وجود

... loading ...

وجود

کیا سیاست ہی سب کچھ ہے ؟

هفته 03 ستمبر 2022 کیا سیاست ہی سب کچھ ہے ؟

سیاسی جماعتیں کبھی کارکردگی سے عوام کے دل جیتنے کی کوشش کرتی تھیں اب صرف دشنام طرازی ہوتی ہے تمام سیاسی جماعتوں کے اطوار کا جائزہ لے لیںآپ یہی نتیجہ اخذ کر یں گے کہ عوامی بھلائی سے زیادہ انھیں انتخابی فتح غرض ہے چاہے ملک معاشی گرداب میں پھنسااور عوام غربت ،مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل سے دوچار رہیں سیاسی رہنمائوںکو پرواہ نہیں البتہ انتخابی جیت کاکوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیاجاتاتمام تر بدعنوانی کے باوجود اپنی نیک نامی کی ایسی ایسی داستانیں گھڑی اور سنائی جاتی ہیں کہ لوگ سن کر دنگ رہ جائیںحالانکہ اِن داستانوں میں رتی بھر صداقت نہیں ہوتی ملک میں ایسا کوئی سیاسی چہرہ نہیں جسے صیح معنوں میں نیک نام کہہ سکیں مزہبی قیادت پر بھی بدعنوانی کے الزامات ہیں دیگر مسائل بڑھنے کے ساتھ ایک اور سچ یہ ہے کہ ملک میں نیک نام سیاسی قیادت کا مسلہ بھی شدت اختیار کرتا جارہا ہے کوئی اور نہیں سیاستدان ہی ایک دوسرے پر غداری تک کے الزامات لگاتے ہیں جس سے رواداری اور برداشت ختم ہو رہی ہے دلیل سے نکتہ نظر منوانے کی بجائے اختلافِ رائے کا جواب گالی سے دیا جاتا ہے اخلاقی روایات کے خاتمے سے ملک کی سیاسی فضااتنی پراگندہ ہو چکی ہے کہ سیاست یکسرتبدیل ہو گئی ہے کوئی کسی کی سُننے کے لیے تیار نہیں صرف اپنی سنانے کی کوشش کرتے ہیں ضرورت اِس امرکی ہے کہ دشنام طرازی سے ایک دوسرے کو بدنام کرنے اور انتخاب جیتنے کے چورراستے تلاش کرنے کی بجائے کارکردگی سے عوام کا دل جیتا جائے سیاسی تقسیم کو ہوادینے کی روش چھوڑکر کارکنوں کی فکری تربیت پر توجہ دی جائے حریف سیاسی جماعتوں کی کمزوریاں اجاگر کرنے کی بجائے منشور اورخدمت سے عوام کی توجہ حاصل کریں کیونکہ قول و فعل کے تضاد سے ملکی مسائل حل نہیں ہور ہے۔
ٍٍ جون سے شروع ہونے والی طوفانی بارشوں سے ملک میں ایسی سیلابی کیفیت ہے جس سے تہائی حصہ پانی میں ڈوب چکاہے جانی و مالی نقصان کا درست اندازہ لگانا تو ایک طرف ابھی تک کئی علاقوں میں امدادی سرگرمیوں کا آغاز تک نہیں ہو سکا بدترین سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی قیادت سب کچھ سیاست سمجھنے کی بجائے متاثرین کی بحالی کے لیے ایسی متفقہ اور مربوط سرگرمیاں شروع کرے جن سے متاثرین کے مصائب و مشکلات اگر ختم نہیں تو کسی حد تک کم ضرور ہوجائیں لیکن بے رحم سیاسی اشرافیہ بددستور اپنے اپنے مفاد کی آسیر ہے چند اِدارے سیلاب میں پھنسے لوگوں کی مددکے لیے متحرک ضرور ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ ابھی تک ہرمتاثرہ فرد تک پہنچانہیںجاسکاجس کی وجہ سے نہ صرف اموات بڑھنے کا خدشہ ہے بلکہ وبائی امراض کا خطرہ بھی سر پر منڈلانے لگا ہے اِس کے باوجود پیش بند ی کے طور پر کوئی طریقہ کار نہیں بنایا جا سکاجس سے متاثرین کی مشکالات میں کچھ کمی آئے حکومتی اپیل کا مثبت جواب دیتے ہوئے کئی ملکوں نے امدادی سامان روانہ کیا ہے اقوامِ متحدہ نے بھی ابتدائی تخمینہ لگاکر عالمی برادری سے تعاون کی اپیل کردی ہے مگر مشکل کے اِن لمحات میں بھی سیاسی قیادت سب کچھ سیاست کو ہی سمجھتے ہوئے ایک دوسرے کو بدعنوان ثابت کرنے کی کوشش میں ہے حالانکہ اِس طرح عالمی امداد کے حصول میں رخنہ آسکتا ہے ہمارے ملک کی سیاست اتنی بدل گئی ہے کہ متاثرین کی بحالی سے زیادہ سیاسی قیادت کے لیے حریفوں کو نیچا دکھانازیادہ اہم ہے۔
عمران خان نے اپنی مقبولیت اور تجربے کی وجہ سے متاثرین کی بحالی کے لیے اربوں کے عطیات جمع کیے لیکن یہ عطیات تباہ ہونے والے اسکولوں ،نیست و نابود انفرااسڑکچر اور برباد اسباب زندگی کی بحالی کے لیے ناکافی ہیںپھر بھی یہ ایک اچھی کاوش ہے مگر حکومت کا زور اِس پر ہے کہ کسی طرح عطیات جمع کرنے کی اِس مُہم کو ناکام ثابت کیا جائے اِس کے لیے حکومتی وزیر و مشیر متحرک ہیں یہ سفاکی کی انتہا ہے ہونا تو یہ چاہیے جو بھی اچھا کام کرے اُسے سراہا جائے اور مل کر سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے ٹھوس اور نتیجہ خیز طریقہ کار بنائیں مگرملک کی سیاست اتنی تبدیل ہو گئی ہے کہ پانی میں ڈوبے عوام دیکھ کر بھی سیاسی قیادت کے دل میں رحم کا جذبہ پیدا نہیں ہوسکا حالانکہ سچ یہ ہے کہ عمران خان اقتدار سے محروم ہونے کے باوجود آج بھی اہم ہیں کیونکہ ملک کے بڑے حصے پر آج بھی اُن کی جماعت یا اُن کے اتحادیوں کی حکومت ہے کے پی کے ،گلگت بلتستان ،آزاد کشمیر اور پنجاب کی حکومتوں کا تعاون حاصل کرنے کے لیے عمران خان کو راضی کیے بناممکن نہیں اِس کا ادراک معمولی فہم و فراست رکھنے والے کو بھی ہے لیکن یہ واضح نکتہ حکومت دیکھنے سے قاصر ہے اسی لیے سیلابی تباہ کاریوں کے باوجوددستِ تعاون بڑھانے سے گریزکرتے ہوئے اپنے سیاسی مفادکے خول میں بندہے ۔
عالمی برادری کو پاکستان میں آنے والے سیلاب کاکسی حدتک احساس ہے اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکرٹری انتونیو گوتریس نے دفترِ خارجہ کے زیرِ اہتمام ویڈیو لنک سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ محدود وسائل کے باوجود پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دیکر جس کشادہ دلی کا مظاہرہ کیا ہے وہ کسی طور فراموش نہیں کیا جاسکتا انھوں نے ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجے میں آنے والی سیلابی آفت کے باعث ہونے والی اموات،وزخمیوں اور نقصانات کا زکرکرتے ہوئے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کرنے کا بھی اعلان کیااگر اعلان کے مطابق دورہ ہوجاتا ہے تو اِس سے کسی حد تک متاثرین کی بحالی ہو سکتی ہے نیزنہ صرف تباہ کاریوں کا ایسادرست تخمینہ لگایا جا سکے گاجس پر اقوامِ عالم اور عالمی اِ دارے اعتماد کریں بلکہ عالمی امداد کو بھی یقینی بنایا جا سکے گاایسا ہوجاتا ہے تو خوراک ،پینے کے پانی، صحت و تعلیم جیسی ضروریات کی فراہمی بھی ممکن ہو جائے گی لیکن اِس کے لیے لازم ہے کہ سیاسی قیادت ایک دوسرے پر الزام تراشی کا جاری سلسلہ کم از کم وقتی طورپر ہی سہی موقوف کر دے اور اختلافات بھلا کر تمام توانائیاں متاثرین کی بحالی کے لیے وقف کر دے ملک کی بدلی سیاست کے تناظر میں ایسا ممکن نظر نہیں آرہاکیونکہ آزمائش کی اِس گھڑی میں بھی سیاسی قیادت کے نزدیک ملک اور عوام سے زیادہ ایک دوسرے کو رگیدنا زیادہ اہم ہے یہ سوچ یا رویہ کسی طور قابل ِ تحسین یا قابلِ رشک نہیں۔
سیاسی قیادت کی نااتفاقی کی وجہ سے ہی عالمی اِدارے مطالبہ کرنے لگے ہیں کہ بھارت سے امدادی سامان کی ترسیل کے لیے زمینی راستہ فراہم کیا جائے حالانکہ یکطرفہ فیصلے سے کشمیرکو بھارت میںضم کرنے سے پاکستان کے لیے ایسی اجازت دینا ممکن نہیں رہامگر سیاسی قیادت کی نااتفاقی سے جائز و ناجائز مطالبات سامنے آنے لگے ہیں ایسے حالات میں جب موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ملک کو سیلابوں اور خشک سالی کی ملی جلی کیفیت کا سامنا ہے محکمہ موسمیات کی طرف سے ستمبر میں مزید بارشوں کی پیشگوئی سامنے آگئی ہے اِن حالات میں ضرورت اِس مر کی ہے کہ سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر امدادی کاموں میں حصہ لیا جائے ملک کے کئی علاقے ابھی تک زیرِ آب ہیں علاوہ ازیں کے پی کے ،پنجاب اور سندھ میں دریائوں میں پانی کی سطح گرنے کی بجائے بلند ہو رہی ہے جس سے قریبی آبادیاں خطرے میں ہیں کئی علاقوں میں تاحال لوگ کھلے آسمان تلے امداد کی امید لگائے بیٹھے ہیں اِس لیے کم از کم اِس آزمائش کی گھڑی میں ہی وقتی طورپر ہی سہی سیاسی قیادت ہوش کے ناخن لے اور ایک ہو جائے متاثرین کی مکمل بحالی کے بعد بے شک اپنی سیاست چمکالیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر