یہی کررہے ہیں۔ سمعی فیتوں (آڈیو) کے افشاء (لیکس) میں بھی پہلا سوال غائب کر دیا گیا۔
یاد رکھیں! پہلا سوال غائب کرنے والے پہلی گمراہی (misdirection)بھی پھیلاتے ہیں۔ یہ کبھی ایک سادہ معاملہ نہیں ہوتا۔ اس میں بہت تہہ داریاں ہوتی ہیں۔ مثلا! سمعی فیتے(آڈیو لیکس) سامنے آنا شروع ہوئے تو سب سے پہلا سوال یہ تھا کہ مواد کس ذریعے سے سامنے آیا؟ اس کا جواب کسی نے تلاش نہیں کیا۔ پہلا سوال غائب تھا تو پہلی گمراہی یہ پھیلائی گئی کہ یہ ہیکرز کی کارستانی ہے۔ ہیکرز کے کھاتے میں سمعی فیتوں کا بکھیڑا ڈالنے سے ذمہ داری اور ذمہ داروں کے تعین کا پہلا سوال بھی پیدا نہیں ہو سکا۔ آڈیو لیکس (سمعی فیتوں) کے پیچھے ہیکرز ہیں، یہ تعین کہاں اور کیسے ہوا؟ اس کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں۔ ہیکرز کی کہانی اس کھیل کو ایک
تھرڈ پارٹی (فریقِ ثالث) کا مغالطہ دیتی ہے، جس سے آدمی پہلا دھوکا یہی کھا جاتا ہے کہ یہ نظام کے اندر کارگزار کسی فریق کی کارروائی نہیں۔ یوں یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اندرونی سلامتی کے اندر اتنی بڑی اور بارودی سرنگ کیسے کھودی گئی؟ اس سلامتی کے سرکاری ضامن کہاں سو رہے تھے؟ ان کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں ہوئی؟ جب ذہن ہیکرز کی گمراہی کے ساتھ فریقِ ثالث کی طرف موڑ دیے گئے تو آپ سماجی ابلاغ(سوشل میڈیا)کے ذرائع پر اشتہارات میں سڑکوں پر بیٹھے پراگندہ لوگوں کو دکھاتے ہوئے یہ فقرہ پڑھتے ہوئے ذرا بھی نہیں چونکتے کہ “یہ جاگ رہے ہیں ، اس لیے آپ سو رہے ہیں”۔ سمعی فیتوں پر پہلا سوال ہی یہ تعین کرنے کا ہے کہ کارروائی کس کی ہے؟ یہ سوال ہیکرز کی درفنطنی سے چھپائے نہیں چُھپتا۔
٭٭٭٭٭٭
رات تعمیر کرنے والے اکثر اندھے پن کے شکار ہوتے ہیں۔ صبح دم بھی اُن کی آنکھیں نہیں کھلتیں۔ بس وہ ایک عبرت ناک سبق کے طور پر تاریخ کے رحم و کرم پر رہتے ہیں۔ ماہر طبیعات ابن الہشیم نے کتاب المناظر میں سائنس کا کوئی اُصول بیان کیا ہوگا، جب کہا: آنکھ روشنی کو نہیں دیکھتی؛ بلکہ روشنی آ...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
طبیعتیں اُوب گئیں، بس کردیں سر جی!! ایسٹ انڈیا کمپنی کے دماغ سے کراچی چلانا چھوڑیں! آخر ہمار اقصور کیا ہے؟ سرجی! اب یہ گورنر سندھ کامران ٹیسوری!! سر جی! سال 1978ء کو اب چوالیس برس بیتتے ہیں،جب سے اے پی ایم ایس او(11 جون 1978) اور پھر اس کے بطن سے ایم کیوایم (18 مارچ 1984) کا پرا...
دل میں ہوک سے اُٹھتی ہے!!یہ ہم نے اپنے ساتھ کیا کیا؟ جبلِ نور سے غارِ حرا کی طرف بڑھتے قدم دل کی دھڑکنوں کو تیز ہی نہیں کرتے ، ناہموار بھی کردیتے ہیں۔ سیرت النبیۖ کا پہلا پڑاؤ یہی ہے۔ بیت اللہ متن ہے، غارِ حرا حاشیہ ۔ حضرت ابراہیمؑ نے مکہ مکرمہ کو شہرِ امن بنانے کی دعا فرمائی تھ...