... loading ...
پچھلا ہفتہ حیدرآباد کے مسلمانوں پر بہت بھاری گزرا ہے۔ وہ اپنے زخمی جذبات کو لے کر دیواروں سے سر ٹکراتے رہے۔ پولیس ان پر لاٹھیاں برساکر احتجاج کرنے کی سزائیں دیتی رہی، لیکن وہ ایک لمحہ بھی چین سے نہیں بیٹھے۔ آخرکار مسلمانان حیدرآباد کا احتجاج رنگ لایا اور شاتم رسول ﷺراجہ سنگھ کی گرفتاری پی ڈی ایکٹ کے تحت عمل میں آئی جس کے تحت وہ کم از کم ایک سال تک ضمانت حاصل نہیں کرسکتا۔یہ قانون صوبائی حکومت نے پیشہ ور اور عادی مجرموں کے لیے بنایا ہے۔حالانکہ راجہ سنگھ کی گرفتار ی تو اہانت رسول ﷺکے واقعہ کے فوراًبعد ہی عمل میں آگئی تھی، لیکن کمزور مقدمہ کی وجہ سے اس کو ضمانت مل گئی۔ تلنگانہ اسمبلی میں بی جے پی کا اکلوتا ممبر ٹی راجہ سنگھ ایک عادی مجرم ہے اور اس کے خلاف درجنوں مقدمات درج ہیں، لیکن قانون کی کمزوری کے سبب اسے اب تک کھلی چھوٹ ملی ہوئی تھی اور وہ اس کا فائدہ اٹھاکر مسلمانوں کے خلاف خوب زہر اگلتا تھا، لیکن اس بار اس نے مسلمانوں کے مذہبی جذبات چھلنی کرنے والا ایسا بے ہودہ بیان دیا کہ مسلمان اپنے جذبات پرقابونہیں رکھ سکے اور وہ اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کربے تحاشہ سڑکوں پر نکل آئے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ حیدرآباد پولیس نے راجہ سنگھ کوسلاخوں کے پیچھے بھیج دیا۔
بی جے پی ترجمان نپورشرما کی دریدہ دہنی کے بعد یہ بی جے پی کا دوسرا لیڈر ہے جس نے مسلمانوں کے مذہبی جذبات سے اسی انداز میں کھلواڑ کی ہے۔راجہ سنگھ کے بارے میں یہ بتانا ضروری ہے کہ وہ ایکعادی مجرم ہے اور اس کے خلاف مختلف تھانوں میں 54 مقدمات درج ہیں۔ گزشتہ فروری میں یو پی اسمبلی انتخابات کے دوران اس پر رائے دہندگان کو دھمکانے کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔اس نے بی جے پی کو ووٹ نہ دینے پر خطرناک نتائج بھگتنے کی دھمکی دی تھی۔ 2020 میں منافرانہ ذہنیت کی وجہ سے اس پر فیس بک اور انسٹا گرام نے بھی پابندی لگائی تھی۔ لیکن اس بار اس نے تمام حدوں کو پار کرتے ہوئے ایک ایسا ویڈیو جاری کیا جس نے مسلمانوں کے جذبات کو بری طرح مجروح کردیا۔ بی جے پی نے اپنا دامن جھاڑنے کے لیے اسے پارٹی سے ضرور معطل کیا ہے مگر ایسے دریدہ دہن لوگوں کے لیے پارٹی کیڈر کے دلوں میں جو جگہ ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ دراصل اس قسم کے واقعات سے بی جے پی کو جو آکسیجن ملتی ہے وہ کسی اور چیزسے نہیں ملتی۔ورنہ کیا وجہ ہے کہ عالمی ردعمل کے باوجود نپور شرما کو اب تک گرفتار نہیں کیا گیا بلکہ اس کے برعکس اسے سیکورٹی فراہم کی گئی۔
بی جے پی میں ایسے لوگ ہرجگہ موجود ہیں جومسلمانوں سے سخت نفرت کرتے ہیں اور ان کے خلاف زہر اگلنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ یہ کوئی معمولی کارکن نہیں بلکہ باقاعدہ قانون ساز اسمبلی کے ممبر ہیں اور اپنی تمام تر قانون شکنی اور دریدہ دہنی کے باوجود پارٹی میں موجود ہیں۔ حال ہی میں راجستھان کے الور ضلع میں بی جے پی کے ایک سابق ممبر اسمبلی گیان دیو آہوجہ کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے جنھوں نے ایک ہندوکسان کی ہجومی تشدد میں موت کے بعد اس کے پسماندگان سے اظہارتعزیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ’’انھوں نے تو ہمارا ایک ہی مارا ہے ہم تو اب تک ان کے پانچ مارچکے ہیں۔‘‘ان کا اشارہ راجستھان کے ان مسلمانوں کی ہلاکت کی طرف تھا، جنھیں نام نہاد گؤ رکشکوں نے درندگی اور بربریت کے ساتھ موت کے گھاٹ اتارا تھا۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ’’ہم نے اپنے کارکنوں کو چھوٹ دے رکھی ہے کہ مارو ہم مقدمہ بھی لڑیں گے اور ضمانت بھی کرائیں گے۔‘‘آہوجہ کے اس بیان پر کافی واویلا مچ چکا ہے، لیکن پارٹی نے ابھی تک ان کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی ہے۔ ہاں راجہ سنگھ کے معاملے میں ضرور کارروائی عمل میں آئی ہے اور اسے پارٹی سے معطل کرکے وجہ بتاؤ نوٹس جاری کیا گیا ہے۔ ایسا نپور شرما معاملے میں شدید عالمی ردعمل کے پیش نظر کیا گیا ہے۔سبھی جانتے ہیں کہ نپور شرما کی دریدہ دہنی سے عالمی سطح پر ہندوستان کی شبیہ خاصی داغدار ہوئی تھی۔ اس کا اعتراف خود حکومت میں بیٹھے ہوئے ذمہ دار لوگوں نے کیا تھا۔ امید تھی کہ بی جے پی اس معاملے میں پھونک پھونک کر قدم رکھے گی اور اپنے کیڈر کو متنبہ کرے گی کہ وہ مستقبل میں ایسی کوئی بات نہ کہیں جس سے کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہو، لیکن راجہ سنگھ کی دریدہ دہنی سے اندازہ ہوتا ہے کہ بی جے پی نے نپور شرما معاملے سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا ہے۔
یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ بی جے پی کی پوری سیاست مسلم دشمنی کے ارد گرد گھومتی ہے۔ وہ ہر الیکشن میں کوئی نہ کوئی ایسا موضوع اچھالتی ہے جس سے اس کا شدت پسند ہندو ووٹ خوش ہو۔ مسلمان شروع سے ہی بی جے پی کے لیے نرم چارہ رہے ہیں اور وہ ان کے خلاف ہندو جذبات کو بھڑکاکر اپنا سیاسی الّو سیدھا کرتی رہی ہے۔ نفرت اور تعصب کی یہ سیاست اب مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو چھلنی کرنے تک دراز ہوگئی ہے۔ حالانکہ نپورشرما معاملہ کے بعد پارٹی نے ایسے عناصر کو ’فرنج عناصر‘ قرار دے کر اپنا دامن جھاڑنے کی کوشش کی تھی اور پارٹی میں ایسے عناصر کی نشاندہی کرکے انھیں الگ تھلگ کرنے کی بات بھی تھی، لیکن اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب لیپا پوتی کرنے کے لیے کہا گیا تھا کیونکہ راجہ سنگھ کے معاملے نے یہ ثابت کیا ہے کہ بی جے پی میں بدترین منافرت پھیلانے والوں کو اب بھی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔
دنیا جانتی ہے کہ مسلمان اپنے پیارے نبی ?سے بے پناہ محبت اور عقیدت رکھتے ہیں اور وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ کوئی آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں معمولی سی بھی گستاخی کرے۔ وہ اپنے نبی ?کی حرمت پر اپنا سب کچھ قربان کرنے کا جذبہ صادق رکھتے ہیں۔ حیدرآباد ملک کے حساس ترین شہروں میں سے ایک ہے اور یہاں عیدمیلاد النبی ?کے موقع پر ہرسال جوعظیم الشان جلسہ عام منعقد ہوتا ہے، اس کی پورے ملک میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ ایک ایسے شہر میں بی جے پی ممبراسمبلی کی طرف سے شان رسالت میں کی گئی گستاخی سے تمام ہی مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں اور وہ شدید غم وغصہ کی حالت میں ہیں۔ راجہ سنگھ نے یہ جرات دراصل حیدرآباد میں ہونے والے منور فاروقی کے پروگرام کو ناکام بنانے کی غرض سے کی تھی، جن پر فرقہ پرست عناصر ہندو دیوی دیوتاؤں کی توہین کا الزام لگاتے ہیں۔اوّل تو منورفاروقی نے ایسا کوئی کام نہیں کیا ہے اور اگر بفرض محال کیا بھی ہے تو اس کی سزاعام مسلمانوں کو ان کے مذہبی جذبات سے کھلواڑ کرکے کیسے دی جاسکتی ہے؟۔ مسلمان جس مذہب کے پیروکار ہیں اس میں ان پر یہ پابندی ہے کہ وہ دوسروں کے مذہبی پیشواؤں کو ہرگز برا نہ کہیں اور مسلمان اس ہدایت پر کاربند بھی ہیں، لیکن اس کے باوجود فرقہ پرست اور فسطائی عناصرمسلمانوں کو ایذا پہنچانے کے لیے اکثر وبیشتر ان کے مذہبی جذبات سے کھلواڑ کرتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ حکومت سماجی تانا بانا قایم رکھنے اور مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان ہم آہنگی قایم رکھنے کے مقصد سے ایک قانون وضع کرے جس میں مذہبی پیشواؤں کی توہین کرنے والوں کے لیے عبرتناک سزاؤں کا بندوبست ہو۔ملک کے موجودہ حالات میں ایسا کرنا یوں بھی ضروری ہے کہ حقیر سیاسی مفادات کے لیے فرقہ وارانہ منافرت بڑھانے کی کوششیں عروج پر ہیں اور قومی یکجہتی کے تصور کو قطعی نظرانداز کردیاگیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔