وجود

... loading ...

وجود

عساکر پاکستان کے خلاف ’’پروپیگنڈا مہم‘‘ ناقابلِ قبول ہے

پیر 15 اگست 2022 عساکر پاکستان کے خلاف ’’پروپیگنڈا مہم‘‘ ناقابلِ قبول ہے

کوئی مانے یا نہ مانے لیکن سچ یہ ہی ہے کہ قدرتی آفت یا ناگہانی مصیبت میں بے زبان ،حیوان بھی آپسی دشمنی ترک کرکے ایک دوسرے سے تعاون پر آمادہ ہوجاتے ہیں ۔یقینا کئی بار آپ کو بھی گوٹھ، دیہات میں آباد آپ کے کسی دوست اور عزیز نے کبھی نہ کبھی پوری صراحت کے ساتھ اپنا چشم دید واقعہ بیان کرتے ہوئے بتایا ہوگا کہ کس طرح ایک سانپ نے سیلاب کے پانی میں ڈوبنے سے نیولے کی جان بچائی یا کیسے جنگل میں آگ لگنے کے بعد ایک بھیڑیے نے سلگتے چناروں سے بچنے میں ڈرے ،سہمی ہرن کو مدد بہم پہنچائی ۔دراصل دنیا کے ہر جاندار کو بخل جاں پر پیدا کیا گیا ہے اور شاید یہ ہی وجہ ہے کہ مصیبت اور آفت سے بچنے یا نمٹنے کے لیے جانور بھی اپنے فطری دشمنی کو یکسر فراموش کر کے فوری طور پر ایک دوسرے کی مدد پر آمادہ و کمر بستہ ہوجاتے ہیں ۔ ذرا سوچئے! کہ جب ایک عقل سے عاری حیوان قدرتی مصیبت یا آفت کے وقت اپنے دوسرے ہم جنس کا اس قدر لحاظ کرتا ہے تو کیا ہم انسانوں کو قدرتی آفات نازل ہونے پر آپسی اختلافات بھلا کر ایک دوسرے کی طرف دستِ تعاون دراز نہیں کرنا چاہیے؟۔
اُصولی طور پر تو اِس سوال کا جواب ’’ہاں‘‘ میں ہی ہونا چاہئے اور ابنِ آدم کو بھی کسی ناگہانی آفت یا مصیبت کی ہر سنگین صورت حال میں اتحادو یگانگت اور ایثار کا ہی مظاہر ہ کرنا چاہئے ۔لیکن یہاں بڑے ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ گزشتہ تین ،چاربرسوں میں ہماری قومی سیاست اِس درجہ گراوٹ اور پستی تک جا پہنچی ہے کہ اَب تو ہم قدرتی آفات کے نتیجے میں پیش آنے والے قومی سانحات کو بھی اپنی زہریلی سیاست کا نشانہ بنانے سے باز نہیں آتے۔ مثال کے طور پر چند ہفتہ قبل بلوچستان میں بارش کی ہولناک تباہ کاریوں کے شکارہم وطنوں کی مدد کے لیے جاری امدادی سرگرمیوں کی بذات خود نگرانی میں مصروف کور کمانڈر کوئٹہ اور ان کے پانچ ساتھیوں کی ہیلی کاپٹر حادثے میں شہادت پر ایک سیاسی جماعت کے حامیوں نے سوشل میڈیا پر پاک فوج کے خلاف جو نفرت انگیز مہم چلائی ہے ۔ اُسے ملاحظہ کرنے کے بعد جہاں ہر باشعور پاکستانی کی روح کانپ گئی ہے ، وہیں سنگ دلی اور بے حسی پر مبنی اِس معاندانہ پروپیگنڈا مہم نے شہداء کے عزیز و اقارب اور بحیثیت مجموعی تمام افواج پاکستان کے قلب و جگر کو بھی پارہ پارہ کرکے رکھ دیا ہے۔
واضح رہے کہ سانحہ لسبیلہ ہیلی کاپٹر حادثہ و شہداء کے بارے میں سوشل میڈیا پر منفی پراپیگنڈہ مہم چلانے والوں اور اُن کے سہولت کاروں کا سراغ لگانے کے لیے تشکیل دی جانے والی ایف آئی اے سائبر کرائم و انٹیلیجنس ادروں پر مشتمل جوائنٹ انکوائری ٹیم کی تحقیقات میں بھی بڑی اہم پیش رفت سامنے آئی ہے اورجے آئی ٹی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ سوشل میڈیا پر سانحہ کے بعد منفی پراپیگنڈہ کرنیوالوں کے تانے بانے پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارت سمیت دیگر بیرون ممالک سے بھی ملتے ہیں اور مجموعی طور پر 774 سوشل میڈیا اکائونٹس کا سراغ لگا لیا گیا ہے، جن میں سے 204پاکستان 17ہندوستان اور 16دیگر ممالک سے چلائے جا رہے تھے۔جبکہ ایک سیاسی جماعت کی اسٹوڈنٹ ونگ سے وابستہ کئی نوجوانوں نے بھی اس منفی مہم کی تمام ذمہ داری قبول کرتے ہوئے معذرت کے بیانات جاری کیے ہیں۔
سیاست کی آڑ میں اور اظہار رائے کی آزادی کے نام پر چلائے جانے والی یہ مہم اِس قدر، تعفن زدہ اور زہریلی تھی کہ اس کے تریاق کے لیے عساکر پاکستان کے ترجمان نے اپنے تئیں شہداء کے لواحقین کی تسلی و تشفی اور اُن کے جذبات کا مقدور بھر اظہار اِن الفاظ میں کرنے میں کی کوشش کی کہ ’’ہیلی کاپٹر حادثے کے بعد مشکل اور تکلیف دہ وقت میں پوری قوم افواج پاکستان کے ساتھ کھڑی تھی لیکن کچھ بے حس حلقوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر تکلیف دہ او ر توہین آمیز مہم جوئی کی گئی، یہ رویے قطعی ناقابل قبول اور شدید قابل مذمت ہیں‘‘۔عساکر پاکستان کے ترجمان کا مذکورہ بیان جہاں ہمارے ملّی جذبات کی ترجمانی قرار پایا، وہیں یہ بیان شہداء کے خلاف بے بنیاد منفی پروپیگنڈا کرنے والوں کی پشت پر تازیانے کی مانند برسا، اور اُن کی شکست خورہ چیخ و پکارآسمان دنیا تک سنائی دی جانے لگی۔خاص طور پر پوری پاکستانی قوم نے سانحہ لسبیلہ ہیلی کاپٹر حادثہ و شہداء کے بارے میں سوشل میڈیا پروپیگنڈا مہم چلانے والوں کے خلاف جس طرح کے شدید غم و غصہ اور اپنی نفرت کا اظہار کیا ۔اُس عوامی ردعمل نے پروپیگنڈا مہم کے سہولت کاروں کو لایعنی قسم کی وضاحتیں اور تردیدیں عوام کے سامنے پیش کرنے پر مجبور کردیا۔
لیکن یہ وضاحتیں ہر دردِ دل رکھنے والے پاکستانی کے لیئے اِس لیئے قطعی طور پر ناقابل قبول ہیں کہ اِس مہم کی حامی و پشت پناہ واحد سیاسی جماعت کی جانب سے ہیلی کاپٹر سانحہ کے بعد چار پانچ روز تک فوج کے خلاف بے بنیاد منفی پروپیگنڈہ روکنے کے لیے کوئی عملی کاوش نہیں کی گئی ۔بلکہ اس منفی مہم میں ملکی سلامتی کے سنگین خطرات کو جنم دینے والا یہ جھوٹا پروپیگنڈہ بھی ساتھ ہی نتھی کردیا گیا کہ’’ کابل میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کو نشانہ بنانے والا ڈرون پاکستان سے اُڑا تھا‘‘ ۔اِن لوگوں کی دریدہ دہنی اور ذہنی افلاس کی انتہا دیکھئے کہ جب عساکر پاکستان کے ترجمان نے اُن کے سوشل میڈیا پر پھیلائے گئے جھوٹے الزام کی واضح اور دوٹوک انداز میں تردید کردی تو اُ نہوں نے اُس تردیدی بیان کو بھی سوشل میڈیا پر اپنی مرضی اور مذموم خواہشات کے معنی و مفہوم پہنانے شروع کردیے۔ بدقسمتی کی بات تو یہ ہے کہ آج بھی یہ کور چشم لوگ سانحہ لسبیلہ ہیلی کاپٹر حادثہ و شہداء کے بارے میں کیئے گئے اپنے منفی پروپیگنڈے کی مختلف تاویلیں ، تشریح اور جواز گھڑنے میں مصروف ہیں ۔
دراصل اَب اِن کا اصرار یہ ہے کہ چونکہ ماضی میں پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتوں سے وابستہ سرکردہ افراد پاک فوج کے خلاف دشنام طرازی میں کسی نہ کسی صورت اور انداز میں ملوث رہے ہیں ۔لہٰذا ،ماضی کی ’’سیاسی رعایت‘‘ سے اُنہیں بھی کم ازکم یاوہ گوئی ،طعنہ زنی اور سب و شتم کی اجازتِ عام دے دی جائے ۔اگر عقل و شعور سے پیدل اِن لوگوں کی یہ بودی دلیل قبول کرلی جائے تو پھر ہمیں اپنے سماج میں چور کو چوری کا اور قاتل کو قتل کرنے کا بھی قانونی طور پر اِذنِ عام دینا ہوگا۔ کیونکہ ماضی قریب و بعید میں ہر معاشرے میں ،ہرملک و ملت کے سرکردہ افراد چور ی اور قتل میں ملوث رہ چکے ہیں ۔ بہرکیف ہم تو بس اتنا جانتے ہیں کہ عساکر پاکستان کے خلاف دریدہ دہنی کرنے والے افراد کا ماضی ،حال اور مستقبل کے کسی بھی زمانی پیمانہ سے کیوں نہ ہو ،پاکستانی عوام کے نزدیک وہ سب افراد بلاکسی سیاسی و مذہبی تفریق کے قابل مذمت تھے ،ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔بقول طارق قمر
جو تخت و تاج پر تنقید کرتے پھرتے ہیں
یہ سارے لوگ ہیں دربار سے نکالے ہوئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر