وجود

... loading ...

وجود

بڑھتے عالمی تنازعات

هفته 24 ستمبر 2022 بڑھتے عالمی تنازعات

دنیا تیزی سے کسادبازاری کی طرف جارہی ہے جس کی شدت کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ریاستیں باہمی شراکت داری میں اضافہ کریں اور ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اُٹھائیں مگر عالمی منظر نامے پر نگاہ دوڑائیں تو ایسا ہونے کی بجائے صورتحال بلکل اُلٹ ہے بین الریاستی تنازعات میں اضافہ تو دیکھنے میں آرہا ہے مگر تعاون کی راہیں مسدود نظر آتی ہیں جس سے اِن خدشات کو تقویت مل رہی ہے کہ مستقبل میں دنیا کو ایسے شدید بحرانوں کا سامنا ہو سکتا ہے جس سے نہ صرف صنعتی و تجارتی سرگرمیوں میں کمی واقع ہو سکتی ہے بلکہ موسمیاتی تبدیلیوں سے خوراک کی پیداوار متاثر ہوسکتی ہے رواں برس ایک طرف افریقہ میں قحط سالی ہے جبکہ کئی ایشیائی ممالک کو سیلاب جیسی قدرتی آفت کا سامنا ہے اِن سنگین حالات کے ادراک کی بجائے عالمی طاقتیں کھینچاتانی اور تنازعات بڑھانے میں مصروف ہیں اِن حالات میں اقوامِ متحدہ سے توقع تھی کہ وہ تنازعات کے خاتمے کے لیے مصالحانہ کردارادا کرتی مگر ایسا نہیں ہورہا بدھ کے روز اقوامِ متحدہ کے ریزیڈنٹ اور ہیومن کوارڈینیٹرجولین ہرنیز نے صحافیوں کو یہ بتا کر حیران کر دیا کہ سیلاب سے مصائب میں مبتلا لوگوں کی بحالی کے لیے صرف ساٹھ لاکھ ڈالر کی رقم موصول ہوئی ہے حالانکہ مسلے کی سنگینی اور حجم کو دیکھتے ہوئے نقصانات کاابتدائی تخمینہ 160ملین ڈالر لگایا گیا تھا جس کا ممبر ملکوں نے مثبت جواب دیا مگروعدوں کے مطابق ابھی تک رقم موصول نہیں ہوسکی کئی دہائیوں سے کشمیر ہو یا شام یا پھر فلسطین ،ااقوامِ متحدہ اپنی ہی پاس کردہ قرار دادوں پر عملدرآمد کرانے میں آج تک ناکام ہے جس سے سوال یہ پیدا ہوگیا ہے کہ ہنگامی حالات میں کیا اُس میں اتنی سکت ہے کہ طاقتور ممبر ممالک سے کچھ منواسکے؟ حالات کو دیکھتے ہوئے اِس سوال کا ہاں میں جواب دینا غلط ہوگا۔
طاقتور اور امیرممالک نے محض اپنی قوت برقرار رکھنے کے لیے ہتھیاروں کی بے جا دوڑ شروع کر رکھی ہے نت نئے ایسے ہتھیار ایجاد کیے جارہے ہیں جودورمار اور ہلاکت خیزی میں پہلے سے موجود ہتھیاروں سے کئی گُنا زیادہ ہیں نئے ایجادکیے گئے ہتھیاروں کی استعداد جانچنے کے لیے کیونکہ لڑائی کے میدان ضروری ہیں اسی لیے تنازعات کو ہوادی جاتی ہے کمزور ممالک کی دولت ہتھیانے کے لیے خطرات پیدا کیے جاتے ہیں تاکہ بڑے پیمانے پر ہتھیاروں فروخت ہو اِس طرح امیر ممالک کی نہ صرف دولت میں اضافہ ہوتارہتا ہے بلکہ ہتھیاروں کی استعداد بارے بھی پمعلوم ہوتارہتا ہے اب سوال یہ ہے کہ جب تمام ممالک ہی امن کے خواہاں اور دعویدار ہیں تو وہ پھرعملی طور پر بنی نوح انسان کے لیے کیوں خطرات بڑھاتے ہیں اِس کا جواب یہ ہے کہ ملکی دولت بڑھانے کے ساتھ ہتھیاربنانے والی فیکٹریوں کے مالکان کادبائو ہے جو سیاسی جماعتوں کی مالی معاونت کرتے ہیں یہی جماعتیں جب اقتدارمیں آتی ہیں تو عطیات دینے والوں کے مفاد کی نگہبانی کرتی ہیں ایک اور اہم نُکتہ دیگر ہم عصر ریاستوں کو معاشی طور پر مستحکم ہونے سے روکناہے جس کے نتیجہ میں اکثر ممالک کی دولت کا ایک بڑا حصہ دفاع پر خرچ ہورہا ہے اب جبکہ ماہرین مسلسل کساد بازاری نشاندہی کررہے ہیں پھر بھی طاقتور اور امیر ممالک کے طرزِ عمل میں فرق نہیں آیا تنازعات کی بڑی وجہ یہ ہے بڑی طاقتوں کا حریف ریاستوں کو غیر مستحکم کرنا اور معاشی نقصان پہنچانے کی منصوبہ بندی ہے اسی بنا پر کم ہونے کی بجائے بڑے تنازعات بڑھتے جارہے ہیں ۔
سچ یہی ہے کہ اگریوکرین کو امریکا یہ یقین دہانی نہ کراتا کہ روسی حملے کی صورت میں اُس کا تحفظ کیا جائے گا تو یوکرین کا اداکار صدر کبھی جنگ میں کودنے کی حماقت ہر گز نہ کرتا اب بھی اُکسانے والوں کی طرف سے کوشش کی جارہی ہے کہ یوکرین کے شہری چاہے مرتے رہیں مگر روس جلد یہاں سے نہ نکل سکے بلکہ یہیں الجھا رہے اسی لیے مقابلے کے لیے یوکرین کوبھاری تعداد میں ہتھیاروگولہ بارود فراہم کیا جارہا ہے اِس وقت دنیا کی سب سے زیادہ تیزی سے ترقی کرنے والی معیشت چین کی ہے جبکہ امریکی معیشت مسلسل زوال پذیر ہے چینی معیشت سے دولت نکالنے اور لڑائی پر خرچ کرانے کے لیے تائیوان کو چین کے مقابل لانے کی کوشش کی جارہی ہے اور ایسے حالات بنانے پر کام جاری ہے کہ کسی طرح چین بھی تائیوان پر حملہ کر دے اور پھر یوکرین کی طرح تائیوانی فوج اورعوام کو بھی لڑنے کے لیے ہتھیار فراہم کیے جائے مقصد وہی چینی معیشت کو ترقی سے روکنا ہے اب جب نگاہیں اقوامِ متحدہ کی طرف اُٹھتی ہیں کہ ایسے تنازعات کے خاتمے کے لیے اُس کی طرف سے کیا کوششیں ہورہی ہیں تووہاں غیر جانبداری اور لاتعلقی دیکھ کر مایوسی ہوتی ہے روس کی طرح چین کے پاس بھی ویٹو پاور ہیں یہ بھی یو این او کوبے بس کرنے اور مداخلت سے باز رکھنے کی اہم وجہ ہے مگر یہ بے بسی اور غیر جانبداری ہمہ گیر کسادبازاری کو جنم دینے میں کلیدی کردار کا باعث بن سکتی ہے۔
بھارت اور چین میں بھی سرحدی تنازعات وسعت اختیار کررہے ہیں لداخ کے بعد اروناچل پردیش کو چین نے نئے نقشے میں اپنا حصہ بنالیا ہے بھارت اور چین کا دفاعی حوالے سے موازنہ کرنا مناسب نہیں کیونکہ بھارت ایک ایسا کمزور ملک ہے جو کئی اندرونی تنازعات کا شکاربھی ہے اور اُس کی زیادہ تر فوج اندرونی خلفشار کو ختم کرنے کے لیے اپنے شہریوں سے ہی برسرِ پیکارہے اور سرحد پر اگر ایک بڑی جنگ شروع ہوتی ہے تو یہ فوج زیادہ دیر مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیںاسی وجہ سے مودی نقشے کی تبدیلی کے باوجود خاموش ہیں مگر چین اور بھارت میں مڈبھیڑ کا اِ مکان پھر رَد نہیں کیا جا سکتا تائیوان کا مسئلہ ہو یا اروناچل پردیش کا،اقوامِ متحدہ دخل اندازی کی ہمت نہیں کررہی جس کی کئی ایک وجوہات ہیں ایک تو چین کے پاس بھی ویٹو پاور ہے جو یواین اوکو خاموش اور غیر جانبدار رہنے کا باعث ہے جبکہ بھارت کو بھی امریکہ جیسی سُپر پاور کی تائید ہے جو اُسے مسلہ کشمیر کے حوالے سے منظور کی جانے والی قراردادوں پر عمل درآمد کرانے سے روکے ہوئے ہے مگراسی طرح تنازعات بڑھتے رہے تو دنیا کی معاشی سرگرمیاں اسلحے کی تجارت تک محدود ہو سکتی ہیں حالانکہ ہتھیاروں سے زیادہ اِس وقت دنیا کا اہم مسلہ خوراک کی قلت ہے خوراک کی قلت ختم کرنے کے لیے زرعی پیداوار بڑھانا ضروری ہے جس کے لیے لازم ہے کہ وسائل کارُخ اسلحہ کی بجائے دیگر صنعتی اور زرعی سرگرمیوں کی طرف کیا جائے مگر یہ تبھی ممکن ہے جب تنازعات کو بڑھانے نہیں حل کرنے پر توجہ دی جائے اور اقوامِ متحدہ بڑی طاقتوںکے اشارہ ابروپر حرکت کرنے کی پالیسی چھوڑ کر مصالحت کرانے پر دھیان دے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر