... loading ...
جمعیت علماء اسلام ف بلوچستان کی بڑی سیاسی اور پارلیمانی جماعت ہے۔ پارلیمان کے غالب عرصہ حکومتوں میں شامل رہی ہے۔2002اور2008ء کی اسمبلیوں میں سینئر وزارت اس کے حصے میں تھی۔ کرتا دھرتا مولانا عبدالواسع تھے۔2013ء کی اسمبلی میں موقع موافق نہ بنا ،حزب اختلاف میں بیٹھ گئی۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ وزیراعلیٰ تھے ۔ یہ حکومت مسلم لیگ نواز، نیشنل پارٹی ، پشتونخوا میپ اور ق لیگ کی مخلوط تھی۔ عوامی نیشنل پارٹی بھی حزب اختلاف کی نشستوں پر تھی۔ مسلم لیگ نواز اور نیشنل پارٹی کے مابین اڑھائی اڑھائی سال حکومت کا فارمولہ طے تھا۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی مدت پوری ہوئی تو نواب ثناء اللہ زہری وزیراعلیٰ بنے۔ ثناء اللہ زہری اور ان کے ساتھ وہ ارکان جو آج باپ پارٹی میں اکٹھے ہیں، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے خلاف حزب اختلاف سے بھی زیادہ مسائل پیدا کرنے والے تھے۔ اڑھائی سال کی حکومت میں انہیں ایک دن بھی چھین سے بیٹھنے نہ دیا۔ وفاق میں مسلم لیگ نواز اور مقتدر ہ کے درمیان ٹھن گئی تو بلوچستان میں میاں نواز شریف مخالف رجحان کو تقویت دی گئی۔ بلوچستان اسمبلی میں ن لیگی ارکان اسمبلی نے آنکھیں پھیرنا شروع کردیں۔ ق لیگ صوبے میں میاں نواز شریف کی جماعت پر وار کرنے والوں کے شانہ بشانہ تھی۔ عبدالقدوس بزنجوق لیگ میں تھے اور اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر تھے۔ چناں چہ ن لیگ سے وابستہ ا رکان اسمبلی نے اشارہ ملتے ہی قبلہ تبدیل کردیا۔ ثناء اللہ زہری سے وزارت اعلیٰ لے لی گئی۔ عبدالقدوس بزنجو آگے آگے تھے اور حکومتی مدت کے آخری چھ ماہ صوبے کے وزیراعلیٰ بنے۔ اس تجربہ کے تحت نئی جماعت کے تار وپود جوڑ کر بلوچستان عوامی پارٹی بنائی گئی۔ جام کمال خان بھی مشکل وقت میں میاں نواز شریف کو چھوڑنے والوں میں تھے،اور نئے سیاسی جتھے کے صدر بنائے گئے۔ مقصود بیان یہ ہے کہ حزب اختلاف یعنی عوامی نیشنل پارٹی، سردار اختر مینگل اور جمعیت علماء اسلام اس پورے عمل میں مکمل ساتھ و ہمنوا تھی۔ مولانا عبدالواسع قائد حزب اختلاف تھے۔
چناں چہ اس چھ ماہ کی حکومت میں پردہ اگرچہ حزب اختلاف کا قائم رکھا تھامگر تمام حکومتی مراعات اور آسائشوں میں پوراپرا حصہ لے رکھا۔ خواہ عدلیہ کے اندر عہدے ہوں یا آفسر شاہی میں اپنے لوگوں کو کھپانا۔چناں چہ2018ء کے عام انتخابات میں فضا پھر ایسی بنی کہ جمعیت علماء اسلام اور بی این پی کو حزب اختلاف میں بیٹھنا پڑا۔ اس بار پشتونخوا میپ کا اکلوتا رکن اسمبلی نصر اللہ خان بھی حزب اختلاف کی کرسی پر بیٹھ گئے۔ ۔ جام کمال خان وزیراعلیٰ بنے ۔ عبدالقدوس بزنجو ایوان کے اسپیکرکے اہم منصب پر بٹھا ئے گئے۔جام کمال خان غیر لچکدار تھے یا ہٹ دھرمی دکھانے پر مجبور کئے گئے تھے ،بہر حال ان کے حزب اختلاف سے مراسم تلخ ہی ر ہے۔ رفتہ رفتہ پھر عدم اعتماد کی تحریک کا ماحول بن گیا ۔ عبدالقدوس بزنجو اسپیکر ہونے کے باوجود کھلے عام حزب اختلاف اور اپنی جماعت کے بعض ارکان سے مل کر باغیانہ سیاست پر کام کرتے رہیں۔ جمعیت علماء اسلام، پشتونخوا میپ اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے ساتھ مراسم والہانہ تھے۔ جب ماحول بن گیا تو وہ ماہربھی کوئٹہ میں نمودار ہوئے جنہوں نے صوبے میں نواز لیگ کی حکومت گرائی اور بلوچستان عوامی پارٹی قائم کردی تھی۔آخر کار جام کمال خان وزرات اعلیٰ سے مستعفی ہوگئے۔ اور صوبے میں ڈھونگ وتماشا حکومت بن گئی۔ جے یو آئی اور بلوچستان نیشنل پارٹی بالخصوص صوبے کے تنزل میں ہم رکاب تھی۔ حزب اختلاف میں اگرچہ رہی مگر حکومتی ارکان و جماعتوں سے زیادہ منفعتیں سمیٹی ہیں۔ خواہ2022-23کا بجٹ ہوں یا بیورو کریسی اور عدلیہ میں من پسند تعیناتیاں کہیں اپنا حصہ چھوڑا نہیں ہے ۔ گویا ہر لحاظ سے قدوس جنتا کے ساتھ شراکت و ہم کاری ہے ۔قائد حزب اختلاف ملک سکندر ایڈوکیٹ کے فرزند منیر احمد ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل اور جمعیت ہی کے رئوف عطاء ایڈوکیٹ ایڈیشنل اٹارنی جنرل بنائے گئے ہیں۔گویا حزب اختلاف کا پردہ محض سیاسی بھرم و لاج رکھنے کے لیے قائم ہے ۔ بی این پی کے قائد سردار اختر مینگل جملہ دہراتے ہیں کہ وہ جام کو ہٹانے کے ثواب میں شامل تھے قدوس کو وزیراعلیٰ بنانے کے گناہ میں نہیں۔ در حقیقت سردار اختر مینگل نواز لیگ کی حکومت گرانے کے گناہ،اس کی جگہ قدوس بزنجو کو وزیراعلیٰ بنانے کے گناہ میں شامل تھے۔ ما بعد جام کو ہٹا کر پھر سے عبدالقدوس بزنجو کو وزارت اعلیٰ کے اہم اور بڑے منصب پر بٹھانے کے گناہ میں بھی شامل ہیں۔ ظاہر ہے اس طرح کی لطیف جملہ بازی سے بلوچ عوام گمراہ نہیں ہوں گے کہ یہ سارا منظر نامہ عوام کے پیش نظر ہے۔ اب جمعیت علماء اسلام عبدالقدوس بزنجو کی کابینہ میں شامل ہونے کا فیصلہ کرچکی ہے۔ اس سیاست کا احوال کچھ ایسا بیاں کیا جاتا ہے کہ جے یو آئی نے پہلے پہل جام کمال خان حلقہ کے اراکین اسمبلی سے قدوس بزنجو کے خلاف عدم اعتماد کی کسر پھسر کی ۔ قدوس بزنجوکو سن گن ہوئی تو اس نے مولانا عبدالواسع سے ملاقات میں باقاعدہ حکومت میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ مولانا فضل الرحمان سے بھی ملاقات کی۔ جے یو آئی بلوچستان اسمبلی میں گیارہ ارکان رکھتی ہے جو کہ بڑی تعداد ہے۔ جے یو آئی اپنی قیمت جانتی ہے۔ اسے یہ بھی معلوم ہے کہ قدوس بزنجو کے خلاف اسی کی جماعت کے اراکین اسمبلی کی ایک غالب تعداد بد ظن ہے۔ اس بنااسے جے یو آئی کی ضرورت ہے بلکہ جے یو آئی مخالف کردار نبھا سکتی ۔ یہی وجہ ہے کہ جے یو آئی نے حکومت میں بڑا حصہ مانگنے کا مطالبہ رکھا ہے ۔
جے یو آئی دنیا داری کے گر خوب جانتی ہے۔ انہیں پتہ ہے کہ کونسی وزارتیں مرعوب و پر اثر ہیں ۔ سننے میں آیا ہے کہ جے یو آئی نے تحریک انصاف کو حکومتی اتحاد سے پوری طرح باہر نکالنے کی بات رکھی ہے ۔ قدوس بزنجو البتہ تحریک انصاف کے رکن اسمبلی جن کے پاس حاضر وقت تعلیم کا قلمدان ہے کو ساتھ رکھنے پر مصر ہے۔ قدوس بزنجو مولانا عبدالواسع وغیرہ کو واسطہ بناکر جام کمال سے بنائو کی کوشش کی ہے ۔ ضلع لسبیلہ کو تقسیم کرکے حب ضلع کا نوٹیفکیشن جام کمال کو بہت ناگوار ہے۔ قدوس نے صالح بھوتانی اور رکن قومی اسمبلی اسلم بھوتانی کے ساتھ ملکر یہ نوٹیفکیشن دراصل جام کمال کو سیاسی طور کمزور کرنے کی نیت سے جاری کیا ہے ۔ اب بزنجو اپنے اقتدار کی خاطرنوٹیفکیشن واپس لینے پر آمادہ ہیں۔ اور جام کمال حلقہ کے اراکان اسمبلی کو واپس کابینہ میں لینے پر بھی مجبور ہیں۔ جن میں سلیم کھوسہ،نوابزادہ طارق مگسی اور عارف محمد حسنی شامل ہیں۔اول تو تبدیلی کی کوئی سنجیدہ صورتحال نہیں ہے ۔کوئی اگر عدم اعتماد کی بات کرتا ہے تو ایسے میں اگر جے یو آئی ساتھ دے بھی دے تو درکار تعداد پورا کرنا بہت مشکل ہو گا ۔دوئم سردار اختر مینگل کی جماعت اب بھی قدوس کی پشت پر ہے ۔سردار اختر مینگل سے بھی بزنجو نے اسلام آباد میں ملاقات کر چکے ہیں۔ اہتمام ایوان بالا کے چئیرمین صادق سنجرانی نے عشائیہ میں کیا تھا ۔بھر بھی اگر واقعی ان کے اقتدار کو خطرہ ہے توقدوس بزنجو مفاد کی خاطر اپنوں سے دغا کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔ انہیں ہر حال میں مفاد اور اقتدار عزیز ہے۔ بزنجو کو بیرون ملک جا نے کی ضرورت ہے۔ارباب اختیاروزارت اعلیٰ کا منصب قدرے بہتر شخص کے سپرد کریں، تاکہ کچھ نہ کچھ بہتری پیدا ہو اور صوبے کا خراب تاثر پھر سے بہتر بنے ۔ انہیں تو سرکاری فائلوں کی خبر نہیں ہوتی ۔ہوتی تو سی ایم ہائوس سے سپریم کورٹ کے فیصلے کی قطعی خلاف سول سرونٹ ایکٹ کے برعکس اے ای اوز کا انضمام صوبائی سول سروسز گروپ میں نہ ہوتا ۔2016ء کے عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں واضح ہے کہ اے ای اوز کا انضمام باقی کیڈر گرپس میں غیر قانونی ہے۔ ا س کے علاوہ دوسری ریویو پٹیشن میں عدالتی حکم واضح ہے کہ اے ای اوز افسران کی تعیناتی سول سرونٹ ایکٹ 1974 کے شق نمبر 11 A کے مطابق انکی تعلیمی قابلیت اور تجربے کی روشنی میں عمل میں لائی جائے۔بہر کیف جے یو آئی کی مانند بلوچستان نیشنل پارٹی بھی مزید صوبے کے کوگوں کو الو بنانے کی سعی نہ کرے۔
عوام اگرچہ منظم نہیں ہے پر جانتی سب کچھ ہے ۔بلاشبہ2013اور 2018ء کی اسمبلیوں میں جن گناہوں کا ارتکاب کیا ہے کی تلافی کر لینی چاہیے ۔ جمعیت علماء اسلام کابلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں ٹرانس جینڈر قانون کے خلاف قراردار جمع کرانے ور24ستمبر کے اجلاس میں منظور ہونا بھی سیاسی بہروپ سمجھا جاتا ہے۔ وگرنہ یہ کام تو سینیٹ اور قومی اسمبلی میں ہونا چاہیے تھا۔ جہاں جے یو آئی حکومت کا حصہ ہے۔ نصیرآباد ڈویژن سیلابی پانی کی اذیت میں مبتلا ہے۔ بات امداد و بحالی کے اقدام کی کی جائے تو اب تک تو قدوس بزنجو کی حکومت جس میں جے یو آئی، بی این پی عملاً شراکت دار ہیں کوئٹہ کے نواح و مضافات کے تباہ علاقوں کو لوگوں کو بحال کرسکی ہے کجا نصیرآباد ، جعفرآباد ،اوستہ محمد اور صحبت پور کے درماندہ لوگ جو سیلاب کے پانی میں تاحال ڈوبے ہوئے ہیں۔ شرم ،جھنجوڑ دینے اور تکلیف دہ پہلو انتہائی شرمناک ہے کہ نصیرآباد ڈویژن میں خواتین سڑک کنارے زچگی کے عمل سے گزر رہی ہیں۔ عالم یہ کہ متاثرہ علاقوں میں ملیریا کی گولیاں تک میسر نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔