... loading ...
کون محب وطن ہے؟ اور کون غدار؟ اس کا فیصلہ آپ کیوں کر کر سکتے ہیں، کیا آپ نے میر ا دل چیر کو دیکھا ہے، وہاں آپ کو کیا لکھا نظر آیا۔یہی کہ میں غدار ہوں؟ کسی کا غدار کسی کا ہیرو ہوتا ہے، سب کے نزدیک غداری اور حب الوطنی کے الگ،پیمانے ہیں،کیسے کیسے لوگوں کو غداری کے سرٹیفیکیٹ تقسیم کیے گئے۔کیسے کیسے لوگوں پر مقدمے چلائے گئے، عدالتوں میں گھسیٹا گیا، جیلوں میں بند کیا گیا۔زبان بندی کی گئی، جلسوں سے خطاب کرنے سے روک دیا گیا، عوام میں جانے پر پابندی لگا دی گئی۔تصویر دکھانا، جرم قرار دے دیا گیا،لیکن کیا کوئی خوشبو کو پابند کرسکتا ہے کہ وہ باغ میں نہ پھیلے، مشک کو تو بہت چھپا کر رکھا جاتا ہے نا۔ کہتے ہیں عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتا۔ کس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی کو غدار قرار دے، اور آئین پاکستان غدار کس کو قرار دیتا ہے، اس بات کو تعین کون کرے گا کہ غدار کون ہے۔ اور غدار کے خلاف کاروائی کا حق آئین کسے دیتا ہے۔ کیا عوامی جلسوں، چوراہوں، پریس کانفرنس میں غداری کے فتوے جاری کیے جاسکتے ہیں۔ فوج کے جرنیل غدار نہیں ہوسکتے؟ہرگز نہیں ہوسکتے۔ نہیں ہونا چاہیئے، لیکن پھر یہ فوج میں کورٹ مارشل کس لیے ہوتا ہے، یہ ہماری عدالت نے کیسا فیصلہ دیا، پھر کیوں جنرل مشرف پر آئین معطل کرنے کے فیصلے پر ان کے خلاف غداری کا مقدمہ قائم کیا گیا۔ ایک ایسے ملک پر جہاں ایک طویل عرصے تک فوج کی حکومت رہی ہو۔ وہاں ایسے مقدمات چلانا آسان کام نہیں ہوتا۔ اس کے لیے حوصلہ چاہیئے، وقت کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ خصوصی عدالت لگانی پڑتی ہے۔ اس مقدمے کو نمٹانے میں پانچ برس لگے اور بالآخر تین رکنی عدالت کے ججوں نے وہ حیران کن فیصلہ سنایا کہ مشرف غداری کے مجرم ہیں۔انہیں سزائے موت سنا ئی گئی۔ مشرف ابھی زندہ ہیں۔ یہ فیصلہ بھی ابھی زندہ ہے۔ تاریخ دیکھے گی ، ہم عدالتوں کے فیصلوں کا کتنا احترام کرتے ہیں۔ فیصلہ آنے سے پہلے ہی پرویز مشرف ملک سے باہر چلے گئے۔ کیسے چلے گئے، کون کون سہولت کار بنا۔ جیسے کسی فوج کا سپاہ سالار غدار نہیں ہوسکتا۔ کیوں کے ملک کی حفاظت کا پورا نظام اس کے ہاتھوں میں ہوتا ہے، اس طرح ملک کا وزیر اعظم بھی غدار نہیں ہوسکتا، کیوں کہ عوام نے اسے ووٹوں سے منتخب کیا ہوتا ہے۔ اکثریت سے نوازا ہوتا ہے، تو پھر ایک منتخب وزیر اعظم پر غداری کا مقدمہ کیوں قائم ہوا۔ ان پر انڈیا نوازی اور ’مودی کے یار‘ جیسے الزامات کیوں لگے، کس نے لگائے۔ ہم نے تو مجیب الرحمن کو بھی غدار قرار دیا، اکثریت سے جیتا تھا، ملک پر حکمرانی کاحق رکھتا تھا، لیکن ہم نے اقتدار نہیں اسے غداری کا تمغہ دے دیا۔جسے سینے پر سجا کر وہ آزادی کا ہیرو بنا اور اپنے قوم کو ایک علیحدہ ملک دینے میں کامیاب ہوگیا۔ پاکستان میں محب وطن اور غداروں کی فہرست بار بار بنائی جاتی ہے، جب بھی مفادات کا مرحلہ آتا ہے، ضرورت پڑتی ہے، توکل کے غدار محب وطن قرار پاتے ہیں، اقتدار ان کیپاؤں میں رکھ دیا جاتا ہے، وزارت اور سفارت سے نوازے جاتے ہیں۔ غداری اور حب الوطنی کے درمیان ایک لکیر کا فاصلہ ہے، یہ لکیر کھنچنے والے نادیدہ ہاتھ، جب چاہیں جہاں چاہیں، اپنی مرضی سے یہ لکیر کھینچ سکتے ہیں۔ اعتراض کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔ سوال کرنے والے پوچھتے ہیں کہ یہ لکیر اس وقت کیوں نے کھینچی گئی، جب جنرل ایوب خان، یحییٰ خان، ضیا اور مشرف نے آئین توڑا تھا۔ آئین کی بالا دستی کے لیے اٹھنے والے سیاسی رہنما اس لکیر کی زد کیوں آجاتے ہیں۔ مولانا مودودی، فاطمہ جناح، شیخ مجیب، ذوالفقار علی بھٹو، صمد خان، خیر بخش مری، بے نظیر بھٹو، عطااللہ مینگل، ولی خان، اکبر بگٹی اور نواز شریف ملک دشمن ، اور غدار کیوں قرار ہاتے ہیں۔ میں بار بار تاریخ کے جھروکے سے جھانک کر پیچھے دیکھتا ہوں ، کہیں میں لکیر کے اس سمت تو نہیں کھڑا ہوں، جو مجھے غدار قرار دے دے۔ لیکن غدار اور ملک دشمن قرار دینے سے پہلے اور مجھے سزا دینے سے پہلے میرادل چیرکرضروردیکھ لیناکہ کیامیں واقعی غدارہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔