... loading ...
عسکری قیادت کی تقرری کوچوپال میں زیرِ بحث لانا دانشمندی نہیں کیونکہ ایسے فیصلے کسی کی عوامی مقبولیت دیکھ کرنہیں حالات اور اہلیت وصلاحیت کو مدِ نظر رکھ کر کیے جاتے ہیں بدقستمی سے پاکستان میں جب بھی نئی عسکری قیادت کی تقرری کا موقع آتا ہے تو ملک میں زلزلے جیسی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے اِس روایت کی ستائش نہیں کی جا سکتی بہتریہ ہے کہ سیاسی قیادت حدودو قیود سے تجاوز اور ہر جگہ مداخلت کرنے کی بجائے زمہ داریوں تک محدود رے ایسے حالات میں جب ملک کا تہائی حصہ پانی میں ڈوبا ہوا ہے اور حکومت اقوامِ عالم سے امدادکی التجائیں کررہی ہے ملک کے مقبول رہنما عمران خان کا بھرے جلسے میں یہ کہنا کہ زرداری اور نوازتگڑے محب وطن آرمی چیف سے ڈرتے ہیں کسی طور مناسب نہیں اِس میں ابہام نہیں رہا کہ نومبر میں عسکری قیادت تبدیل ہونے والی ہے اور موجودہ عسکری سربراہ مزید عرصہ عہدہ پر رہنے کے خواہشمند نہیں بلکہ باعزت طورپراب رخصت کے خواہاں ہیں نئی حساس تقرری کے لیے ہدایات جاری کرنا اور غیر ذمہ دارانہ بیان و تبصرے سے عمران خان کی عزت و وقار میں اضافہ نہیں ہوا چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ ، ڈی جی آئی ایس پی آر سے لیکر سیاسی قیادت نے غیر زمہ دارانہ بیان بازی کو محسوس کرتے ہوئے ناپسندیدگی ظاہرکی ہے پی ڈی ایم کے وہ رہنماجو قبل ازیں عسکری قیادت پر تنقید کر چکے ہیں انھیں بھی بیان کو غیر زمہ دارانہ کہنے کا موقع ملا ہے ملک بھر سے منفی ردِ عمل آنے کی بناپر اب واقفان حلقوں کا کہناہے کہ عمران خان اپنے بیان پر ثابت قدم رہنے کی بجائے پھرنے کو آمادہ ہیں مگر بات یہ ہے کہ بولنے سے قبل سوچنے کی زحمت کرنے سمیت اگر قول و فعل کے تضاد کو دورکرلیں تو بار بار شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔
عسکری سربراہ کی تقرری کا حتمی اختیار وزیراعظم کی صوابدید ہے یہ استحقاق اُنھیں ملک کا آئین دیتا ہے پندرہ اگست کو ایک ٹی وی انٹرویو میں اِس حوالے سے دریافت کیے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے خود عمران خان نے کہا کہ یہ میرا مسلہ نہیں بلکہ یہ فیصلہ حکومت نے کرنا ہے اب اچانک معینہ مدت سے قبل حکومت کی طرف سے انتخابی عمل کی طرف جانے سے گریز کو آرمی چیف کی تقرری سے جوڑکر انھوں نے اچھا تاثرنہیں دیاماضی میںایک سے زائد بار حکمرانوں اور سیاستدانوں نے آرمی چیف کے منصب پر ملفوف اورمحتاط ایسے اندازمیں بات کی تاکہ منصب کے احترام میں کمی نہ آئے اسی احتیاط کی بناپر زیادہ تراشارے کنائے میں بات کرنے کی کوشش کی گئی لیکن عمران خان نے پرویز مشرف کے دیئے این آر او کا حوالہ دیکر اِس انتہائی اہم منصب پر نومبر میں ہونے والی تقرری کو متنازع بنانے کی کوشش کی ہے جس پر ہر مکتبہ فکر کی طرف سے تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے سوشل میڈیا جہاں ہمیشہ عمران خان کی طرفداری کا رجحان دیکھنے میں آتا ہے پہلی بار ناراضگی اور برہمی دیکھنے میں آئی ہے مگر کیا وہ مستقبل میں بات کرتے ہوئے محتاط رویہ اختیار کریں گے؟ اِس کا حتمی طور پر ہاں میں جواب دینا مشکل ہے کیونکہ جب وہ مائیک پر آتے ہیں تو بے تکان اور بغیر سوچے سمجھے بات کرتے ہیں اپنی بات کو طول دینے اور پُراثر بنانے کے لیے ایسے حوالے دیتے ہیں جو کئی بار زائد بار غلط ثابت ہو چکے ہیں جرمنی اور جاپان کو ہمسایہ ملک کہنااورتقسیمِ ہند کے وقت پاکستان کی آبادی چالیس کروڑ کہنے سے عوام کواچھا تاثرنہیں گیابلکہ گفتار سے جتنا وہ اپناسیاسی قداورکردار بڑھانے کی کوشش میں ہیں اِن کوششوں کے توقع کے منافی نتائج سامنے آر ہے ہیں بہتر یہ ہے کہ ملک کے مقبول ترین رہنما ہونے کے ناطے یا تو سوچ سمجھ کر بات کیا کریں اگر خطاب کو طول دینا ضروری ہے تو کسی سے درست حوالے معلوم کر لیا کریں اگر ایسا ممکن نہیں توجتنا معلوم ہے وہ اختصار اور جامع الفاظ کے ساتھ بتایا کریں تاکہ باربار جگ ہنسائی نہ ہو۔
سابق وزیرِ اعظم کے منصب پر فائز رہنے والے مقبول رہنما کوغیر ذمہ دارانہ طرزِ عمل زیب نہیں دیتا انھیں مقبولیت کے زعم کے ساتھ اب ذمہ داریوں کابھی احساس کرنا چاہیے بے باکی اچھی بات ہے لیکن غیر زمہ دارانہ طرزِ عمل کی تائید یا حوصلہ افزائی نہیں کی جا سکتی اگر گفتار سے کردار منوایا جا سکتا تو آج تمام باتونی لوگ دنیا کی رہنمائی کر رہے ہوتے ماضی میں عمران خان کئی بارایسی باتیں کر چکے ہیں جن کا منفی ردِ عمل آنے پر انھیں اپنے موقف سے پیچھے ہٹنا پڑا ہے لیکن وہ تو یوٹرن کو بھی خوبی بتانے لگے ہیں ایسا لگتا ہے انھوں نے نہ تو باربار ہونے والی شرمندگی سے کچھ سیکھا ہے اور نہ ہی مستقبل میں وہ ایسی کسی شرمندگی سے بچنے کے خواہاں ہیں سری لنکا کے دورے کے اختتام پرمیزبان صدر سے مہنگائی کم کرنے کے گُر سیکھنے کا انکشاف کرتے ہوئے وطن واپس جا کر عمل کرنے کاعزم ظاہر کیامگر سیاسی عدمِ استحکام آنے کے بعد اُسی سری لنکن صدرکو لیہ کے جلسے میں نہ صرف چور کہہ دیا بلکہ متشدد مظاہروں کے بعد جان بچا کر بھاگتے ہوئے ائر پورٹ پر روکنے کے واقعہ کی تفصیل سناتے ہوئے مذاق اُڑایا اسی طرح بھارت میں عام انتخابات کے دوران نریندرمودی کی کامیابی کو مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ناگزیر قرار دیتے ہوئے تعاون کا عندیہ دیاپھر ٹیلی فون پر بات نہ کرنے پر تنقید کرتے دکھائی دیے جب ایک متنازعہ اور یکطرفہ فیصلے سے کشمیر کو بھارت نے ضم کر لیا تو عمران خان نے سفارتی تعلقات محدود کرنے پر اکتفا کرلیا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ رہنما سطحی سوچ نہیں رکھتے بلکہ وہ اپنے فیصلوں سے ایسے انداز میں کردار منواتے ہیں جس کے بعد اُنھیںتصدیق کے لیے گفتارمیں قصے و کہانیاں سنانے کی ضرورت نہیں رہتی۔
وعدوں کے حوالے سے وہ گفتارمیں ایسابہت کچھ کہہ چکے ہیں جس پر حکومت میں ہوتے ہوئے عمل درآمد نہ کر سکے قرضہ لینے سے اجتناب کے وعدے کیے مگر جو نہی حکومت ملی تو چین ۔سعودی عرب ،امارات اور آئی ایم ایف سمیت کئی دیگر ملکوں اور عالمی اِداروں سے بخوشی قرض لیا بجلی ،گیس اور پیٹرول سستے کرنے کا بھی کوئی وعدہ پورا نہ کر سکے ہالینڈ کے وزیر اعظم کی طرح سائیکل پر دفتر جانے کا وعدہ بھی چار برس کے اقتدار میں ایفا نہ ہوسکا وزیرِ اعظم ہائوس اور گورنر ہائوس بھی آج تک پوری شان و شوکت سے موجود ہیں حالانکہ ایک سے زائد مرتبہ انھوں نے اِن عمارتوں کو تعلیمی اِداروں میں بدلنے کا وعدہ کیا ڈالر کی قیمت کو بڑھنے سے روکنے میں بھی وہ ناکام رہے احتساب کے ذریعے لٹیروں سے دو سوارب ڈالر واپس لانے کا وعدہ بھی ہنوز تشنہ تکمیل ہے قبل ازیں جن اِداروں کی غیر جانبدار ہونے پر تعریف کرتے رہے ہیں اب انھی کی غیر جانبداری کو وہ ہدفِ تنقید بنا رہے ہیں سوال یہ ہے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو اُنھیں گرجنے و برسنے پر اُکسا تے ہیں؟ اِس سوال کا جواب تلاش کرنا زیادہ مشکل نہیں دراصل بڑے بڑے اجتماعات دیکھ کر عمران خان کوآمدہ عام انتخابات میں تحریکِ انصاف کی دو تہائی اکثریت سے کامیابی کا یقین ہو گیا ہے لیکن دوبارہ اقتدار میں آنے سے قبل وہ ایسے حالات بنانے کے خواہشمند ہیں کہ ہر اِدارہ بغیر کسی ردوقداُن کے احکامات کی تعمیل میں ہی عافیت جانے یہ سیدھی سادھی دبائو ڈالنے اور زیرِ نگین لانے کی دانستہ کوشش ہے مگراِس رویے کے سیاسی نتائج نقصان دہ ہو سکتے ہیں کیونکہ اِداروں کا ذمہ داریاں چھوڑ کر کسی کے آگے کورنش بجا لا ناممکن نہیں اِس لیے بہتر یہی ہے کہ گفتار سے کردار منوانے کی بجائے ایسا طرزِ عمل اختیار کر یں جس سے عوام اور اِداروں کااُن پر اعتماد بڑھے اگر ایسا نہیں کرتے تو کسی خوش فہمی میں نہ رہیں سیاسی خسارے کا سامنا ہو نا یقینی ہے۔