... loading ...
روس۔یوکرین جنگ اور اس سے پیدا شدہ غذائی قلت، کساد بازاری، ماحولیالتی تبدیلیوں سے آئی تباہیوں جیسے اہم ایشوز پر بحث کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا 77واں سالانہ اجلاس شروع ہو چکا ہے۔ تین سال بعد پہلی بار نیویارک میں عالمی لیڈران اور سفارت کار ایک دوسرے کے رو برو ہیں۔ پچھلے دونوں اجلاس ورچول موڈ میں منعقد کیے گئے تھے۔ چونکہ اس سیشن کے سائڈ لائنز میں دو طرفہ اور دیگر علاقائی اور عالمی تنظیموں کے لیڈروں کی ملاقاتیں بھی ہو تی ہیں، جو کورونا کے بعد موقوف ہو گئی تھیں، امید ہے ان کے ذریعے شاید دنیا کو درپیش چند مسائل کو حل کرنے کی طرف قدم بڑھائے جائینگے یا نئے اتحاد قائم کئے جائینگے۔ چونکہ بنگلہ دیش، بھوٹان، سری لنکا ، پاکستان، مالدیپ اور نیپال کے سربراہان بھی نیویارک میں ہونگے، اسلئے امید ہے کہ جنوبی ایشیائی تنظیم سارک کا غیر رسمی اجلاس بھی منعقد ہوگا۔ تاہم بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی جنرل اسمبلی کی میٹنگ میں شرکت نہیں کرینگے۔ بھارت کی طرف سے سبرامنیم جے شنکر نمائندگی کرینگے۔ اسی طرح عالمی اسلامی کانفرنس اور جی 20کی بھی میٹنگیں اس دوران نیویارک میں ہونے کی توقع ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس، خاص طور پر بھارت اور پاکستان کیلئے خاصا اہم ہوتا ہے۔ اس خطے میں سبھی نگاہیں، ان ممالک کے سفارت کاروں کے متاثر کن جملوں، الفاظ کی تراکیب ، الزامات اور ان کے جواب دینے کی صلاحیت پر ٹکی ہوتی ہیں۔ اس بار پاکستان کیلئے یہ اجلاس اس لیے بھی اہم ہے کہ وہ دنیا کی توجہ سیلاب سے آئی تباہی کی طرف دلا سکتا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کا خمیازہ پاکستان کے عوا م کو جس طرح بھگتنا پڑتا ہے، موجودہ تباہی اس کا شاخسانہ ہے۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پگلتے گلیشیر، ان پر فوجی اور ہندو زائرین کا جماو، اس خطے کے پانی کے سب سے بڑے ذخیرہ جھیل ولر کا سکڑنے کا براہ راست اثر پاکستان پر پڑ رہا ہے۔
اسی طرح 2018ء میں اسوقت کے وزیر اعظم عمران خان نے ہندو قوم پرست تنظیم راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ اور اسکے سیاسی بازو بھارت میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے عزائم کی طرف توجہ دلا ئی تھی۔ انہوں نے مغربی دنیا کو یاد دلایا تھا کہ اس نے جس فاشزم کو 1945ء میں شکست دی تھی، وہ دوبارہ اب بھارت میں نمودار ہو گیا ہے۔ مگر اس کے بعد اس ایشو کولے کر کوئی فالو اپ نہیں کیا گیا۔ اسی طرح اس سیشن کے سائڈلائن میں اسلامو فوبیا پر اسلامی تنظیم کی ایک میٹنگ ہوئی تھی۔ یہ سچ ہے کہ اقوام متحدہ نے اب ہر سال 15 مارچ کو اس عفریت کے خلاف لڑنے کے لیے موسوم کیا ہے، مگر اس کا توڑ کرنے کے لیے ایک ٹی وی چینل کے قیام کے فیصلہ پرا بھی تک عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔ گو کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سیشن بندو بالا دعووں، بیان بازی، الزامات و جواب الزامات کے لیے خاصا بدنام ہے، مگر اقوام متحدہ کے افسران کا کہنا ہے کہ اس بار وہ پائیدار ترقی کے اہداف یعنی Sustainable Development Goals (SDG)کو حاصل کرنے پر دوبارہ توجہ مرکوز کرانے کی کوشش کرینگے۔ ایک دہائی قبل جب ان اہداف کو مقرر کیا گیا تھا، تو بتایا گیا تھا کہ2030ء تک دنیا سے غربت کا خاتمہ کیا جائیگا۔ جنرل اسمبلی کے موجودہ صدر ہنگری کے زیرک سفارت کار کسابا کو روسی کا کہنا ہے: موجودہ اجلاس میں اقوام متحدہ کے کھوئے ہوئے وقار کو بحال کرنے پر غوروخوض کیا جائیگا۔اسی لیے اس سیشن میں مستقبل کے لیے ایک معاہدہ یعنی Pact of the Future پر کام کا آغاز کیا جائیگا، جو اگلے سال تمام سربراہان مملکت کے اجلاس میں منظور کیا جائیگا۔ کوروسی کے مطابق یہ پیکٹ اقوام متحدہ کے اہداف اور اتھارٹی کو طے کریگا اور اسکے وقار کو بحال کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔ یہ تو طے ہے کہ اقوام متحدہ عالمی وباء کوورڈ ، جس نے پوری دنیا کو لپیٹ میں لے رکھا تھا، سے نپٹنے کے لیے ایک مشترکہ عالمی حکمت عملی تیار کرنے اور اسکو نافذ کرنے میں بری طرح ناکام رہی۔جنگوں، شورش اور ایک ملک کا دوسرے ملک پر حملوں کو روکنے دیرینہ تنازعات،جو اس کے میز پر موجود ہیں،ثالثی میں تو اقوام متحدہ پہلے ہی ناکام تھی، مگر کورونا اور عالمی ماحولیاتی تبدیلی پر بھی ممالک کو مشترکہ موقف اپنانے میں ناکامی نے تو اس کے وجود پر ہی سوالیہ نشان کھڑے کردئیے ہیں۔
مزید یہ کہ اس کی ناکامی کی وجہ سے دنیا میں تین سو سے زائد عالمی اور علاقائی بین الحکومتی تنظمیں وجود میں آچکی ہیں۔ چاہے نیٹو ہو یاجی 20 یا جی 7، سبھی اہم فیصلے ان ہی تنظیموں میں ہوتے ہیں۔ اقوام متحدہ تو ایک ویکسین لانے میں بھی کوئی مشترکہ حکمت علمی لانے میںناکام ہوگئی۔ امیر ممالک نے جس طرح ویکسین پر اجارہ داری حاصل کرکے منافع کمایا، اسی کی نظیر نہیں ملتی ہے۔ اگر افغانستان پر چڑھائی سے لیکر اقتصادی امور پر بھی فیصلے اقوام متحدہ کے باہر ہونے ہیں، تو ایک بھاری بھرکم تنظیم اور اسکے سیکریٹریٹ پررقوم خرچ کرنے کا کیا فائدہ ہے؟ یہ سوال اب دنیا بھر کے پاور کوریڈورز میں گشت کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی ناکامی کی ایک اور وجہ سلامتی کونسل کے مستقل اراکین کا ویٹو پاور ہے، جبکہ نیٹو، جی 20 یا دیگر تنظیموں میں فیصلے اتفاق رائے سے کیے جاتے ہیں۔فلسطین کے مسئلہ پر امریکااور کشمیر کے مسئلہ پر سویت یونین کے ویٹو نے ان کو حل کرنے ہی نہیں دیا اور پچھلے 70برسوں سے یہ عالمی امن کے لیے ناسور بنے ہوئے ہیں اور اگر دیکھا جائے تو دنیا کے دیگر تمام مسائل کی جڑیں ان ہی میں پوشیدہ ہے۔اگر یوکرین اور روس کی جنگ کوئی اور خطرناک موڈ لیتی ہے، تو خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اقوام متحدہ کا حشر لیگ آف نیشنز جیسا نہ ہو، جس کو امن عالم کو قائم رکھنے کے لیے 1919میں بنایا گیا تھا، مگر وہ دوسری عالمی جنگ کو روکنے میں ناکام رہی۔
حال ہی میں ترکی کے خبر رساں ادارے انادولو ایجنسی کو ایک انٹرویو میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی ویٹو پاورز کی من مانی پر تاسف کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا وہ اب ایک ایسا میکنزم ترتیب دے رہے ہیں، جہاں ویٹو کے استعمال کے بعد اس ملک کے مندوب کو جنرل اسمبلی میں آکر اس کی وضاحت کرنی پڑے گی اور اس پر بحث بھی ہوگی۔ جسے سے کم از کم اس ملک پر مشترکہ اخلاقی دبائو ڈالا جائیگا۔ اسی لیے کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ کچھ بھی سہی اقوام متحدہ کا واحد ادراہ جنرل اسمبلی ایک ایسا فورم ہے، جہاں سبھی 193ممبر ممالک کو چاہئے وہ چھوٹے ہوں یا بڑے، طاقتور یا کمزور ، کو ووٹ کا حق حاصل ہے۔ انکے ووٹ کی قیمت برابر ہے۔ یہ واحد فورم ہے، جہاں امیر اور طاقتور ممالک کو چھوٹے ممالک کی ناز برداری کرنی پڑتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ سلامتی کونسل کی عارضی ممبرشپ کیلئے 2010 میں جب ایشیاء سیٹ کے لیے بھارت منتخب ہوا، تو اسکے لیے جنرل اسمبلی کے اراکین کو منوانے کے لیے اسکے سفارت کاروں کو خاصے پاپڑ بیلنے پڑے۔ چونکہ ممالک زیادہ تھے، اور ان تک پہنچنا اکیلے وزارت خارجہ کے بس میں نہیں تھا، اس لیے تمام وزیروں کو کسی نہ کسی ملک میں روانہ کیا گیا۔ حتیٰ کہ بحر الکاہل کے چھوٹے جزیروں مارشل آئی لینڈ اور مائیکرونیشیا تک سفارت کار دوڑانے پڑے اور ان ممالک نے اپنی شرطیں بھی رکھیں۔ کسی نے ایئرپورٹ، تو کسی نے اسپتال تو کسی نے کوئی شاہراہ بنوانے کے وعدہ لیے۔ اب ان میں سے کتنے وعدے ایفا ء ہوئے، مگر ووٹنگ کے مرحلے تک ان ممالک نے بھارتی سفارت کاروں کو جیسے ایک پیر پر کھڑا کرکے رکھ دیا تھا۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق جنرل اسمبلی ، امن و سلامتی ، تخفیف اسلحہ، انسانی حقوق، بین الاقوامی قوانین اور تنازعات کی ثالثی کے لیے سفارشات کر سکتی ہے۔ سلامتی کونسل کے عارضی ممبران کے علاوہ عالمی ادارے کی دیگر تنظیموں کے سربراہاں کو منتخب کرتی ہے۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے بجٹ کی بھی منظوری دیتی ہے۔ سلامتی کونسل کے ساتھ مل کر یہ بین الاقوامی عدالت کے ججز کی بھی تقرری کرتی ہے اور چارٹر کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک کو تنبہہ کرنے کا بھی حق رکھتی ہے۔؎
فلسطین اور ویٹیکن دو ایسے ممالک ہیں، جو اس کی کارروائی میں حصہ لے سکتے ہیں، مگر ووٹنگ نہیں کر سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ کا بجٹ اور اسکے سیکرٹریٹ کے اخراجات ہمیشہ سے ہی بحث کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔ اس سال یعنی 2022کے لیے 3.12بلین ڈالر کا بجٹ منظور ہوا ہے۔ جس کا 20فیصد خصوصی سیاسی مشن پر خرچ کیا جائیگا۔ امریکا اس بجٹ کا 22فیصد سرمایہ فراہم کرتا ہے۔ گوکہ امریکا سے اب آوازیں آرہی ہیںکہ اس میں تخفیف کی جائے، مگر یہ ایک ایسا ہتھیار ہے، جس سے امریکا نے اس ادارے اور اس سے متصل تنظیموںکو جکڑ کر رکھا ہوا ہے۔ چین ، جو اب ایک اقتصادی پاور ہے، سن 2000 تک اقوام متحدہ کے بجٹ میں اسکا حصہ بس دو فیصد ہوتا تھا۔ اب یہ بڑھ کر 15.25فیصد ہو گیا ہے، جو عالمی برادری میں اسکے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو ظاہر کرتا ہے۔ جاپان 8 فیصد ، بھارت آبادی کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر ہونے کے باوجود بس ایک فیصد اور روس 1.8فیصد حصہ اقوام متحدہ کے بجٹ میں ڈالتا ہے۔ چین کی طرف سے فنڈز کی فراہمی کے وجہ سے اقوام متحدہ کے کئی اداروں کا امریکاپر انحصار بڑی حد تک کم ہو گیا ہے اور آنے والے دنوں میں یہ کئی تبدیلیاں لانے میں ایک اہم رول ادا کرسکتا ہے۔