وجود

... loading ...

وجود

پگلا گئے ہوکیا؟

بدھ 14 ستمبر 2022 پگلا گئے ہوکیا؟

دوستو،کراچی میں ایسی مضافاتی بستیاں جہاں اردو بولنے والوں کی تعداد زیادہ ہے، وہاں کسی بھی بے وقوفی والے کام پر سامنے والا فوری کہتا ہے۔۔ارے پگلا گئے ہوکیا؟ یعنی کیا پاگل ہوگئے ہو ۔۔ سوشل میڈیا پر جب بھی نظر پڑتی ہے تو یہ یقین ہونے لگتا ہے کہ واقعی آدھی سے زیادہ قوم ’’پگلا‘‘ گئی ہے۔۔ سب ایک دوسرے کے کپڑے اتارنے میں لگے ہوتے ہیں۔۔ لیکن جرمنی کے تحقیق دانوں نے ہماری مشکل آسان کردی۔ انہوں نے ایک نئی تحقیق میں انکشاف کیا ہے کہ انتہائی درجہ حرارت انٹرنیٹ پر نفرت انگیزی میں اضافہ کردیتا ہے۔جرمنی کے پوٹسڈیم انسٹیٹیوٹ فار کلائمیٹ اِمپیکٹ ریسرچ کے محققین کو تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ جب موسم زیادہ گرم یا سرد ہوتا ہے تو انٹرنیٹ پر لوگ زیادہ جارح مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔تحقیق کرنیوالے گروپ کی سربراہ لیونی وینز کا کہنا تھا کہ تحقیق کے نتائج نے آن لائن نفرت انگیزی کو موسمیاتی تغیر کی جانب سے پڑنے والے نئے اثر کو واضح کیا جو مجموعی طور پر معاشرے کی اکائی اور لوگوں کی ذہنی صحت کو متاثر کر سکتا ہے۔تحقیق میں محققین نے 2014 سے2020 کے درمیان امریکا میں کی جانے والی چار ارب سے زائد ٹوئٹس کا تجزیہ کرنے کے لیے مشین لرننگ کا استعمال کیا۔جس سے معلوم ہوا کہ ساڑھے سات کروڑ ٹوئٹس نفرت انگیزی پر مبنی تھیں۔بعد ازاں محققین نے ٹوئٹس کا مقامی موسم کے ڈیٹا سے موازنہ کیا تاکہ دونوں کے درمیان ممکنہ تعلق دیکھا جاسکے۔تحقیق کی سربراہ مصنفہ اینیکا اسٹیچی کا کہنا تھا کہ تحقیق میں محققین کو ٹوئٹس کی حتمی تعداد اور انتہائی درجہ حرارت میں نفرت انگیز ٹوئٹس میں اضافے کے متعلق علم ہوا۔ جب بھی موسم زیادہ سرد یا گرم تھا لوگوں کا آن لائن رویہ زیادہ جارحانہ دیکھا گیا۔محققین کے مطابق 12 سے21 ڈگری سیلسیئس درجہ حرارت میں نفرت انگیز ٹوئٹس کی تعداد کم تھیں۔البتہ اگر درجہ حرارت اس سے کم تھا تو نفرت انگیزی میں 12 فی صد اضافہ دیکھا گیا جبکہ اس سے زیادہ درجہ حرارت کی صورت میں نفرت انگیزی میں 22 فی صد اضافہ سامنے آیا۔
ہمارے یہاں گرمی پڑتی ہے تو غضب کی اور سردی بھی شدت کی ہوتی ہے، ایسی صورت حال میں بھلا کوئی ’’نارمل ‘‘ رہ سکتا ہے؟پاکستان کو آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا سب سے بڑا ملک سمجھا جاتا تھا، لیکن اب یہ حقیقت بدل چکی ہے کیونکہ آبادی میں اضافہ اتنا تیز رفتار ہے کہ پاکستان اب دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن چکا ہے۔ پاکستان میں اوسطاً ہر ایک منٹ میں 11 زندہ بچے پیدا ہو تے ہیں یعنی تقریباً ہر پانچ سیکنڈ بعد ملکی آبادی میں ایک شہری کا اضافہ ہوتا ہے۔۔جہاں اس تیزرفتاری سے آبادی میں اضافہ ہورہا ہو،وہاں عوام کی ذہنی کیفیت کا اندازہ باآسانی لگایاجاسکتا۔ہمارے پیارے دوست نے گزشتہ دنوں ہمیں ایک قصہ سنایا، کہنے لگے۔۔ایک قریبی عزیز کے گھر سے زیور چوری ہو گیا۔ انہوں نے ایک ’’پیر صاحب‘‘ کو حساب کتاب کے لیے گھر بلایا۔ میں گیارہ/بارہ برس کا تھا۔ پیر صاحب نے کہا، کوئی معصوم بچہ جو اڑوس پڑوس اور خاندان کے بندوں کی پہچان بھی رکھتا ہو، اس کو بلا لیں۔ قرعہ میرے نام نکلا۔ میں پیر صاحب کے سامنے حاضر، دوزانو ہو کہ بیٹھ گیا۔ پیر صاحب نے اپنے سامنے رکھے ایک طشت، جس میں ایک ا سٹیل کا گلاس، ایک پلیٹ میں کچھ گھی، کچھ کاغذ کے ٹکڑے، تعویز وغیرہ رکھے تھے، ان پہ کچھ لمبا چوڑا عمل اور پڑھائی شروع کر دی۔ کمرے میں ہم دو ہی فرد تھے۔ لائٹ بند تھی، صرف کھڑکی سے روشنی آ رہی تھی۔ میں کچھ کچھ ڈرا ہوا بھی تھا۔ گمان تھا شاید کوئی روح حاضر ہو گی اور ہمیں چور کے بارے میں بتائے گی۔ قریب بیس منٹ بڑبڑاہٹ کے انداز میں پڑھائی کے بعد پیر صاحب باآواز بلند کچھ پڑھنا شروع ہوگئے۔ میں ذہنی طور پہ آمادہ کہ بس اب کوئی روح قریب پہنچ چکی ہے۔ پیر صاحب نے پڑھائی روک کے اسٹیل کے گلاس میں قریباً ایک گھونٹ پانی ڈالا اور مجھے حکم دیا کہ اپنی نظر گلاس کے پانی پہ رکھنی ہے۔ اس میں کوئی مرد یا عورت (چور) نظر آئے گا۔ اس کو پہچان لینا۔ میں چوکس ہو گیا کہ چلو کوئی روح نہیں آنے والی، بس چور کا عکس ہی نظر آئے گا پانی میں۔ پیر صاحب نے پھر سے پڑھنا شروع کیا۔ میں اپنی نظر پانی گاڑھے بیٹھا رہا۔ پیر صاحب بولے، کوئی بندہ نظر آیا؟ مجھے تو کچھ نظر نہ آیا تھا۔ میں نے کہا۔۔نہیں۔۔ پیر صاحب نے پھر سے بغور نظر جمانے کا حکم دے کر کچھ پڑھا اور پوچھا اب کون نظر آ رہا ہے پانی میں؟ میں نے کہا کوئی نہیں۔ پیر صاحب تھوڑے جھنجلائے اور پھر سے عمل شروع کیا۔ پھر پوچھا، بیٹا دیکھو، کوئی مرد ہے یا عورت؟ مجھے تو پانی میں اسٹیل گلاس کا پیندا ہی نظر آ رہا تھا۔ میں نے کہا کوئی نہیں ہے۔ پیر صاحب نے ٹھنڈی سانس بھر کے عمل روک دیا اور متاثرہ گھر والوں کو اندر بلایا جو بیچارے بڑی بے چینی سے چور کی شناخت ظاہر ہونے کے منتظر تھے۔ ان کو اندر بلا کے پیر صاحب نے تاریخی جملہ ارشاد فرمایا۔۔ اے بچہ معصوم نہیں ہے۔۔
باباجی بھی کبھی کبھی ’’پگلا‘‘ جاتے ہیں تو پھر ان کی شفقت، رحم دلی اور دریادلی دیکھنے والی ہوتی ہے۔ اسی طرح شدید گرمیوں کی ایک شام تھی۔۔ باباجی نے ہمیں فون کیا اور صرف اتنا کہا کہ۔۔رات کا کھانا نہیں کھانا، ہم باہر کھائیں گے۔۔ اس کے بعد باباجی نے لائن کاٹ دی۔۔ باباجی کو ہم نے کال بیک کی اور پروگرام فائنل کیا۔۔ جس کے بعد ہم مقررہ وقت پر باباجی کی بیٹھک پہنچے، جہاں پیارے دوست پہلے سے ہی موجود تھے۔۔ ہم تینوں رکشہ کرکے قریبی فوڈ اسٹریٹ گئے جہاں ایک ہوٹل پر بڑا بڑا تحریر تھا۔۔یہاں گھر جیسا کھانا نہیں ملتا، آپ اطمینان سے تشریف لائیں۔۔باباجی نے ہمارا ہاتھ پکڑا اور غڑاپ سے ہوٹل میں جاگھسے، ہم نے تشریف رکھنے کے بعد جب باباجی سے اس ہوٹل میں ’’دراندازی‘‘ کی وجہ جاننی چاہی، تو مسکراکربولے۔۔گھر کے کھانے سے بچنے کے لئے تو باہر کھانے کا موڈ بنایاتھا۔۔گھر پر تو ٹنڈے بنے ہیں، کھانے ہیں تو چلو گھر چلتے ہیں۔۔ہم نے باباجی کی بات سن کر ایسا تاثردیا کہ ہمیں کچھ پلے نہیں پڑا۔۔ باباجی نے چرغے کا آرڈر دیا۔۔ کچھ دیر بعد چرغہ ہمارے سامنے ٹیبل پر دونوں شانے چت پڑا تھا۔۔ باباجی نے سب سے پہلے اسے چکھا ، چکھنے کے بعد انہوں نے ویٹر کو بلایا، اور پوچھا۔۔ تمہارے ہاں چرغہ کس طرح تیار کیا جاتا ہے؟ گیس کے ذریعے یا کوئلوں پر؟ ویٹر نے بغور باباجی کے چہرے کا جائزہ لیا۔۔پھر ہم دونوں کو طرف دیکھا جو باباجی کے ساتھ ہی ٹیبل پر چرغے کو بھوکی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔۔ ویٹر نے بڑے فخر سے جواب دیا۔۔ ہمارے ہوٹل میں چرغہ بجلی سے پکایا جاتا ہے، جناب ۔۔ باباجی نے ویٹر کی بات دھیان سے اور پوری توجہ کے ساتھ سننے کے بعد چرغے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔ ٹھیک ہے ، تو پھر اسے دو تین بجلی کے جھٹکے اور لگوا کر لے آؤ۔۔ اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔قوم کے ’’پگلا‘‘ جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ موڈ کسی ایک بات پر خراب ہوتا ہے، غم ساری زندگی کے یاد آجاتے ہیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر