... loading ...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ایسا لمحہ تھا جس میں غلامی کے خوف ناک مظالم کو تاریخ کی روزن سے جھانکتے ہوئے مستقبل کی آہٹوں کو سنا جاتا۔ افسوس ہم نے ملکہ الزبتھ کو ایک عورت سمجھا، یہ استعمار کا ایک چہرہ تھی۔ جنوبی افریقا میں بائیں بازو کی اکنامک فریڈم فائٹرز پارٹی کے سربراہ جولیس ملیما نے ملکہ کی موت پر حقیقی ردِ عمل دیا:ہم الزبتھ کی موت پر سوگ نہیں مناتے ، کیونکہ ہمیں اس کی موت اپنے ملک اور افریقی تاریخ کے ایک انتہائی المناک دور کی یاد دلاتی ہے”۔ ۔پاکستان کی بات چھوڑئیے جہاں حکمران سیاسی وعسکری اشرافیہ غلامی کی دہلیزپر سجدہ ریز رہتی ہیں۔ ایک آزاد دنیا میں ملکہ الزبتھ کی موت نوآبادیاتی دور کے مظالم حافظوں میں اجاگر کرنے کا باعث بنی ہے، چنانچہ دنیائے جنوب میں عمومی طور پر افسوس کے بجائے ایک غصہ ہے۔ ملکہ کی موت پر سوگ کیوں منائیں؟ یہ ایک عمومی سوال تھا، جو دانشوروں کے حلقوں میں زیر بحث آیا۔ وزیراعظم شہباز شریف کے کیا کہنے ! نوآبادیاتی مظالم کے سب سے بھیانک چہرے کے نظروں سے اوجھل ہونے پر وہ قومی سوگ منارہے تھے ،شرم تم کو مگر نہیں آتی!
ملکہ ٔ برطانیا نوآبادیاتی عہد میں برصغیر کے مالِ مسروقہ کی اصل قابض تھی۔ اس کے چہرے کی چمک اور کپڑوں میں موجود دھاگے تاگے تک ایشیا و افریقا کے استحصال کی بدولت تھے ۔ ایک تحقیق کے مطابق1757 ء سے لے کر 1947 ء تک انگریزوں کے ہاتھوں متحدہ ہندوستان کو پہنچنے والے مالیاتی نقصان کی کل مالیت 30 کھرب ڈالر بنتی ہے ۔ جبکہ ایک دوسری تحقیق کے مطابق برطانوی سلطنت نے دو صدیوں پر محیط تاریخ میں صرف ہندوستان سے تقریباً45 ٹریلین ڈالر کی لوٹ مار کی۔ واضح رہے کہ ایک ٹریلین میں دس کھرب ہوتے ہیں۔ دنیا کا سب سے قیمتی ہیرا کوہِ نور ہندوستان سے چرایا گیا اور مال مسروقہ کی قابض ملکہ ٔبرطانیا کے تاج میں جڑ دیاگیا ، جی ہاں اسی ہیرے کی مالیت دو سو ملین ڈالر بتائی جاتی ہے۔ برطانوی استعمار نے متحدہ ہندوستان کا استحصال کس طرح کیا، اس کا اندازا لگانے کے لیے نک رابنز کی مشہور زمانہ کتاب ”The Corporation That Changed the World”کا مطالعہ ازبس ضروری ہے۔ مصنف نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے قیام سے پہلے اور بعد ہندوستان اور برطانیا کے حالات میں تبدیلی کے عمل کا جائزہ لیتے ہوئے تاریخ کے بدلتے دھارے کو دکھایا۔ نک رابنز لکھتا ہے : ہندوستان اور چین کی معیشت 1600ء میں کُل یورپ کی معیشت سے دُگنی تھی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کا 1874ء میں خاتمہ ہوا تو اُس وقت تک یورپی معیشت کا حجم چین و متحدہ ہندوستان کی معیشت سے دُگنا ہوچکا تھا”۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے تمام ہندوستانی دولت نچوڑ لی تھی۔ صرف ایک واقعے سے اندازا لگائیے کہ ملکہ برطانیا لوٹ مار کی تاریخ کی کیسے وارث تھیں؟ جنگ پلاسی سے کون واقف نہیں۔ نواب بنگال سراج الدولہ اور انگریز جنرل لارڈ کلائیو کے درمیان جون 1757ء میں برپا ہونے والی اس تاریخی جنگ میں ہی غدار میر جعفر کو خریدا گیا تھا۔ صرف اس جنگ میں دھوکے سے سراج الدولہ کو شکست دے کر ایسٹ انڈیا کمپنی نے پچیس لاکھ پاؤنڈ کا مال غنیمت بٹورا۔ انگریز جرنیل کلائیو نے اس جنگ میں دو لاکھ 34ہزار پاؤنڈ اپنے لیے سمیٹے۔ اسی رقم سے خونخوار اور سازشی جرنیل کلائیو نے برطانیا میں نہ صرف ایک محل تعمیر کرایا بلکہ ایک وسیع جاگیر بھی خریدی ، سفاکی کی انتہا دیکھیے! انگریز جرنیل نے برطانیا میں اس جاگیر کا نام ”پلاسی” رکھا۔ کلائیو نے برطانیا میں تب اپنے اور اپنے والد کے لیے پارلیمان سے دو نشستیں خریدیں۔ برطانوی پارلیمان میں تب ایک چوتھائی ارکان ایسٹ انڈیا کمپنی کے حصص یافتہ تھے۔ برطانیا نے اپنے دور میں ہندوستان میں سب کچھ بدل کررکھ دیا۔
متحدہ ہندوستان میں لوٹ مار کی بھیانک داستان کا مطالعہ کرنا ہو تو بھارتی مصنف ششی تھرور کی ایک کتاب کو پڑھنا نہ بھولیں جو 2016ء میں بھارت میں ”An Era of Darkness:The British Empire in India” اور 2017ء میں ”Inglorious Empire” کے نام سے لندن میں شائع ہوئی۔ ملکہ برطانیا کے چمکتے دمکتے چہرے کو دیکھنے سے پہلے اعداد وشمار کی یہ عینک اپنی آنکھوں میں ضرور لگالیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی 1600ء میں قائم ہوئی، تب برطانیا دنیا کے صرف 1.8 فیصد جی ڈی پی تک محدود تھا۔ دل تھام لیجیے! تب برصغیر کا جی ڈی پی دنیا میں سب سے زیادہ یعنی 23سے 27 فیصد تھا۔ ہم دنیا کو دینے والے تھے لینے والے نہیں۔ برطانوی راج کے تقریباً دو صدیوں بعد یہ استعماری ملک دنیا کی دس فیصد جی ڈی پی رکھتا تھا جبکہ برصغیر کی اقتصادی شرح اشاریوں اور اعشاریوں میں پست ترین ہوچکی تھی۔ اب یہ ایک غریب ترین خطہ تھا، جسے کچھ منہ بگاڑ کر انگریزی بولنے والے ترقی کا دور کہتے، لکھتے ہیں۔ تاریخی حقائق یہ ہیں کہ برطانویوں کے دھاوا بولنے سے قبل برصغیر میں شرح خواندگی 90 فیصد تھی، جی جناب والا ! 90 فیصد۔ جب ملکہ برطانیا کے یہ سفاک تاجر اور فوجی یہاں ذہنی، نفسیاتی، تعلیمی اور سیاسی غلامی بُو کر گئے تو یہ شرح خواندگی سمٹ کرصرف 16 فیصد رہ گئی تھی۔
انگریزوں نے طرح طرح کے طریقوں سے برصغیر میں تعلیم کو طبقاتی بنادیا۔ ایک بڑے عوامی طبقے کو سیاسی اور تجارتی مقاصد کے تحت جاہل رکھنے کا بندوبست کیا۔ اور ایک خاص طبقہ پیدا کیا، جن کی تعلیم کو انگریزوں کی برتری کے احساس کے ساتھ زہریلی بنا دیا، تاکہ یہ طبقہ برصغیر کے عوام کو اس طرح گرفت میں رکھنے کے کام آسکیں کہ یہاں موجود رہے بغیر برصغیر استعماری مقاصد کا مستقل چارہ بنا رہے۔ آج بھی یہ معاملہ جوں کا توں ہے۔ پاکستان میں یہ صورتِ حال بھارت سے زیادہ بھیانک ہے۔ یہاں طبقاتی تعلیم اور سیاسی جاگیر داری کے فروغ نے عسکری اشرافیہ کے ساتھ ایک قیامت برپا کررکھی ہے۔ جس کا درست سیاسی و تاریخی شعور پیدا کرنے کی راہ میں خود ذرائع ابلاغ ایک رکاوٹ بن کر کھڑے ہیں۔
یاد رکھیں! ملکہ برطانیا کا سفاک فوجی ، سیاسی اور تجارتی جتھہ جب یہاں سے گیا تھا، تو برصغیر غریب ترین خطہ بن چکا تھا، شرح خواندگی سمٹ گئی تھی۔ یہاں اوسط عمر گھٹ گئی تھی۔ قسم قسم کی نئی بیماریاں جنم لے چکی تھیں۔ تعمیر و ترقی کا پورا عمل دراصل نوآبادیاتی مقاصد کے تحت تھا، چنانچہ اس کا کوئی مثبت اثر عوام کی زندگی پر نہ پڑا تھا۔ برطانوی استعمار ہندوستان میں صرف چھینا جھپٹی تک محدود نہیں رہا، بلکہ یہ بدترین استحصال مارکٹائی اور قتل وغارت گری کے ساتھ بے قابو رہا۔ ٹہریے! والٹر بینجمن (Walter Benjamin) کے الفاظ دُہرا لیجیے!
”Every monument of civilization is a monument of barbarism”
(تہذیب کی ہر یادگار بربریت کی ایک نشانی بھی ہوتی ہے)
تقسیم برصغیر کے وقت ہم عام طور پر یہ دیکھتے ہیں کہ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں، ہندوؤں اور دیگر مذہبی اکائیوں کی تعداد کیا تھی۔ کبھی یہ سوال ہمارے ذہنوں میں نہیں اُبھرتا کہ برطانوی عہد میں کل کتنے لوگ مرے۔ یہ تعداد عام طور پر پہلے مرنے والوں کی تعداد کے تناسب سے تھی، یا ان اموات میں خارجی عوامل کا کوئی دخل تھا؟ یہ سوالات ہمیں ایک سفاکانہ صورتِ حال سے دوچار کرتے ہیں۔ شاید آپ یقین نہ کریں کہ برصغیر میں برطانوی عہد میں مرنے والے لوگوں کی تعداد ڈیڑھ ارب انسانوں سے متجاوز ہے جن میں صرف مسلمانوں کی تعداد 350 ملین ہے۔ تاریخی کتابوں میں اس پورے عمل کو ہندوستانی نسل کشی یا انڈین ہولو کاسٹ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ قتل و غارت گری کی یہ اندوہناک تاریخ ایک علیحدہ موضوع ہے۔ یہ تاریخ ترقی وتہذیب کی مختلف گپورے بازیوں میں مخفی رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ مگر سچ یہ ہے کہ آج انگریز مزے میں ہیں تو اس کا سبب وہ کراہیں اور چیخیں ہیں جو مظلوم ہندوستانیوں اور افریقیوں کے استحصال میں گونجتی رہیں۔ وہ اداسیاں اور مایوسیاں ہیں جو نسل درنسل یہاں بو دی گئیں۔ وہ خون اور لاشیں ہیں جو تاریخ کی صلیب پر لٹکی ہوئی ہیں اور روزِ قیامت تک اُتاری نہ جاسکیں گی۔ ملکہ برطانیا کی موت پر سوگ منانے والے نفسیاتی مریض ہوسکتے ہیں یا پھر خود سفاک انگریزوں جیسے ہی بے رحم۔ ملکہ برطانیا کی موت کا سوگ وہ بے رحم حکمران منائیں جو اپنا علاج برطانیا میں کراتے ہیں جو حکمرانی کا موقع چھن جائیں تو لندن کی فضاؤں میں بس جاتے ہیں۔ حقیقی مسلمانوں اور انسانوں کے لیے اس صورت حال پر ایک حسب ِ حال ردِ عمل ہے۔ انسانی اوربالکل واجب! ملکہ برطانیہ مرگئیں، خَس کم ، جہاں پاک!!
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
طبیعتیں اُوب گئیں، بس کردیں سر جی!! ایسٹ انڈیا کمپنی کے دماغ سے کراچی چلانا چھوڑیں! آخر ہمار اقصور کیا ہے؟ سرجی! اب یہ گورنر سندھ کامران ٹیسوری!! سر جی! سال 1978ء کو اب چوالیس برس بیتتے ہیں،جب سے اے پی ایم ایس او(11 جون 1978) اور پھر اس کے بطن سے ایم کیوایم (18 مارچ 1984) کا پرا...
دل میں ہوک سے اُٹھتی ہے!!یہ ہم نے اپنے ساتھ کیا کیا؟ جبلِ نور سے غارِ حرا کی طرف بڑھتے قدم دل کی دھڑکنوں کو تیز ہی نہیں کرتے ، ناہموار بھی کردیتے ہیں۔ سیرت النبیۖ کا پہلا پڑاؤ یہی ہے۔ بیت اللہ متن ہے، غارِ حرا حاشیہ ۔ حضرت ابراہیمؑ نے مکہ مکرمہ کو شہرِ امن بنانے کی دعا فرمائی تھ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...
پلاٹینم جوبلی پر 95برس کی ملکہ الزبتھ نے اہم اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے بعد شہزادہ چارلس بادشاہ اور ان کی اہلیہ کمیلا پارکر ملکہ برطانیہ ہوں گی۔ امید ہے عوام چارلس اور کمیلا کا بھی ساتھ دیتے رہیں گے،غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق ملکہ برطانیہ نے اپنے پیغام میں کہا کہ خواہش ہ...
کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...