وجود

... loading ...

وجود

غدار کون ہے؟

منگل 06 ستمبر 2022 غدار کون ہے؟

کون محب وطن ہے؟ اور کون غدار؟ اس کا فیصلہ آپ کیوں کر کر سکتے ہیں، کیا آپ نے میر ا دل چیر کو دیکھا ہے، وہاں آپ کو کیا لکھا نظر آیا۔یہی کہ میں غدار ہوں؟ کسی کا غدار کسی کا ہیرو ہوتا ہے، سب کے نزدیک غداری اور حب الوطنی کے الگ،پیمانے ہیں،کیسے کیسے لوگوں کو غداری کے سرٹیفیکیٹ تقسیم کیے گئے۔کیسے کیسے لوگوں پر مقدمے چلائے گئے، عدالتوں میں گھسیٹا گیا، جیلوں میں بند کیا گیا۔زبان بندی کی گئی، جلسوں سے خطاب کرنے سے روک دیا گیا، عوام میں جانے پر پابندی لگا دی گئی۔تصویر دکھانا، جرم قرار دے دیا گیا،لیکن کیا کوئی خوشبو کو پابند کرسکتا ہے کہ وہ باغ میں نہ پھیلے، مشک کو تو بہت چھپا کر رکھا جاتا ہے نا۔ کہتے ہیں عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتا۔ کس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی کو غدار قرار دے، اور آئین پاکستان غدار کس کو قرار دیتا ہے، اس بات کو تعین کون کرے گا کہ غدار کون ہے۔ اور غدار کے خلاف کاروائی کا حق آئین کسے دیتا ہے۔ کیا عوامی جلسوں، چوراہوں، پریس کانفرنس میں غداری کے فتوے جاری کیے جاسکتے ہیں۔ فوج کے جرنیل غدار نہیں ہوسکتے؟ہرگز نہیں ہوسکتے۔ نہیں ہونا چاہیئے، لیکن پھر یہ فوج میں کورٹ مارشل کس لیے ہوتا ہے، یہ ہماری عدالت نے کیسا فیصلہ دیا، پھر کیوں جنرل مشرف پر آئین معطل کرنے کے فیصلے پر ان کے خلاف غداری کا مقدمہ قائم کیا گیا۔ ایک ایسے ملک پر جہاں ایک طویل عرصے تک فوج کی حکومت رہی ہو۔ وہاں ایسے مقدمات چلانا آسان کام نہیں ہوتا۔ اس کے لیے حوصلہ چاہیئے، وقت کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ خصوصی عدالت لگانی پڑتی ہے۔ اس مقدمے کو نمٹانے میں پانچ برس لگے اور بالآخر تین رکنی عدالت کے ججوں نے وہ حیران کن فیصلہ سنایا کہ مشرف غداری کے مجرم ہیں۔انہیں سزائے موت سنا ئی گئی۔ مشرف ابھی زندہ ہیں۔ یہ فیصلہ بھی ابھی زندہ ہے۔ تاریخ دیکھے گی ، ہم عدالتوں کے فیصلوں کا کتنا احترام کرتے ہیں۔ فیصلہ آنے سے پہلے ہی پرویز مشرف ملک سے باہر چلے گئے۔ کیسے چلے گئے، کون کون سہولت کار بنا۔ جیسے کسی فوج کا سپاہ سالار غدار نہیں ہوسکتا۔ کیوں کے ملک کی حفاظت کا پورا نظام اس کے ہاتھوں میں ہوتا ہے، اس طرح ملک کا وزیر اعظم بھی غدار نہیں ہوسکتا، کیوں کہ عوام نے اسے ووٹوں سے منتخب کیا ہوتا ہے۔ اکثریت سے نوازا ہوتا ہے، تو پھر ایک منتخب وزیر اعظم پر غداری کا مقدمہ کیوں قائم ہوا۔ ان پر انڈیا نوازی اور ’مودی کے یار‘ جیسے الزامات کیوں لگے، کس نے لگائے۔ ہم نے تو مجیب الرحمن کو بھی غدار قرار دیا، اکثریت سے جیتا تھا، ملک پر حکمرانی کاحق رکھتا تھا، لیکن ہم نے اقتدار نہیں اسے غداری کا تمغہ دے دیا۔جسے سینے پر سجا کر وہ آزادی کا ہیرو بنا اور اپنے قوم کو ایک علیحدہ ملک دینے میں کامیاب ہوگیا۔ پاکستان میں محب وطن اور غداروں کی فہرست بار بار بنائی جاتی ہے، جب بھی مفادات کا مرحلہ آتا ہے، ضرورت پڑتی ہے، توکل کے غدار محب وطن قرار پاتے ہیں، اقتدار ان کیپاؤں میں رکھ دیا جاتا ہے، وزارت اور سفارت سے نوازے جاتے ہیں۔ غداری اور حب الوطنی کے درمیان ایک لکیر کا فاصلہ ہے، یہ لکیر کھنچنے والے نادیدہ ہاتھ، جب چاہیں جہاں چاہیں، اپنی مرضی سے یہ لکیر کھینچ سکتے ہیں۔ اعتراض کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔ سوال کرنے والے پوچھتے ہیں کہ یہ لکیر اس وقت کیوں نے کھینچی گئی، جب جنرل ایوب خان، یحییٰ خان، ضیا اور مشرف نے آئین توڑا تھا۔ آئین کی بالا دستی کے لیے اٹھنے والے سیاسی رہنما اس لکیر کی زد کیوں آجاتے ہیں۔ مولانا مودودی، فاطمہ جناح، شیخ مجیب، ذوالفقار علی بھٹو، صمد خان، خیر بخش مری، بے نظیر بھٹو، عطااللہ مینگل، ولی خان، اکبر بگٹی اور نواز شریف ملک دشمن ، اور غدار کیوں قرار ہاتے ہیں۔ میں بار بار تاریخ کے جھروکے سے جھانک کر پیچھے دیکھتا ہوں ، کہیں میں لکیر کے اس سمت تو نہیں کھڑا ہوں، جو مجھے غدار قرار دے دے۔ لیکن غدار اور ملک دشمن قرار دینے سے پہلے اور مجھے سزا دینے سے پہلے میرادل چیرکرضروردیکھ لیناکہ کیامیں واقعی غدارہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر