... loading ...
دوستو،ایک خبر کے مطابق امریکی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ لمبی اور بھرپور نیند لینے والے بچوں کے لیے بعد کی عمر میں موٹاپے کا خطرہ بھی کم ہوتا ہے۔آن لائن ریسرچ جرنل ’’سلیپ‘‘ میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق، ماہرین نے میساچیوسٹس جنرل ہاسپٹل میں 2016 سے 2018 کے درمیان پیدا ہونے والے 298 بچوں کو اس مطالعے کے لیے رجسٹر کیا۔بچوں میں سونے جاگنے کے اوقات پر نظر رکھنے کیلیے انہیں ہلکی پھلکی اسمارٹ گھڑیاں پہنائی گئیں جبکہ ان کے والدین سے کہا گیا کہ وہ بھی ان بچوں کے کھانے پینے اور سونے جاگنے کے روزمرہ معمولات کی ڈائری مرتب کریں۔اس دوران دیکھا گیا کہ جن بچوں نے شام 7 بجے سے صبح 8 بجے کے درمیان سکون کی نیند لی، آئندہ دو سے تین سال میں ان کا وزن معمول کے قریب رہا۔ماہرین کو یہ بھی معلوم ہوا کہ شام سے صبح تک کے ان مخصوص اوقات میں ہر ایک گھنٹے کی اضافی نیند کے نتیجے میں شیرخوار بچوں کے لیے موٹاپے کا امکان 26 فیصد کم ہوا۔مقالے کی شریک مصنفہ ڈاکٹر سوزین ریڈلائن کے مطابق، یہ بچوں میں نیند اور موٹاپے کے حوالے اب تک کی سب سے محتاط تحقیق بھی ہے کیونکہ اس میں صرف والدین کی فراہم کردہ معلومات پر انحصار نہیں کیا گیا بلکہ بچوں پر اسمارٹ واچز کے ذریعے بھی نظر رکھی گئی۔
سردی کے موسم میں تقریبات میں جائیں تو مردوں نے بھاری بھرکم کوٹ اور جیکٹس وغیرہ پہن رکھی ہوتی ہیں جبکہ خواتین ایسے میں بھی سردی کا کم اور اپنے فیشن کا زیادہ خیال کرتی ہیں اور ایسے ملبوسات پہنے نظر آتی ہیں جیسے انہیں سردی لگتی ہی نہ ہو۔ اب ماہرین نے بھی اس حوالے سے ایک دلچسپ انکشاف کر دیا ہے۔ دی سن کے مطابق رواں سال اگست میں برٹش جرنل آف سائیکالوجی میں ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع ہوئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ خواتین کو واقعی مردوں کی نسبت کم سردی لگتی ہے اور اس کا تعلق نفسیات سے ہوتا ہے۔ اس تحقیقاتی ٹیم کی ایک رکن روزینی فیلنگ نے اب اپنے ٹک ٹاک اکائونٹ پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں اس حوالے سے بتایا ہے کہ خواتین کے لیے سردی لگنے سے زیادہ یہ بات اہم ہوتی ہے کہ وہ کتنی خوبصورت نظر آتی ہیں۔ ہماری تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ جب ہم کسی ایک چیز پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کرتے ہیں اور اسے اولین ترجیح بنا لیتے ہیں تو ہمارے جسم کی دیگر انتہائی ضرورتیں بھی پس پشت چلی جاتی ہیں۔ یہی صورتحال خواتین اور انہیں سردی کم لگنے کے معاملے میں ہوتی ہیں۔ خواتین کے لیے پہلی ترجیح خوبصورت نظر آنا ہوتا ہے، وہ کتنی بھوکی ہیں اور انہی کتنی سردی لگتی ہے وغیرہ جیسی باتیں ان کے لیے ثانوی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین کو سردی کم محسوس ہوتی ہے۔
یورپی پارلیمنٹ میں کمپیوٹر سائنس اور مصنوعی ذہانت کے ماہرین پر مشتمل ایک پینل نے خبردار کیا ہے کہ جدید ’ڈِیپ فیک‘ ٹیکنالوجی مستقبل میں جمہوریت کے لیے بھی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔واضح رہے کہ مصنوعی ذہانت (اے آئی/ آرٹیفیشل انٹیلیجنس) کے شعبے میں ’ڈِیپ فیک‘ کہلانے والی ٹیکنالوجی کے ذریعے کسی بھی شخص کی بالکل اصل جیسی نقلی آواز اور ویڈیو تیار کی جاسکتی ہے۔یہ نقلی آواز اور ویڈیو اصل سے اتنی قریب ہوتی ہے کہ عوام سے لے کر قانون نافذ کرنے والے اداروں تک کو دھوکا دے سکتی ہے۔یورپین پارلیمنٹ کیلیے یہ تفصیلی رپورٹ جرمنی کے کارلسروہے انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی قیادت میں مرتب کی گئی ہے جس کی تیاری میں ہالینڈ اور جمہوریہ چیک کے تحقیقی اداروں سے وابستہ ماہرین بھی شریک رہے ہیں۔رپورٹ میں مصنوعی ذہانت کے مثبت پہلوؤں کو سراہتے ہوئے خبردار کیا گیا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ڈِیپ فیک ٹیکنالوجی مسلسل ترقی کرتی جارہی ہے جس کی وجہ سے اصل اور نقل میں فرق کرنا بھی مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ماہرین نے اس رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مستقبل میں ڈِیپ فیک کے ذریعے ایسی جعلی ویڈیو اور آڈیو کلپس ممکن ہوں گی کہ جنہیں دنیا کا بہترین نظام بھی شناخت نہیں کر پائے گا۔یہ جعلی ویڈیو/ آڈیو کلپس عدالتی کارروائی سے لے کر انتخابات اور دوسری جمہوری کارروائیوں تک کو گمراہ کرکے غلط اور ناپسندیدہ نتائج کی راہ ہموار کرسکتی ہیں۔بہ الفاظِ دیگر، ڈِیپ فیک کی مسلسل ترقی سے پوری دنیا میں جمہوریت تک کو شدید خطرہ ہے جس کا تدارک کرنے کیلیے مناسب قانون سازی اور ضابطہ اخلاق نافذ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
اس حوالے سے جب باباجی سے ان کی رائے لی گئی کہ ڈیپ فیک کے بارے میں ان کا کیا نظریہ ہے؟ تو باباجی نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے پٹاخے دار آواز نکالتے ہوئے کہا۔۔ یورپ میں تو ڈیپ فیک اب آیا ہے ہم تو برسوں سے ڈیپ فیک برداشت کررہے ہیں، ہم نے حیران ہوکر باباجی سے پوچھا۔۔وہ کیسے باباجی ؟ کیا ڈیپ فیک ٹیکنالوجی ہمارے ملک میں پہلے سے ہے؟ باباجی ہمارا سوال سن کرمسکرائے اور کہنے لگے۔۔ ملک بھر میں پھیلے ہوئے بیوٹی پارلرز کیا ہیں؟ یہ سب ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کے موجد ہیں۔۔ عورتوں اور لڑکیوں کو کیا سے کیا بنادیتے ہیں؟ شوہر بھی دھوکا کھاجاتے ہیں۔۔پھر ہمارے ملک میں سیاست دان کیا ہیں؟ سارے ہی ’’ ڈیپ فیک ‘‘ ہیں، کہتے کچھ، کرتے کچھ ہیں۔۔ ان لوگوں کا ایک چہرہ عوام کے لیے ہوتا ہے ،دوسرا نجی محافل میں ہوتا ہے۔ ۔ہم نے باباجی کی باتیں سنی تو بہت غور سے لیکن سمجھ بالکل نہ آسکی کہ باباجی کہنا کیا چاہ رہے ہیں؟؟۔۔ ایک بد مست شرابی نے سر راہ ایک عور ت سے کہا ۔۔تم دنیاکی سب سے بھدی اور بد صورت عورت ہو۔۔ عورت ناک چڑھا کر بولی۔۔ اور تم دنیا کے سب سے زیادہ نشہ باز ہو۔۔ شرابی نے کاندھے اچکاتے ہوئے کہا۔۔ لیکن میرا نشہ تو صبح تک اتر جائیگا۔۔۔کسی نمازی نے نمازجمعہ کے بعد مولوی صاحب سے سوال کیا۔۔اگر بیگم میک اپ کر کے آپ سے پوچھے۔۔کیسی لگ رہی ہوںتو کیا جھوٹ بولنا جائز ہے؟۔۔مولوی صاحب نے نمازی کو پہلے اوپر سے نیچے تک اچھی گھورا، پھر سفید داڑھی میں انگلیوں سے خلال کرتے ہوئے مسکرائے اور کہنے لگے۔۔ شرعی حکم تو یہ ہے کہ خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو، آگے آپ کی اپنی مرضی ہے۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔شیخ سعدی سے ایک ظالم حکمران نے کہا، مجھے کچھ نصیحت کیجئے۔۔شیخ سعدی نے فرمایا! دوپہر کو دو گھنٹے سو جایا کر تاکہ عوام کو زرا دیر کو تجھ سے نجات ملے۔۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔