... loading ...
آ ج کی جدید دنیا میں بالعموم دو ممالک جب بھی ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار آتے ہیں تو اُس کا نقصان کم یا زیادہ بہر حال دونوں ممالک کی عوام کو ہی بھگتنا پڑتا ہے ۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ جنگ کی ہلاکت خیزی ،صرف مفتوح ملک کو ہی نہیں بلکہ فاتح ملک کی سرزمین کو بھی سیاسی ،سماجی اور معاشی طور پر تباہ و برباد کرکے رکھ دیتی ہے۔ لیکن روس اور یوکرین کی جنگ اس لحاظ سے بہت منفرد اور مختلف تھی کہ امریکا سمیت تمام دنیا کے یوکرین کی پشت پر ہونے کے باوجود ساری تباہی و بربادی فقط یوکرین کے حصے میں آئی ، جب کہ روس اِس جنگ کے مضر اثرات سے6 ماہ کی طویل مدت گزرنے کے بعد بھی مکمل طور پر محفوظ و مامون رہا ہے۔یہاں ہم کہہ سکتے ہیں کہ یوکرین پر تو روسی افواج کا حملہ اتنا اچانک اور غیر متوقع تھا کہ یوکرینی افواج کے لیئے فوری طور پر حالتِ دفاع میں جانے کے سوا کوئی دوسرا راستہ باقی نہ بچاتھا ۔لہٰذا یوکرینی فضائیہ روزِ اوّل سے ہی اِس عسکری قابلیت سے یکسر محروم رہی کہ وہ روسی سرزمین پرکسی جوابی فضائی حملہ کا قصد کرسکے ۔
لیکن سب سے زیادہ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ امریکا ،برطانیا ،جاپان ،فرانس اور جرمنی جیسے طاقت ور ترین ممالک بھی عین موقع پر یوکرینی عوام کے ساتھ مجرمانہ بے وفائی کے مرتکب ہوئے ۔ حالانکہ مذکورہ تمام یورپی ممالک کے قائدین ایک بار نہیں بلکہ بے شمار بار یوکرینی صدر، زیلنکسی کے ساتھ کھڑے ہوکر روس کے متوقع جنگی حملہ کی صورت میں یوکرین کی سرزمین کا بھرپور عسکری دفاع کرنے کا پختہ عہد کرچکے تھے۔ مگر جب روس نے یوکرین پر لشکر کشی کی تو اِن میں کسی بھی ملک کے رہنما کو، یوکرینی عوام کے ساتھ کیا گیا اپنا’’دفاعی وعدہ ‘‘یاد نہ آیا اور یوں آخر کار! یوکرین کو اپنے سے کئی گنابڑی عسکری طاقت کا تن تنہا ہی مقابلہ کرنے کے لیئے میدانِ جنگ میں اُترنا پڑا۔اگرچہ یوکرین جنگ کے بعد امریکا کی قیادت میں یورپی ممالک نے روس کا سخت ترین معاشی بائیکاٹ کرنے کا اعلان ضرور کیا۔ لیکن یہ معاشی بائیکاٹ بھی ہومیو پیتھک قسم کا بائیکاٹ ہی ثابت ہوا۔ دراصل یورپی ممالک کی تمام تر معاشی سرگرمیاں ہمیشہ سے ہی روس کے قدرتی و معدنی ذخائر کی مرہون ِ منت رہی ہیں ۔اس لیے روس کے معاشی بائیکاٹ کی نام نہاد عالمگیر مہم ،ماسکو کی معیشت کا ایک بال بھی بیکا نہ کرسکی۔
روس کے خلاف معاشی بائیکاٹ کی عالمی مہم کی عبرت ناک ناکامی و شرم ساری سے دوچار ہونے کے بعد امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کے پاس روسی صدر ولادی میر پیوٹن کو سبق سکھانے کا بس ،اب ایک ہی راستہ باقی بچتا تھا کہ وہ روس میں داخلی طور پر انارکی اور عدم استحکام کے ایسے غیر معمولی حالات پیدا کر دیں کہ جس کے سہارے ولادی میر پیوٹن کی مضبوط ترین سیاسی حکومت کو رفتہ رفتہ کمزور کرکے اُسے اقتدار سے بے دخل کیا جاسکے۔ یاد رہے کہ چند ماہ قبل امریکی صدر جوزف بائیڈن ، امریکی ذرائع ابلاغ میں اپنے ہم منصب روسی صدر ولادی میر پیوٹن کا تختہ اُلٹ کر اُنہیں جان سے مروانے کا براہ راست بیان بھی داغ چکے تھے ۔لیکن جب روسی حکام نے امریکی صدر کے بیان پر اپنے سخت ردعمل کا اظہار کیا تو پھر فوری طور پر وائٹ ہاؤس نے امریکی صدر کے مذکورہ بیان کی تردید بھی جاری کردی تھی ۔شاید بعض تجزیہ کاروں کے نزدیک یہ معاملہ وائٹ ہاؤس کی ’’تردید ‘‘ کے بعد ختم ہوگیا ہوگا۔لیکن ہماری دانست میں اصل کھیل تو امریکی صدر کی دھمکی کے بعد ہی شروع ہوا ہے اور جسے بھی اصل کھیل ملاحظہ کرنے کا شوق ہے وہ امریکی صدر کی دھمکی کے سنگین نتائج کے تانے بانے گزشتہ ہفتہ ماسکو میں رونما ہونے اُس واقعہ میں باآسانی تلاش کرسکتاہے کہ جس حادثہ میں روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے انتہائی قریبی ساتھی ڈُوگین کی چہیتی بیٹی ،دریا ڈُوگینا ،دارلحکومت کے مضاف میںایک کار بم حملے میں ہلاک ہوگئیں ہیں ۔
واضح رہے کہ ڈُوگین کی صاحب زادی کی ہلاکت کے بعد صرف روس ہی نہیں بلکہ عالمی سیاست میں زبردست ہلچل اور تحرک پیدا ہوگیا ہے۔ خاص طور پر روسی عوام میں ولادی میر پیوٹن کے قریبی ساتھیوں کی زندگیوں کے بارے میں سخت تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے ۔بظاہر مذکورہ الم ناک واقعہ میں ڈُوگین کی بیٹی ہلاک ہوئی ہیں، لیکن عام خیال یہ کیا جارہا ہے کہ حملہ آورو ں کا اصل ہدف پیوٹن کے معتمد ترین ساتھی ڈُوگین تھے۔ اس موہوم خدشہ کو روسی ذرائع ابلاغ کی زینت بننے والی اُس خبر سے بھی تقویت ملتی ہے ،جس کے مطابق الیکسانڈر ڈُوگین کی بیٹی نے بم دھماکے سے چند منٹ قبل ہی اپنے والد سے ضد کرکے گاڑی لی تھی۔ یاد رہے کہ دریا ڈوگینا کا اپنا شمار بھی روس کے قابل صحافیوں اور سیاست دانوں میں ہوتا تھااور وہ بھی اپنے والد کی طرح روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے سیاسی نظریے سے مکمل طور پر اتفاق رکھتی تھیں ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پیوٹن کے بااعتماد ترین ساتھی جناب الیکسانڈر ڈُوگین کو ولادی میر پیوٹن کا دماغ بھی کہا جاتاہے اورپیوٹن کی فیصلہ سازیوں میں بھی وہ کافی حد تک دخیل ہوتے ہیں۔60سالہ الیکسانڈر ڈُوگین بنیادی طور پر مصنف اور فلسفی ہیں اور اُ ن کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ولادی میر پیوٹن کے عالمی نقطہ نظر کو موجودہ شکل اُن کے فکر و فلسفہ سے ہی حاصل ہوئی ہے۔ معروف مغربی جریدے فارن پالیسی نے الیگسانڈر ڈُوگین کو 2014 کے موثر تین ’’عالمی مفکرین ‘‘کی فہرست میں بھی شامل کیا تھا۔ کیونکہ موصوف کو روس کی توسیع پسندانہ پالیسی اور نظریات کا اصل ماسٹر مائنڈ سمجھا جاتاہے۔ الیکسانڈر ڈُوگین نے اُس وقت مقبولیت حاصل کرنا شروع کی تھی ، جب 1990 کی دہائی میں روس سنگین معاشی مسائل کا شکار ہوگیا تھا اور سویت یونین کے زوال کے بعد روسی ریاست میں نظریاتی افلاس پیدا ہوگیا تھا۔ قومی زوال کے اِن مشکل ترین سیاسی لمحات میں الیکسانڈر ڈُوگین نے روس کو ایک بار پھر سے طاقت ور عالمی ریاست بنانے کا نعرہ مستانہ بلند کیا۔
جبکہ 1997 میں انہوں نے اپنی معرکتہ الآرا کتاب ’’فاؤنڈیشن آف جیوپولیٹکس‘‘میں پیش گوئی کی تھی کہ’’ اگر یوکرین نے روس کے سامنے فوری طور پر سرتسلیم خم نہیں کیا تو عن قریب یوکرین کے سرزمین پر زبردست خون ریزی ہوگی‘‘۔نیز، مذکورہ کتاب میں ڈوگین نے یوکرین کی خود مختاری اور اُس کے توسیع پسندانہ عزائم کو روس کے لیے سخت خطرہ قرار دیتے ہوئے تجویز پیش کی تھی کہ’’ یوکرین کو نیم خود مختاری دے کر اُسے باقاعدہ روس کا حصہ بنا دینا چاہئے ، بالکل ویسے ہی جیسے یوکرین روسی زار کے دور میں یا سوویت یونین کے زمانہ میں ہوا کرتا تھا‘‘۔ علاوہ ازیں الیکسانڈر ڈُوگین پورے شد و مد کے ساتھ اپنی ہر تحریر و تقریر میں اس نظریہ کے بھی داعی رہے ہیں کہ ’’فی الوقت،عظیم روسی افواج، اُن آزاد ریاستوں سے برسرِ پیکار ہے ،جو یک قطبی نظام کو دنیا بھر خاص طور پر روس پر مسلط کرنے کے لیئے امریکا کا ساتھ دے رہی ہیں ۔ لہٰذا ہم یہ جنگ کسی بھی صورت ہارنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ بصورت دیگر دنیا ایک مرتبہ پھر سے آگ و خون کے دریا میں ڈوب جائے گی‘‘۔ بظاہر وہ اِس وقت بھی روس کی حکومت میں کوئی سرکاری عہدہ نہیں رکھتے لیکن اِس کے باوجود انہیں روس کی موثر ترین اور طاقت ور شخصیات میں سے ایک قراردیا جاتاہے۔
شاید یہ ہی وجہ ہے کہ امریکی حکومت الیکسانڈر ڈُوگین کے نظریات کو خطے میں اپنے توسیع پسندانہ مفادات کے لیے ہمیشہ سے سخت خطرے کا باعث سمجھتی رہی ہے۔ 2015 میں امریکی حکومت نے ڈوگین پر کریمیا کے روس میں انضمام میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام کو جواز بنا کر پابندی عائد کردی تھی، جو آج تک بدستور قائم ہے۔ویسے تو ڈوگین کی صاحب زادی ،محترمہ دریا ڈوگینا کے جاں بحق ہونے کی اندوہناک خبر بھی پیوٹن انتظامیہ کے لیے سخت صدمہ کا باعث ہوگی، لیکن اگر حالیہ بم حملہ میں پیوٹن کے دستِ راست اور اُن کے ہم دم دیرینہ الیکسانڈر ڈُوگین ہلاک ہوجاتے تو یقینا پیوٹن کی سیاسی و دفاعی حصار کوناقابل تلافی نقصان ہوتا۔ بہرکیف حالیہ واقعہ سے کم ازکم ایک بات توپوری طرح سے ثابت ہوجاتی ہے کہ روس، اَب ایک ناقابل تسخیر قلعہ ہرگز نہیں رہا ہے اور ماسکو کی داخلی سالمیت کو بھی بھی اتنے ہی سنگین خطرات لاحق ہیں ،جتنے کے دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کے دارلحکومت کو درپیش ہوسکتے ہیں ۔ قوی امکان تو یہ ہی ہے کہ مذکورہ واقعہ کے بعد روس کی سلامتی کے ذمہ دار ادارے فوری طور پر حرکت میں آگئے ہوں گے اور ایسے اقدامات بھی اُٹھالیئے گئے ہوں گے کہ جن کے بعد ولادی میر پیوٹن اور اُس کے ساتھیوں کو نشانہ بنانا بیرونی طاقتوں کے لیے ممکن نہ رہے ۔
لیکن کیا ولادی میر پیوٹن اور اُس کے احباب کی زندگیاں بیرونی و اندرونی خطرات سے مکمل طور پر محفوظ ہیں ۔ شاید ایساپورے وثوق کے ساتھ کہنا کسی تجزیہ کار کے لیئے بھی ممکن نہ ہوگا کیونکہ جب ایک ریاست، گزشتہ 6 ماہ سے مسلسل حالتِ جنگ میں ہوتو پھر اُس ملک کی مقبول سے مقبول سیاسی قیادت کے خلاف ملک کے اندر سے بھی مزاحمتی اور مخالفانہ آوازیں بلند ہونا شروع ہوجاتی ہیں ۔ سادہ الفاظ میں یوں جان لیجئے کہ جنگ شروع کرنے کے بعد اُسے جلد ازجلد اپنے منطقی انجام تک پہنچانا بھی ایک فاتح رہنما کے لیئے ازحد ضروری ہوتاہے۔ یقینا روس ، یوکرین جنگ کا فاتح پیوٹن ہی ہے ۔لہٰذا ہمارا ،ولادی میر پیوٹن کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ جلدازجلد یوکرین میں اپنی فتح کا اعلان کرکے ،وہاں سے جنگ کا بوریا بستر لپیٹے اور روسی افواج کو وطن واپسی کی راہ دکھائے ۔تاکہ اُس کے لیئے بھی یوکرین کی فتح کا مزہ برقرار رہے ۔کیونکہ تاریخ کا سبق یہ ہی ہے کہ جنگ کی غیر معمولی طوالت فاتح کے لیے آنے والے وقت میں اَن گنت اور پریشان کن مسائل کا سبب بن جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔