وجود

... loading ...

وجود

خوش قسمت لوگ

اتوار 18 ستمبر 2022 خوش قسمت لوگ

عالمی ادارے کی ایک رپورٹ میرے سامنے ہے اس رپورٹ نے سبھی کو چونکا دیا ہے کئی تو رشک بھی کررہے ہیں تو کچھ یقینا حسد میں مبتلا ہوگئے ہوں گے آپ کا ردِ عمل کیا ہوگا یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا یہ رپورٹ ان لوگوںکے بارے میں ہے جو دنیا کے خوش قسمت ترین لوگ ہیں ،ہم جنوبی ایشیاء میں رہنے والے تو چھوٹی چھوٹی خوشیوںکو ترسے ہوئے ہیں مہنگائی،بیروزگاری اور غربت نے بھارت ،پاکستان،بنگلہ دیش، افریقی ممالک اور نہ جانے کس کس ملک کے شہریوںکا جینا عذاب بنارکھاہے اس ماحول میں خوش قسمت ترین لوگوںکا ملک فن لینڈ چوتھی بار پہلے نمبر پر ہے، اس کے بعد ڈنمارک ،سوئٹزر لینڈ، آئس لینڈ، نیدر لینڈز، ناروے، سویڈن اور لکزمبرگ خوش ترین ممالک میں شامل ہیں۔اقوام متحدہ کی نگرانی میں تیار ہونے والی ’’عالمی رپورٹ برائے خوشی میں افغانستان آخری نمبر (149)پر ہے، اس کے بعد فہرست ہی ختم ہو جاتی ہے۔
امریکا نے معاشی ترقی اورافغانیوں کی خوشی کے نام پر وہاں دو ٹریلین ڈالر خرچ کیے، لیکن لوگ پھر بھی ناخوش ہیں۔دنیا کی سب سے اچھی جمہوریت امریکا بھی نیچے چلا گیا ہے، اب اس کا نیا نمبر 16واںہے۔ امریکا کی پوزیشن سابق صدر ٹرمپ کی وجہ سے گر گئی ہے اب کچھ حالات بہتر ہورہے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ انڈیا دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے، لیکن انڈیاآخری نمبروں کے قریب ترین ہے، اس کا نمبر 139ہے، اس کے بعد خوشیوں کے حوالے سے بدترین ممالک میں زمبابوے، روانڈا، بوٹسوانہ ہیں، جہاں کہتے ہیں کہ خوشیاں نام کو نہیں۔خوشیوں کا پیمانہ کیا ہے؟خوشی کا پتہ چلانے کے لیے کئی پیمانے مقرر کیے گئے۔ انسانی ترقی کا تسلسل ، شہریوںکی مستحکم یومیہ آمدنی، مساویانہ معاشی ترقی، ماحولیاتی تحفظ ، اچھی گڈگورننس ،بنیادی سہولیات کی فراہمی، بدعنوانی کا خاتمہ ،ثقافت کا تحفظ و ترقی اس کے اہم اشارئیے قرار پائے۔ تاریخ بتاتی ہے جس بھی ملک میں کرپشن بڑھی وہ ملک بھی نیچے سے نیچے چلا گیاافراط زر بڑھا مہنگائی،غربت ،بیروزگاری،قسادبازاری،انتہاپسندی کے ساتھ ساتھ شہریوںکی آزادیاں صلب ہوگئیں ،،افغانستان میں کئی دہائیوںسے جاری جنگ، پاکستان میں دہشت گردی، بھارت میں بڑھتا ہوا مذہبی جنون!،کشمیرکی واد ی مں مسلسل کرفیو ہویا امریکا میں گوروں کے جلوس،فلسطین میںآئے روز اسرائیلی حملوںمیں مسلمانوںکی شہادت،عراق،شام،میانمارمیں مسلم کشی نے بہت سے مسائل پیداکرکے رکھ دئیے ہیں جس سے لاکھوں عام لوگوںکی خوشیاں متاثرہوگئیں جس سے بھی درجنوں ممالک کی خوشیوں پر آنچ آئی، آزادیاں چھیننے والے ممالک بھی پیچھے چلے گئے۔
جہاں تک ترقی کا تعلق ہے تو یہ بھی دیکھا گیا کہ ترقی مستقل ہے یا عارضی ،اور اگر مستقل ہے تو اس کے اثرات ہمہ گیر ہیں یا کسی کسی طبقے کیلئے بہتر ہیں اور باقی محروم رہ گئے ہیں؟اپنے عوام کو معاشی پالیسیوں کے ثمرات سے محروم کرنے والے ممالک کے نمبر بھی کم ہو گئے۔جیسا کہ کارپوریٹ کلچر نے عوام کو جینے کا حق دیا یا انہیں نچوڑ کر رکھ دیا۔جن ممالک میں ترقی کے ثمرات کسی خاص طبقات نے سمیٹ لئے ان کے نمبر بھی کاٹ لیے گئے۔ امریکا اور انڈیا کے ساتھ بھی یہی ہوا۔پھر یہ بھی دیکھا گیا کہ ان ممالک میں لوگوں کو رہائشی سہولتوں کی فراہمی میں کمی آئی ہے یا اضافہ ہوا ہے؟فی کس جی ڈی پی، لوگوں کی فیاضی، زندگی گزارنے کی آزادی اور سماجی معاونت کے اشارئیے بھی شامل کیے گئے تھے۔پاکستان نے کن اشاریوں میں ترقی کی؟پاکستان کانمبر105واں ہے، جو بھارت سے 34درجے اوپر ہیں۔پاکستان نے فی کس جی ڈی پی،سوشل سپورٹ،رہائشی سہولتوں کی فراہمی، پسند کی زندگی گزارنے کی سہولت کے اشاریوں میں ترقی کی ہے۔یہاں لوگ اپنی مرضی کے مطابق جی سکتے ہیں، لیکن ا س سلسلے میںابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
مجموعی عمربھی ایک پیمانہ ہے ہمارے ہاں یہ بھی بہتر ہوئی ہے،جو اب 67.4برس ہے۔ ہمارے ہاں ایک دوسرے کی مالی مدد کرنے کا رجحان بہت زیادہ ہے، سوشل سپورٹ میں اسے بھی شامل کیاگیا ہے۔رپورٹ کی تیاری میں ’’ذاتی جی ڈی پی کو بھی اہمیت دی گئی۔ مثال کے طور پراگر کوئی شخص سارا دن دو تین نوکریاں کرنے کے بعد تھکا ہارا گھر پہنچتا ہے اور بستر پر گرتے ہی گہری نیند میں چلا جاتا ہے، اسے اہل خانہ دوستوں اور رشتے داروں سے ملنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔اس کے برعکس ایک اور شخص ایک کام کرتا ہے اس کے پاس دوستوں، عزیزوں اور اہل محلہ سے میل ملاپ کے لیے وقت کی کوئی کمی نہیں ، ان دونوں میں سے دوسرے آدمی کی خوشیوں کی جی ڈی پی پہلے فرد کی بہ نسبت زیادہ ہوگی۔’’خوشی رپورٹ کی تیاری کا آغاز کیسے ہوا؟کیا آپ جانتے ہیں کہ بھوٹان کے بادشاہ نے دنیا کو بالکل ایک نیا تصور دیا، جب عالمی ماہرین نوٹ گننے میںمصروف تھے تو بھوٹانی بادشاہ نے کہا کہ ’’نوٹ کبھی بھی خوشیوں کا پیمانہ نہیں ہو سکتے، جب ہم کسی ملک کی جی ڈی پی کو دیکھتے ہیں تو یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ ترقی کی رفتار مساویانہ ہے بھی یا نہیں ،یا یہ کہ لوگ خوش ہیں یا ناراض۔’’تھمفوز سکول برائے روایتی فنون لطیفہ (Thimphu’s School of Traditional Arts نے یہ تصور پیش کیا بعد ازاں بادشاہ جگمے سنگے یوانگ چوک (Jigme Singye Wangchuck) نے 1972 میں گراس نیشنل ہیپی نس کو ناگزیر قومی ضرورت قرار دے دیا۔ انہوں نے 11جولائی 2008 ء قومی جی ڈی پی کی طرز پر خوشیوں کو ماپنے کے لئے آئین میں ترمیم کے ذریعے حکومت کو بھی خوشیوںکا تعین کرنے کا پابند بنا دیا۔ یہ نئی چیز ’’گراس نیشنل ہیپی نس کہلائی۔اسے مثال بناتے ہوئے 2011 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھی معاشی ترقی کے اس پہلو کی اہمیت تسلیم کر لی۔ اقوام متحدہ نے اعلان کیا کہ ’’اگر کسی ملک میں ترقی ہو رہی ہے تواسے خوشیوں کی صورت میں بھی نظرآنا چاہیے۔ترقی یافتہ ملک کے لوگوں کو خوش بھی ہونا چاہئے، اور یہ کہ ’’ تمام حکومتوں کو ایسے کام کرنا چاہیں جن سے عوام خوش ہوں اور غم کم ہوں۔اقوام متحدہ نے خوشیوں کے حصول کو بنیادی سرکاری تقاضا قرار دے دیا۔2012 میں وزیر اعظم بھوٹان جگمے تھنلے (Jigme Thinley) اور جنرل سیکرٹری اقوام متحدہ بان کی مون نے خوشحالی اور خوشی کے نام پر ایک اجلاس طلب کیا۔جس میں دنیا بھر میں خوشیوں کے بارے میں پہلی رپورٹ جاری کی گئی۔
قرارداد نمبر 66/28کے تحت 2012 سے 20مارچ کو ’’ یوم خوشی قرار پایا، نئی رپورٹ کے اجرا کی تاریخ بھی یہی طے کی گئی۔خوشی کا نظریہ پیش کرنے والے خطے میںنسل کشی بھوٹان نے یہ تجویز ایک ایسے وقت میں پیش کی تھی جب ان کے ہاں نیپالی اور دوسری قوموں کے باشندے میانمار اور انڈیا جیسے جبر کا شکار تھے۔انڈیا نے 21لاکھ آسامی باشندوں کو غیر ملکی اور گھس بیٹھیا قرار دے کر جنگلوں میں دھکیل دیا ، بھوٹان بھی یہ کام کر چکا ہے۔وہاں 1980 ء کے عشرے میں کچھ نسلوں کو ’’غیر ملکی قرار دے دیا گیا تھا۔1990 کے عشرے میں جنوبی بھوٹانیوں پر تشدداور نسل کشی کی خبریں آنا شروع ہو گئی تھیں۔1993 تک سیاسی علیحدگی اور نسل کشی عروج پر تھی۔ 1996 ء میں بھوٹان نے دوسری نسلوں کے ایک لاکھ باشندوں کو نکال دیا تھا۔ وہ نیپال چلے گئے ، دربدر ہیں۔کوئی مستقل ملک ہے نہ ٹھکانہ۔2007 ء تک بہت سے امیگرنٹس امریکہ ، کینیڈا، آسٹریلیا اور برطانیہ منتقل ہو چکے تھے ویسے تو عام خیال یہ ہے کہ خوشیوںکا زیادہ تر تعلق وسائل سے ہے جب آمدن میں اضافہ ہوگا تو آپ کے آنگن میں بھی خوشیاں ناچتی پھریں گی اس لیے سب کو بھرپور محنت کرنی چاہیے اپنے لئے،اپنے بچوںکے لیے اور خوشگوار مستقبل کے لیے حرام اور حلال کی تمیزکرتے ہوئے خوب پیسہ کمانا چاہیے تاکہ خوش قسمت ممالک میں ہمارا نمبر سرِ فہرست دیکھ کر دوسرے رشک بھی کریں اور حسدبھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر