... loading ...
یہ سوال بعض حالیہ واقعات کے بعد شدت سے اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ کیا برادارن وطن کی برداشت اتنی کمزور ہوگئی ہے کہ وہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کو عبادت کرتے ہوئے دیکھ کر پریشان ہواٹھتے ہیں اور اس سے امن میں خلل اورفرقہ وارانہ ہم آہنگی متاثر ہونے کا اندیشہ پیدا ہوجاتا ہے۔یہ اور اس قسم کے بعض دوسرے پریشان کن سوالات حال ہی کچھ واقعات کے بعد پیدا ہوئے ہیں۔ کئی شہروں میں عوامی مقامات پرنمازپڑھنے والوں کو گرفتار کرکے نقص امن کے اندیشے کے تحت جیل بھیج دیا گیا ہے۔ بیشتر واقعات میں اس قسم کی رپورٹیں حکمراں بی جے پی اور سنگھ پریوار کی دیگر تنظیموں نے درج کرائی ہیں اور پولیس نے فوراحرکت میں آکر سخت کارروائی کی ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ جو نمازصدیوں سے مجبوری کی حالت میں عوامی مقامات پر ادا کی جاتی رہی ہے، وہ آج امن وامان کے لیے خطرہ کیسے بن گئی ہے۔ یہاں تک کہ علمائے کرام کو یہ کہنا پڑا ہے کہ آج کے پرفتن حالات میں اگر کسی عوامی جگہ پر نمازادا کرنے میں کسی نقصان کا اندیشہ ہو تو گھر جاکر قضا نماز ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اس معاملہ کے طول پکڑنے کی وجہ گزشتہ دنوں لکھن کے ایک نوزائیدہ مال میں نمازپڑھنے والوں پر قانونی کارروائی ہے۔اس کے بعد مسلسل خبریں آرہی ہیں کہ فلاں شخص فلاں جگہ نماز پڑھتے ہوئے پکڑا گیا اور پولیس نے اسے نقص امن کے اندیشے کے تحت گرفتار کرکے جیل بھیج دیا۔اس قسم کی خبریں اترپردیش اور اس کی پڑوسی ریاست اتراکھنڈ سے تواتر کے ساتھ موصول ہورہی ہیں۔ سب سے تازہ واقعہ میرٹھ شہر کا ہے، جہاں ایک کمپلیکس میں نمازپڑھنے کا ویڈیو سامنے آنے کے بعدکھلبلی مچی ہوئی ہے۔ بی جے پی آئی ٹی سیل کے ضلع کنوینر دگوجے سنگھ نے ٹویٹر پر مذکورہ ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے کہلکھن کے لولو مال کی طرح میرٹھمیں واقع ایس ٹو ایس اسکوائر کمپلیکس میں نماز پڑھتا ہوا شخص۔ بی جے پی آئی ٹی سیل کے کنوینر نے یہ ٹوئٹ میرٹھ کے ڈی ایم اور اور مقامی پولیس کو بھی ٹیگ کیا ہے تاکہ وہ اس کے خلاف کارروائی کرسکیں۔ اس ٹوئٹ کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوا کہ بی جے پی آئی ٹی سیل پولیس کو کسی مجرمانہ سرگرمی کی اطلاع دے رہی ہو۔میرٹھ پولیس نے اس ٹوئٹ کے جواب میں کہا ہے کہ اس نے متعلقہ تھانہ انچارج کو ضروری کارروائی کی ہدایت دے دی ہے۔تھانہ انچارج کو اس معاملے میں جانکاری ملی ہے کہ کمپلیکس کی ایک دکان میں کام چل رہا تھا اور نمازکا وقت ہونے پر کسی دکاندار نے نماز پڑھ لی ہوگی۔اس سے قبل ہریدوار سے یہ خبر آئی تھی کہ بازار میں نمازپڑھنے پر پولیس نے آٹھ لوگوں کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا ہے۔ ہریدوار کے ڈی ایس پی کے مطابق بارش کی وجہ سے ان لوگوں نے بازار میں ہی نماز پڑھی تھی۔ کچھ لوگوں نے اس پر اعتراض جتایا تو پولیس کی طرف سے کارروائی کی گئی۔بعد میں انھیں ضمانت پر رہا ضرور کردیا گیا مگر ان کے خلاف مقدمہ چلتا رہے گا۔
اس قسم کی خبریں ایک ایسے دور میں آرہی ہیں جب اترپردیش اور اتراکھنڈ میں ایک مہینہ طویل کانوڑیاترائیں مصروف شاہراں سے گزر رہی ہیں اور ان یاتریوں کی نقل وحرکت کے تحفظ کے پیش نظر ٹریفک روک دیا گیا ہے۔کانوڑیوں کے تحفظ کے لیے پولیس اور انتظامیہ کو خصوصی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔اسکول کالج بند کردئیے گئے ہیں۔ ایک ماہ کے دوران صوبہ میں گوشت کی خرید وفروخت پر بھی پابندی لگادی گئی ہے۔شہروں میں نقل وحمل کے عوامی ذرائع پربھی پابندی عائد ہے تاکہ کانوڑیوں کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔بعض ٹی وی چینلوں نے ایسی رپورٹیں نشر کی ہیں جن میں پولیس کے اعلی افسران کانوڑیوں کے پاں دھوتے اور ان کی تیل مالش کرتے ہوئے نظرآرہے ہیں۔ اتنا ہی نہیں پولیس کے اعلی افسران ہیلی کاپٹروں میں بیٹھ کر کانوڑیوں پر پھول برسارہے ہیں تاکہ وزیراعلی کی آنکھوں کا تارا بن سکیں۔ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے کہ یوگی بابا کی حکومت کانوڑیوں کی خاطرمدارات میں کیا کچھ کررہی ہیں، لیکن ہم یہاں یہ سوال ضرور پوچھنا چاہتے ہیں کہ سڑک یا عوامی مقامات پر نماز پڑھنے والوں کے خلاف کس قانون کے تحت کارروائی کی جارہی ہے اور کانوڑیاتریوں کو کس قانون کے تحت وی آئی پی کا درجہ دیا جارہا ہے۔اسی درمیان یہ سوال بھی پوچھا گیا ہے کہ کیا آنے والے محرم کے دوران تعزیہ داروں پر بھی پولیس اسی طرح پھول برسائے گی اور ان کی خاطر مدارات کرے گی؟ظاہر ہے دستور وقانون کی رو سے جب ملک کے تمام شہری برابرہیں اور وہ مساویانہ حقوق کے طلب گار ہیں تو پھر کس بنیاد پر ایک مذہب کے ماننے والوں کی راہ میں ریڈ کارپٹ بچھائے جارہے ہیں اور دوسرے مذہب کے ماننے والوں کی مجبوری میں نماز کی ادائیگی کرنے والوں کو دوفرقوں کے درمیان دشمنی پیدا کرنے، مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے اور عوامی مقامات پر گڑبڑپیدا کرنے کی دفعات کے تحت جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجا جارہا ہے۔
اترپردیش کے کئی اضلاع سے ایسی اطلاعات مل رہی ہیں کہ جگہ جگہ مسلمانوں نے کانوڑیوں کے لیے استقبالیہ کیمپ لگائے ہیں اور وہ ان پر پھول برسارہے ہیں۔انھیں کھانا اور پانی فراہم کررہے ہیں۔ ظاہر ہے اس کا مقصد فرقہ وارانہ ہم آہنگی قایم کرنا اور سیاست دانوں کی طرف سے دلوں میں پیدا کی گئی کدورت کو دور کرنا ہے۔مگر مسلمانوں کے اس جذبہ خیرسگالی کا بھی کوئی پاس نہیں رکھا جارہا ہے اور ان کے ساتھ اعلانیہ دویم درجہ کے شہریوں جیسا سلوک کیا جارہا ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ ہم ایک سیکولر جمہوری ملک کے باشندے ہیں جہاں ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہے مگر ہر مذہب کے لوگوں کو اپنی رسومات اور عبادت کی آزادی فراہم کی گئی ہے۔ مندر، مسجد، گرودوارے اور چرچ عبادت وریاضت کے لیے بنائے گئے ہیں، لیکن سبھی مذاہب کے لوگ سڑکوں پر جلوس،بھجن، بھنڈارہ، رام لیلا اور دیگر تقریبات منعقد کرتے ہیں اور اس کام کے لیے اکثر ٹریفک روک دیا جاتا ہے۔ مسلمان بھی جمعہ اور عید بقرعید کی نماز جگہ کی قلت کے سبب سڑکوں پر ادا کرتے آئے ہیں۔ اس کے لیے پولیس خصوصی بندوبست کرتی رہی ہے۔ لیکن جب سے سڑکوں پر نماز کی ادائیگی کے خلاف فرقہ پرست اور فسطائی عناصر نے شرانگیز مہم شروع کی ہے تب سے سڑک یا کسی عوامی مقام پر نماز کی ادائیگی جرم تصور کی جارہی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ گزشتہ سال ہریانہ کے صنعتی شہر گڑگاں میں شرپسندوں نے بعض پارکوں میں جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے خلاف زبردست محاذآرائی کی اور آخر کار حکومت کو اس بات پر مجبور کردیا کہ اس نے ان عوامی مقامات پر نمازجمعہ کی ادائیگی روک دی جہاں برسوں سے نماز پڑھی جارہی تھی۔
اس دوران اترپردیش کی مشہوردینی درس گاہ جامعہ ہتھورا باندہ کے صدر مفتی اور شیخ الحدیث مفتی سید محمدعبیداللہ اسعدی کا ایک بیان سامنے آیا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ ٹرین میں،اسٹیشن پر، کسی ڈھابے پر نماز پڑھنا آفت کو مول لینا ہے۔ ایسے میں نماز کا وقت ہوجائے تو یہ شجاعت وبہادری نہیں ہے کہ وہاں نمازادا کی جائے۔ انھوں نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہپہلے نظام یہ تھا کہ کسی جگہ شریعت کے احکام کی بجاآوری میں دشواری پیدا ہورہی ہو تو وہاں سے دوسری جگہ جاکر بس جا، اس لیے خدا کی زمین بہت وسیع ہے، لیکن موجودہ حالات میں یہ ممکن نہیں ہے۔مفتی صاحب کا یہ بھی کہنا ہے کہیہیں رہ کر اپنی جان ومال،عزت وآبرو اور اپنے دین وشریعت کی حفاظت کرنی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔