... loading ...
عام مسلمان کے دل زخمی ہیں وہ بے بس بھی ہیں اور لاچاربھی وہ دل ہی دل میں کڑھتے رہتے ہیںہیں ہونٹوںپر فریادمچل مچل جاتی ہے کیونکہ ایک صدی مسلم حکمرانوںکا کردار انتہائی بھیانک ہے جو بیکارمشاغل میں مبتلاہیںاور ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے ہیں جو ہتھیار اسلام دشمنوںکے لئے اٹھنے چاہیے تھے وہ ایک دوسرے کے خلاف اٹھے ہوئے ہیںا پنے وسائل دشمنی کی جنگ میں جھونک رہے ہیں جس سے صرف ِ نظرکرنا خودکشی کے مترادف ہے اس لیے جتنی جلدی ہوسکے امت ِ مسلمہ کو خواب ِ غفلت سے بیدارہونا چاہیے یہ آوازِ جرس بھی ہے حالات کا تقاضا بھی۔ایک دانشورلوئی پاسچر کا قول ہے کہ علم کا کوئی وطن نہیں ہوتا۔ مولانا الطاف حسین حالی نے اپنے ایک شعر میں اسی حقیقت کی طرف یوں اشارہ کیا ہے کہ حکمت کو اک گم شدہ لعل سمجھو جہاں پائو اپنا اسے مال سمجھو دراصل انہوں نے ایک حدیث مبارکہ کی طرف اشارہ کیاہے جس کا مفہوم علم مومن کی گمشدہ میراث ہے آثار قدیمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سمیریا، بابل اور مصر کی تہذیب و تمدن میں سب سے پہلے انسانی علمی کاوشوں کا آغاز ہوا۔ پھر یونانیوں کا دور آیا۔ جب ایک مدت کے بعد یونان پر زوال آیا تو یہ اندیشہ تھا کہ علم وہنر کا کارواں جو کئی ہزار سال سے منزلیں طے کرتا چلا آ رہا تھا، اب تباہ ہو جائے گا لیکن بنی نوع انسان کی خوش قسمتی سے اس کارواں کو مسلمان قافلہ سالار مل گئے۔
عرب کے ان مایہ ناز عالموں کے نام سائنس کی تاریخ میں اب تک درخشاں ہیں جن کے بغیرتاریخ نامکمل ہے ۔ کندی، زکریا، رازی، جابر بن حیان، البیرونی، بوعلی سینا، ابونصر فارابی ، بنو موسی وغیرہ، یہ ایسی کوہ پیکر شخصیات ہیں جن پر اسلامی سائنس جتنا ناز کرے کم ہے۔ ان میں ایک نام ہے ابو علی حسن ابن الحسن ابن الہیثم کا۔ سائنس کے ایک امریکی مورخ جارج سارٹن کے بقول ابن الہیثم دنیا سب سے بڑا طبیعیات دان مسلمان عالم تھا، جسے دنیا کے عظیم ترین علم دوست اشخاص میں شمار کرنا چاہیے۔ ابن الہیثم نے سائنس کے مختلف شعبوں کو بالخصوص علم مرایا و مناظر کو جو ترقی دی ہے اس کا جواب بہت کم ملے گا۔ دنیا کو ابن الہیثم کے ذاتی حالات کا علم زیادہ نہیں، البتہ اس کی علمی سرگرمیوں سے معلوم ہوتاہے کہ آپ ایک متحرک اور ہمہ جہت شخصیت تھے آپ کی زندگی ایسے زمانے میں بسر ہوئی جب ریاضیات کا علم اپنی معراج پر تھا۔ علم الاعداد، علم المثلثات، دائروں اور مخروطوں کی پیمائش یعنی علم ہندسہ وغیرہ ان دنوں مصر اور عرب کی یونیورسٹیوں میں بے حد شوق سے پڑھے جاتے تھے۔ یونانی فلسفی یعنی جالینوس، ارسطو، اقلیدس اور بطلیموس کے نظریات اس عہد کے لوگوں کے ذہن پر چھائے ہوئے تھے۔ ایسے زمانے میں ابن الہیثم نے آنکھ کھولی۔ لیکن انہوںنے اندھا دھند تقلید کے بجائے اپنا الگ راستہ بنایا صدیوں سے رائج نظریات کو دلیل سے ردکیا انہوں نے مشاہدات و تجربات کو اپنا رہبر بنایا۔ دنیا کے مایہ ناز سائنس دان ابن الہیثم بصرہ میں 965 ء ابن الہیثم میں پیدا ہوئے۔ تعلیم سے فارغ ہو کرآپ قاہرہ چلے گئے جو ان دنوں عظیم دارالسلطنت ہونے کے علاوہ علم و دانش کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ قاہرہ میں وہ ایک ممتاز ریاضی دان اور انجینئر کی حیثیت سے اتنا مشہور ہوا کہ فاطمی خلیفہ الحاکم نے اسے اپنی خدمت میں لے کر سرفرازی بخشی۔ کچھ عرصے تک خلیفہ نے اسے بڑے احترام سے رکھا۔
ایک مرتبہ دریائے نیل کی سالانہ طغیانی سے آس پاس کے علاقے میں سخت جانی اور مالی نقصان ہوا۔ ابن الہیثم نے اس تباہی خیز دریا پر بندھ باندھنے کا منصوبہ تیار کیا وہ جس اندازسے اس منصوبے کو پایہ ٔ تکمیل کرنا چاہتے تھے خلیفہ کے بیشترمقربین اس کے شدید مخالف ہوگئے جس سے اس کا یہ عظیم الشان منصوبہ بعض وجوہ سے ناکام ہو گیا اور خلیفہ کے غیظ و غضب سے بچنے کے لیے ابن الہیثم قاہرہ سے بھاگا اور جب تک خلیفہ زندہ رہا، اس نے اپنے آپ کو دیوانہ مشہور کر دیا۔ تاہم یہ فخر کیا کچھ کم ہے اسی دیوانے ابن الہیثم کے منصوبے کو ایک ہزار سال بعد حکومت مصر نے دریائے نیل کا مشہور سوان بند بنا کر پورا کر دکھایا۔ اس نے گم نامی کے اس زمانے میں فراغت کے ساتھ تصنیف و تالیف کا کام کیا۔ اس کی سب سے عمدہ تصنیف کتاب المناظر ہے جو علم البصریات پر سب سے پہلی جامع کتاب ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے اقلیدس اور بطلیموس کے اس نظریے کی تردید کی ہے کہ نگاہ آنکھ سے نکل کر دوسری چیزوں پر پڑتی اور انہیں دیکھتی ہے۔ ابن الہیثم کا بیان ہے کہ نگاہ آنکھ سے نکل کر دوسری چیزوں پر نہیں پڑتی بلکہ خارجی چیزوں کا عکس آنکھ پر پڑتا ہے۔ اس کے اس نظریے کو اس کے معاصروں اور بعد میں آنے والوں نے بہت کم تسلیم کیا۔ اس زمانے کے ماہرین چشم نے بھی یہ نظریہ قبول نہیں کیا لیکن البیرونی اور بوعلی سینا جیسے دیدہ ور اس کے نظریوں کو تسلیم کرتے تھے۔ ابن الہیثم نے رنگ اور روشنی کے انتشار، انعکاسِ نور اور فریبِ نظر پر بھی بحث کی ہے اور انعکاسِ نور کے زاویے دریافت کیے۔ ابن الہیثم کا مسئلہ آج بھی علم المناظر میں اس کا نام روشن کر رہا ہے۔ انعطاف نور کے مسئلے کی جانچ ابن الہیثم نے شفاف چیزوں یعنی ہوا اور پانی کے ذریعے کی۔ اس نے کروی اجسام کے ذریعے یعنی گلاسوں میں پانی بھر کر چھوٹی چیزوں کو بڑا دکھانے والے عدسے یا خوردبین کا راز نظری طور پر معلوم کر لیا تھا۔ تین صدی بعد اٹلی میں ایسے عدسے تیار کیے گئے۔
مغربی مصنفوں مثلا راجر بیکن نے علم المناظر پر جو کچھ لکھا ہے ان کی بنیادی معلومات کا سہرا ابن الہیثم کے سر ہے۔ ابن الہیثم کی تصانیف سے لیونارڈ ڈاونسی، کیپلر اور آئزک نیوٹن جیسے جلیل القدر لوگ متاثر ہوئے۔ ابن الہیثم کی ایک اور کتاب میزان الحکم ہے جس میں علم ڈائنامکس کے اصول بیان کیے ہیں۔ اس کتاب میں فضا میں کثافت اور اس کے وزن کی نسبت کی خوب تشریح کر کے یہ واضح کیا ہے کہ لطیف اور کثیف فضاوں میں اجسام کا وزن گھٹتا بڑھتا ہے۔وہ کشش ثقل کے نکتے کو خوب جانتا تھا اور اسے ایک عظیم طاقت تسلیم کرتا تھا۔ تیزرفتاری، فضا اور اجسام کے گرنے میں جو نسبت ہے اسے وہ پوری صحت سے جانتا تھا۔ باریک نلیوں میں سیال مادے جس طرح چڑھتے ہیں اور درختوں کے پتوں میں رس جس طرح پہنچتا ہے، اس کے اصول یعنی قانون انجذاب پر اس کی بہت نظر تھی۔ ایک بھرپور زندگی گزارنے کے بعد اس عظیم مسلم سائنس دان کا انتقال 1039 ء میں ہوا۔ مسلمانوںکی ستم طریقی یہ ہوئی کہ گذشتہ100 کے دوران تخلیقی، تحقیقی اورفکری نظریاتی کام بتدریج کم ہوتاچلاگیا اور آج ہم مسلسل انحطاط پذیرہیں یہی وجہ ہے کہ یہودی و عیسائی علمی،تحقیقی و ایجادات کے میدان میں ہم سے ہزاروںکوس آگے ہیں بدقسمتی سے ہمیں اس کا پھر بھی ادراک نہیں ہورہا یہی تنزلی کا بڑا سبب بن گیاہے اس سلسلہ مسلم حکمرانوںکا کردار انتہائی بھیانک ہے جو لایعنی سرگرمیوں،بیکارمشاغل:اسلام دشمن قوتوں سے دوستی کی خاطر اپنی درخشندہ روایات سے صرف ِ نظرکرکے ایک دوسرے کے دشمن بن کر اپنے وسائل دشمنی کی جنگ میں جھونک رہے ہیں جس سے صرف ِ نظرکرنا خودکشی کے مترادف ہے اس لئے جتنی جلدی ہوسکے امت ِ مسلمہ کو خواب ِغفلت سے بیدارہونا چاہیے یہ آوازِ جرس بھی ہے حالات کا تقاضا بھی اور ہرمسلمان کی دلی تمنا بھی۔