وجود

... loading ...

وجود

مس مینجمنٹ

بدھ 31 اگست 2022 مس مینجمنٹ

دوستو،ملک سیلاب میں ڈوباہوا ہے اور بحث یہ چل رہی ہے کہ ۔۔سیلاب عذاب ہے یا ’’مس منیجمنٹ‘‘ ۔۔ تاریخ کے اوراق پلٹنے سے پتہ چلتا ہے کہ جب منگول بغداد پر چڑھائی کرنے کے لیے بہت بڑے لشکر کے ساتھ آرہے تھے تو بغداد کے گلی کوچوں میں بحث ہورہی تھی کہ ’’کوا حلال ہے یا حرام‘‘؟؟۔۔ سیلاب کو مس مینجمنٹ کہنے والوں کا موقف ہے کہ سیلاب اگر عذاب ہوتا تو تو غریب کی جھونپڑیوں کے بجائے ، رائے ونڈ، بنی گالہ، لال حویلی، بلاول ہاؤس، ڈی ایچ اے کو ڈبو چکا ہوتا۔۔ان کا کہنا ہے کہ ہر سال یہی ہوتا ہے کہ بے حس حکومتیں اپنی نالائقی کو اللہ کی ناراضی قرار دے کر بری الذمہ ہونے کی کوشش کرتی ہیں۔ بے شک اللہ کی مرضی کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلتا۔ لیکن ان بے غیرتوں کا گریبان بھی پکڑو اور جوتے مارو انھیں، جن کی بے حسی سے یہ سب ہوا۔۔
المیہ یہ بھی تھا کہ ملک سیلاب میں ڈوبا ہوا تھا، ہمارے ٹی وی چینلز اپنی خبروں میں سیاست کی گرماگرمی دکھارہے تھے، شہباز گل پر تشدد کی بات ہورہی تھی، عمران خان کے جلسے ڈسکس ہورہے تھے، گرفتاری کے منصوبے سامنے لائے جارہے تھے۔۔ پھر جب سوشل میڈیا پر عوام نے آئینہ دکھانا شروع کیا تو راتوں رات کایا پلٹی اور سارے چینلز سیلاب کی خبریں دینے لگے۔۔ لیکن اب بھی معاملہ ایسا ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔ بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے ساتھ ساتھ زیریں سندھ میں سیلاب نے جو تباہی مچائی ہے ،عوام ابھی تک اس سے آگاہ نہیں ہوسکے۔اب جب کہ پورے ملک میں سیلاب، سیلاب ہورہا ہے تو کراچی میں ہر دس قدم کے فاصلے پر امدادی کیمپ لگے نظر آرہے ہیں۔۔دوہزار پانچ کاجب زلزلہ آیاتھا، کراچی اس وقت بھی امداد میں پیش پیش تھا، کراچی آج بھی سب سے آگے ہے۔ لیکن جب کراچی پر برا وقت آتا ہے تو کوئی کراچی کی مدد کے لیے آگے نہیں بڑھتا۔۔ چندوں کی اپیلیں ہورہی ہیں، امدادی کیمپوں میں غذائی اجناس اور کپڑے اکٹھے کئے جارہے ہیں۔۔ ان میں کچھ بدنیت افراد بھی اپنا الو سیدھا کرنے میں لگے ہوتے ہیں۔کہتے ہیں کہ مانگنے والوں کی تین اقسام ہوتی ہیں۔۔ایک بھکاری وہ جو گلی کوچوں میں صدائیں لگا کر مانگتا ہے۔ اس قسم کے بھکاری کی وضاحت ضروری نہیں کیونکہ یہ اتنی زیادہ تعداد میں ہیں کہ خدا کی پناہ۔ ہر شخص کا پالا روز ان سے پڑتا رہتا ہے۔ دوسری قسم ان حضرات کی ہے جو یتیم اور لاوارث بچوں کے نام پر لوگوں کو ایموشنل بلیک میل کر کے چندہ جمع کرتے ہیں۔ ان میں مہارت مذہبی حضرات کی ہے۔ بس ایک مدرسہ کھول لو اور پھر پیسہ ہی پیسہ۔ مولانا کے 12 بچے کھانے والے، تنخواہ 5 سے 6 ہزار۔۔ مولانا کا لائف اسٹائل شاندار، بڑا گھر، کروڑوں کی گاڑیاں، آنیاں جایناں۔ ہٹو بچو۔! ظاہر ہے یہ سب 5، 6 ہزار میں تو نہیں ہو سکتا۔ تو پھر بھائی یہ چندے کی چکاچوند سمجھ لیں۔۔تیسری قسم گداگری کی سوشل ویلفیئر کے پروجیکٹس ہیں۔ یہ بھکاری زرا مشہور لوگ ہی بنتے ہیں ہی عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ ہمارے کئی کھلاڑی، اداکار، مراثی گانے بجانے والے جب دیکھتے ہیں کی ان کی آمدن کم ہو رہی ہے یا ان کا دھندہ تھوڑا ڈھیلا پڑ رہا ہے تو وہ پھر لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی ادارہ بنالیتے ہیں۔ اس سے ان کا بغیر پیسے لگائے اور بغیر محنت کئے کاروبار چل پڑتا ہے۔ مانگو چندہ رہو خوش و خرم۔ ہو سکتا ہے آپ اس بات سے اتفاق نہ کرتے ہوں مگر ہم نے کروڑوں کا چندہ لینے والے فرشتہ صفت ،درویش صفت انسان مولانا عبدالستار ایدھی صاحب کا بھی لائف اسٹائل دیکھا تھا اور دوسری طرف مراثیوں، کھلاڑیوں کے ادارے اور لائف اسٹائل دیکھ لیں۔ واضع ہو جائے گا کہ لوگوں کی فلاح کے لیے کس نے زندگی وقف کی اور کون بھکاری بن کر اپنا کاروبار چلا رہا ہے۔ پنجاب کے دیہات میں ڈیرے دار لوگ کہتے ہیں کہ مسجد کے امام کے لیے دوسروں کی کمائی کو حرام قرار دینا آسان ہوتا ہے کیونکہ وہ خود کوئی کاروبار نہیں کرتا، اسے کسی کو رشوت دینی پڑتی ہے نہ ٹیکس چوری کا کوئی خوف ہوتا ہے۔ اسے چندے اور خیرات کی صورت میں جو کچھ ملتا ہے، وہ احتساب کے دائرے سے باہر ہوتاہے، اس لیے وہ بے دھڑک سب کو رگیدتا رہتا ہے۔
ایک کنجوس کے گھر کے دروازے کی بیل بجی، اس نے آواز لگائی، بیٹا دروازے پر کون ہے؟ بیٹے نے جواب دیا۔۔ سوئمنگ پول کے لیے چندہ مانگنے والے آئے ہیں۔۔کنجوس نے پوچھا۔۔ کیا دینے لگے ہو۔۔آگے بیٹا بھی تو دیکھیں کس کا تھا، برجستہ بولا۔۔ ایک گلاس پانی۔۔کنجوس بھی آخر باپ تھا۔کہنے لگا۔۔ ساتھ والوں کے نلکے سے دینا۔۔مشتاق یوسفی لیجنڈ مزاح نگار ہیں،وہ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ۔۔بے پناہ مصروفیات اور گھر میں دیر سے آنے کی عادت سے تنگ آکر بیگم صاحبہ نے دل بہلانے اور اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیے مرغیاں پال لیں۔ چنانچہ ہمیں مرغیوں کی کڑ کڑ کے علاوہ مفت انڈے بھی ملنے لگے۔۔ آہستہ آہستہ ہم مرغیوں کے کمروں میں گھس آنے اور گند ڈالنے سے تنگ آنے لگے۔ چنانچہ ہم نے نرم انداز سے بیگم صاحبہ سے احتجاج اور یہ مطالبہ کرنا شروع کیا کہ وہ مرغیوں سے نجات حاصل کریں لیکن ان کا کہنا تھا کہ وہ گھر میں پہروں اکیلی کیا کریں۔ ایک دن ہمیں پبلشر کا نوٹس ملا کہ کتاب پریس میں جا چکی ہے اس لیے اس کا آخری حصہ بہرحال آج ہی مکمل کرکے صبح صبح بھجوائیں۔ چنانچہ میں رات بھر میز پر بیٹھ کر سوچتا اور لکھتا رہا۔ صبح تک مسودہ مکمل کیا۔ باہر تیز بارش ہو رہی تھی سوچا ،چند لمحے تازہ ہوا کھا لوں پھر واپس آکر نظرثانی کرتا ہوں۔۔ کچھ دیر بارش کا نظارہ کرنے اور تازہ ہوا کھانے کے بعد کمرے میں لوٹا تو دیکھتا ہوں کہ مرغیوں کے بچوں نے ہر طرف اپنے گندے پنجوں سے کرسی میز اور میرے مسودے کا بیڑا غرق کر دیا ہے بلکہ کاغذات پر سیاہی کی دوات بھی انڈیل دی ہے۔ یوں اپنی محنت کو غارت دیکھ کر مجھے بہت غصہ آیا اور میں نے جلال میں آکر بیگم سے کہا کہ۔۔ آج سے اس گھر میں یا مرغیاں رہیں گی یا میں۔۔ میری بات سن کر بیگم رونے لگیں۔ ان کے آنسو دیکھ کر میری طبیعت میں نرمی آگئی اور میں نے کہا کہ۔۔ آپ روتی کیوں ہیں اس مسئلے کا کوئی حل تلاش کر لیتے ہیں۔ میری بات سن کر بیگم صاحبہ بولیں ۔۔میں ر و اس بات پر رہی ہوں کہ اتنی تیز بارش میں آپ کہاں جائیں گے؟
بات ہورہی تھی سیلاب کی اور سیلاب متاثرین کی امداد کی۔۔ایک فقیر بھرے بازار میں سر جھکائے جائے نماز پر بیٹھا دعاؤں میں مشغول تھا۔ کسی گزرنے والے نے پوچھا ۔۔بابا کیا کر رہے ہو؟؟۔۔ فقیر بولا انسانوں اور اللہ کا معاملہ طے کرا رہا ہوں، اللہ تو تیار ہے مگر انسانوں کے پاس اس کی طرف لوٹنے اور عبادت کے لئے وقت ہی نہیں ہے، کیا کروں کیسے یہ طے ہوگا۔۔ پھر کچھ عرصے کے بعد اُسی فقیر کو جائے نماز بچھائے قبرستان میں دیکھا۔۔ گزرنے والے نے پوچھا کہ اس ویرانے میں کیا کر رہے ہو؟؟۔۔ فقیر نے کہا کہ۔ بندے اور اللہ کا معاملہ طے کرانے میں لگا ہوں۔ انسان تو تیار ہے مگر اللہ کہتا ہے کہ اب دیر ہو گئی ہے، یہ قبر میں پہنچ چکا ہے، اب اللہ تیار نہیں ہے۔ اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن پاک کی سورۃ التوبہ آیت نمبر ایک سو چھبیس میں فرماتا ہے۔۔(ترجمہ) اور کیا ان کو نہیں دکھائی دیتا کہ یہ لوگ ہر سال ایک بار یا دوبار کسی نہ کسی آفت میں پھنستے رہتے ہیں پھر بھی نہ توبہ کرتے اور نہ نصیحت قبول کرتے ہیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر