... loading ...
قومی مکالمہ وقت کی ضرورت قرار دیتے ہوئے شہبازشریف نے نقطہ آغاز میثاقِ معیشت کوبنانے کی تجویز دی ہے اِس میں شائبہ نہیں کہ معاشی خودمختاری کے بغیر حقیقی آزادی نامکمل ہے معاشی تباہی کے حوالے سے سیاسی قیادت ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہراتی رہتی ہے لیکن معا شی تباہی میں کسِ کا کتنا کردار ہے؟ اِس کا تعین تو آج تک نہیں ہو سکا مگر خرابی اِس حد تک بڑھ گئی ہے کہ وقت ضائع کیے بغیر قیادت کواب کسی ایسے لائحہ عمل متفق ہوجانا چاہیے جس سے ملک کی معیشت بہتر ہو اِس کے لیے قومی مکالہ ناگزیر ہے اِس طرح سب تجاویز پیش کرنے کا موقع ملنے کے ساتھ زمہ داران کا تعین بھی ہو سکتا ہے اگر زمہ داران کاتعین ہوجائے تو قوم کو محاسبے کرنے میں آسانی ہوگی کیسی نااہلی و نالائقی ہے کہ ایک جوہری طاقت کے سربراہان ،عسکری قیادت اور وزرا ء تک بیرونی قرضوں کے حصول کے لیے سرگرداں ہے مگر امیر ممالک اور عالمی اِدارے قرض دینے سے پس و پیش سے کام لے رہے ہیں کیونکہ گزشتہ کئی دہائیوں سے ملک سخت معاشی بدحالی کا شکار ہے پرویز مشرف کی آمریت کے دوران بین الاقوامی معاشی تجزیہ کارپاکستان کا شمار دنیا کی اُبھرتی ہوئی معیشتوں میں سرِ فہرست کرتے تھے مگرآج جمہوریت کا ثمر یہ ہے کہ برآمدات تشویشناک حد تک کم ہو چکی ہیں اور درآمدات پرانحصار بڑھتا جارہا ہے پہلے پیٹرول مصنوعات کی درآمدپر اُٹھنے والے اخراجات زرِ مبادلہ پر بوجھ تھے اب تو خوراک میں خود کفالت سے محرومی کی بناپر گندم ،تیل ،چینی جیسی اجناس درآمدکرنے پر اربوں ڈالر خرچ ہونے لگے ہیں جس کی وجہ زرعی رقبہ رہائشی منصوبوں کی نظر ہونا ہے عالمی بینک کے ماہرین سندھ حکومت کی توجہ لاکھوں ایکڑزرعی اراضی کو سیم اور تھور سے بچانے کے لیے کثیر الجہتی منصوبوں کی طرف مبذول کر چکے ہیں مگرکسی کو پرواہ تک نہیں اِس لیے ضرورت اِس امرکی ہے کہ میثاقِ معیشت کی تجویز دیتے وقت بات چیت صرف سیاسی افہام و تفہیم تک محدودنہ رہے بلکہ معاشی بحالی کی قابلِ عمل اور نتیجہ خیز تجاویز پر عمل بھی کیا جائے۔
پی ٹی آئی نے توجہ دیے بغیر میثاقِ معیشت کی حکومتی تجویز کو احمقانہ قرار دے کر مسترد کر دی ہے اور افہام و تفہیم کی کسی کوشش کا حصہ بننے سے انکار کرتے ہوئے ملک گیر تحریک شروع کرنے کا اعلان کردیاہے سیاسی جماعتیں عوام کی توجہ حاصل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں مگر جب ملک وقوم کی بات ہو تو ضداور ہٹ دھرمی پر ثابت قدم رہنے کا کوئی جواز نہیں رہتا تحریکِ انصاف کے خیال میں حکومت چند ہفتوں کی مہمان ہے تو کیا یہ چند ہفتے بھی کام کیے بغیر گزار دینا ٹھیک ہے ؟اگر حکومتی معاشی پالیسیاں تباہ کُن ہیں جن کی حمایت کرنا مناسب نہیں تو بہتر ہے کہ ایسی اچھی تجاویز پیش کی جائیں جن سے معاشی بہتری کی منزل حاصل ہوتجاویز کے اچھے نتائج آنے سے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کو ثمرات مل سکتے ہیں مگر بدقسمتی سے ملک کی سیاسی قیادت میں افہام و تفہیم کے امکانات اِس حد تک معدوم ہیں کہ یہ ملک و قوم کی بہتری کے لیے بھی مل بیٹھنے کو تیار نہیں جس سے کسی اور کی نہیں سیاسی قیادت کی اپنی ساکھ ہی متاثر ہو رہی ہے کیونکہ معاشی بدحالی سے ملک میں انتشار وافراتفری بڑھ رہی ہے اورقیادت کی طرح سیاسی کارکن میں بھی اختلافِ رائے برداشت کرنے کوتیار نہیں یہ طرزِ عمل اور سیاسی پراگندگی کسی طور جمہوریت کی خدمت نہیں۔
ملک کی معاشی حالت اِس قدر خراب ہے کہ بیشتر عالمی اِدارے تک مایوسی کا اظہار کرنے لگے ہیں عملی طور پر دیوالیہ ہونے کے خطرات منڈلارہے ہیں اِن خطرات کا تقاضا ہے کہ سیاست سے بالاتر ہوکر معاشی بحالی کو اولیں ترجیح بنایا جائے اگر نامساعد حالات کے باوجود ملک جوہری طاقت بن سکتا ہے تو معاشی طاقت بننے کی منزل حاصل کرنا بھی کوئی مشکل نہیں بس قیادت کے اخلاص کی ضرورت ہے ملک میں وسائل کی قلت نہیں نوجوان افرادی قوت انمول اثاثہ ہے افسوس کہ قیادت میں وسائل اور افرادی قوت کو استعمال کرنے کا ہُنر نہیں ہمارا تعلیمی نظام محض کلرک پیداکرتا ہے معاشی تنزلی سے ملک میں مہنگائی ،بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہوتاجارہا ہے پھر بھی سیاسی قیادت مسائل کا حقیقی حل تلاش کرنے سے انکاری ہے تو عوام یہی پیغام لیں گے کہ انھیں ملک و قوم سے نہیں محض اقتدار سے غرض ہے عوامی مسائل سے ایسی بے نیازی کو کسی حوالے سے بھی ہمدردی کا پیراہن نہیں پہنایا جا سکتا۔
صدرِ مملکت عارف علوی نے شہبازشریف کی طرف سے عمران خان سے بات چیت پر آمادگی کا ذکرکرتے ہوئے مثبت جواب ملنے پر کردار داکرنے کی پیشکش کر چکے ہیں اِ ن حالات میںسوچنے والی بات یہ ہے کہ بدترین معاشی حالات کے باوجود کیاسیاستدانوں کے لیے زیادہ اہم سیاست ہی ہے؟ا گرکوئی ہاں میں جواب دیتا ہے تویہ کسی طور ملک یا عوام سے خیر خواہی نہیں کیونکہ خیرخواہی تو یہ ہے کہ ملک اور قوم کے مفاد کی بات ہو تو سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر تعاون کیا جائے کٹھن حالات کے باوجوداگرپاکستان جوہری قوت بن سکتا ہے تو معاشی بحالی بھی ممکن ہے مگر اِس وقت حالات یہ ہیں کہ پاکستان دنیا کی ساتویں جوہری قوت ہے لیکن قرضوں کی اقساط کی ادائیگی کی سکت تک سے محروم ہے یہ مالی محتاجی کی بدترین سطح ہے جس کی ایک وجہ سیاسی قیادت کی بدعنوانی ہے قرض کی رقوم کو غیر پیداواری منصوبوں پر خرچ کرنے کا نتیجہ ہے کہ آج تک معاشی خود مختاری کی منزل حاصل نہیں ہو سکی حالانکہ پاکستانی عوام ہر مقصد کو حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے 1947 میں دنیا کی سب سے بڑی مہاجرت کی آبادکاری سے لیکردہشت گردی کی جنگ جیتنے کے مقاصد بھی اتفاقِ رائے سے ہی حاصل ہوئے مگر کسی نے معیشت کی طرف دھیان نہ دیا سیاسی مفاد کی آسیر قیادت کی ناقص پالیسیوں اور درست رہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے ملک معاشی گرداب میں پھنس چکا ہے کاش اب بھی قیادت ملکی معیشت کو بہتر بنانے کے نُکتے پرہی اتفاق کرلے ۔
حالات یہ ہیں کہ مغربی ممالک میں پاکستانی برآمدات کے وسیع مواقع ہیں لیکن ہمارے پاس برآمد کرنے کے لیے کچھ زیادہ نہیں امریکی سفیر نے پاک امریکاباہمی تجارت نو ارب ڈالر تک پہنچنے کی نویدتو سنائی ہے لیکن گزشتہ چند برسوں سے برآمدات میں کمی اور درآمدات میں اضافے کا رجحان دیکھنے میں آرہا ہے معاشی بدحالی اِس حد تک ہے کہ قومی معیشت میں امید افزابہتری کے پیمانے تک تبدیل ہو چکے ہیں پہلے ڈالر کی قیمت بڑھائی جاتی ہے پھر چند روپے کمی سے بہتری ظاہر کردی جاتی ہے کئی ہفتے اسٹاک ایکسچینج میں مندی کے بعد تھوڑی سی بہتری دکھائی دے تو رونقیں بحال ہونے کی باتیں کی جانے لگتی ہیں آئی ایم ایف سمیت عالمی مالیاتی اِداروں کاقرض دینے پر آمادگی کے اظہار پر خوشی کے شادیانے بجائے جاتے ہیں چین،سعودی عرب اور یواے ای سے مالی تعاون ملنے کو کامیابی کاپیمانہ تصورکیا جاتا ہے حالانکہ یہ وقتی سہارے ہیں قیادت تو محدود سیاسی کامیابی یا وقتی معاشی سہاروں کی بجائے آنے والی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ اور خوشحال بنانے پر توجہ دیتی ہے مگر ہمارے ملک میں ابھی تک کوئی ایسی روایت قائم نہیں ہو سکی میثاقِ معیشت کی تجویزاِس حوالے سے بہت اہم ہے کہ یہ حکمران جماعت کی طرف سے آئی ہے جس کا مثبت جواب ملناضروری ہے قوم کو تقسیم در تقسیم کی بجائے معاشی سرگرمیوں کے لیے سیاسی استحکام نہایت اہم ہے دہشت گردی کو شکست دینے کی طرح اگر سیاسی قیادت ملک کو معاشی طور پر خود مختار بنانے کے نُکتے پر یکسو ہو جائے تو پاکستان جو ہری کے ساتھ معاشی طاقت بن سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔