... loading ...
سیاست میں نظریاتی اختلاف کوئی انوکھی بات نہیں ہے مگر اپنے نظریاتی مخالفین کو نیچا دکھانے کے لیے کوئی پارٹی اس حدتک بھی گرسکتی ہے، ایسا کسی نے نہیں سوچا تھا۔گزشتہ ہفتہ بی جے پی نے جس بے ہودہ انداز میں سابق نائب صدر محمدحامد انصاری کی حب الوطنی پر سوالیہ نشان قایم کیا، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ حامدانصاری نے اپنی پوری زندگی سفارتکاری میں گزاری ہے اور سیاست سے ان کا کوئی براہ راست تعلق نہیں ہے۔ وہ ایک مہذب اور شائستہ انسان ہیں اور ہمیشہ سچ بولنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں، لیکن موجودہ دور میں چونکہ سچ بولنا ہی سب سے بڑا جرم بن گیا ہے، اس لیے جو لوگ بھی سچ بولنے یا سچائی کو بے نقاب کرنے کی کوشش کرتے ہیں، انھیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ جس کی سب سے تازہ مثال ’آلٹ نیوز‘ کے صحافی محمدزبیر ہیں جنھیں سچ بولنے کی پاداش میں ہی قید وبند کی صحبتوں سے گزرنا پڑرہا ہے۔ سپریم کورٹ سے انھیں ضمانت نہیں ملی ہوتی تو وہ اب بھی جیل میں ہی ہوتے۔ سچ بولنے کی پاداش میں ہی نائب صدرجمہوریہ حامد انصاری کو ہراسانی کا سامنا کرناپڑرہا ہے۔ حالانکہ وہ عمر کی جس منزل میں ہیں، وہاں انھیں آرام وسکون کی ضرورت ہے، لیکن سنگھ پریوار کے لوگ اس عمر میں بھی ان کی حب الوطنی کا امتحان لے رہے ہیں۔
سبھی جانتے ہیں مسلمانوں کی حب الوطنی پر سوالیہ نشان قایم کرنا سنگھ پریوار کا پرانا مشغلہ ہے۔ یہ کام اس وقت سے ہورہا ہے جب ہندوستان آزاد ہوا اور اس کی کوکھ سے ایک نئے ملک پاکستان نے جنم لیا۔ پاکستان کا نام لے لے کر ہندوستانی مسلمانوں کو کوسنا اورانھیں ’پاکستانی‘کہہ کر ان کی وطن پرستی کو مشکوک بنانا سنگھ پریوار کے لوگوں کی ایک مستقل پالیسی ہے۔ لیکن اس میں یہ لوگ اتنا نیچے بھی گرسکتے ہیں اس کا اندازہ کسی کو نہیں تھا۔ اس پستی کا اندازہ حال ہی میں اس وقت ہوا جب بی جے پی کے بڑبولے ترجمان گورو بھاٹیہ نے حامد انصاری کی حب الوطنی پر سوالیہ نشان کھڑا کیا اور ایک مجہول پاکستانی صحافی کے انٹرویو کی بنیاد پر ان پر رکیک اور بے ہودہ حملے کئے گئے۔بی جے پی ترجمان نے کہاکہ حامد انصاری نے2010 میں جبکہ وہ نائب صدرجمہوریہ کے عہدے پر فائز تھے، نصرت مرزا نام کے پاکستانی صحافی کو اصرار کرکے پانچ بار ہندوستان مدعو کیا۔ یہاں آکراس صحافی نے ہندوستان کی خفیہ جانکاریاں اکھٹاکرکے پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کو سونپیں۔ترجمان نے یہ بھی کہا کہ حامد انصاری نے مذکورہ صحافی کے ساتھ نئی دہلی میں دہشت گردی مخالف ایک کانفرنس میں اسٹیج بھی شیئر کیا۔ حامد انصاری نے ان الزامات کی سختی کے ساتھ تردید کرتے ہوئے کہا کہ وہ نہ تو مذکورہ صحافی کو جانتے ہیں اور نہ ہی اس سے کبھی ملے ہیں۔گورو بھاٹیہ نے اس وقت کی حکمراں جماعت کانگریس اور اس کی صدر سونیا گاندھی کو بھی نشانے پر لیا۔
محمدحامدانصاری سے بی جے پی کا یہ’پریم‘ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ وہ رہ رہ کر ان کے خلاف اپنی بھڑاس نکالتی رہتی ہے۔ یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا تھا جب 2017میں حامد انصاری نائب صدر کے عہدے سے سبکدوش ہوئے تھے۔ ان کی سبکدوشی کے وقت وزیراعظم نریندرمودی نے ایوان بالا میں الواداعیہ کلمات کے دوران جو طنزیہ جملے کہے تھے،وہ ان کے عہدے کے قطعی شایان شان نہیں تھے۔ اس کے بعد بی جے پی اور سنگھ پریوار کے لوگوں کو حامد انصاری کے خلاف یاوہ گوئی کی شہ مل گئی اور وہ ایسے مواقع کی تلاش میں سرگرم رہنے لگے،جن کی آڑلے کروہ ان کے خلاف اپنی پراگندہ ذہنی کا مظاہرہ کرسکیں۔ حامدانصاری 2017میں نائب صدر جمہوریہ اور راجیہ سبھا کے چیئرمین کی حیثیت سے اپنے دس سالہ مدت پوری کرکے سبکدوش ہوئے تھے۔ اس دس سال کے عرصہ میں راجیہ سبھا کے چیئرمین کے طور پر ان کی کارکردگی کو میں نے راجیہ سبھا کی پریس گیلری سے قریب سے دیکھا اور یہ محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکا کہ وہ اپنا کام پوری ایمان داری سے کرتے ہیں اور کسی بھی پارٹی کی طرف ان کا جھکاؤ نہیں ہے۔
سبھی جانتے ہیں کہ حامدانصاری کا تعلق مجاہدین آزادی کے ایک باوقار خانوادے سے ہے۔وہ نامور مجاہد آزادی ڈاکٹرمختار احمد انصاری کے قریبی رشتہ دار ہیں، جو خلافت کے خاتمہ کے بعد طبی مشن لے کر ترکی گئے تھے۔قومی تحریک کے دوران ڈاکٹر مختار احمد انصاری کی خدمات اور قربانیاں ناقابل فراموش ہیں۔حامدانصاری کے خاندان کی ہی ایک جری شخصیت بریگیڈیر عثمان تھے، جنھوں نے ہندوستانی فوج کے ایک اعلیٰ آفیسر کے طورپر نوشہرہ میں پاکستان کے خلاف لڑتے ہوئے 3/جولائی 1948کوجام شہادت نوش کیا تھا۔ایک ایسے خانوادے کے چشم وچراغ اور ملک کی سفارتی تاریخ میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑنے والی شخصیت کے خلاف بی جے پی اور اس کے ترجمان کی طرف چلائی جارہی کردار کشی کی مہم انتہائی شرمناک اور قابل مذمت ہے۔حامدانصاری نے ایک بہترین سفارت کار کے طورپر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔وہ کئی ملکوں میں ہندوستان کے سفیر اور اقوام متحدہ میں ہندوستان کے خصوصی ایلچی بھی رہ چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سفارتی خدمات سے سبکدوشی کے بعد انھیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا وائس چانسلر، قومی اقلیتی کمیشن کا چیئرمین اور آخرمیں دوبار ملک کا نائب صدر بنایا گیا۔
اب آئیے ایک نظر اس سبب پر بھی ڈالتے ہیں جس نے بی جے پی کو حامد انصاری کا مخالف بنایا۔2014 میں جب بی جے پی اقتدار میں آئی تو حامد انصاری بطور نائب صدر راجیہ سبھا کے چیئرمین تھے،جہاں بی جے پی کے پاس ممبران کی تعداد خاصی کم تھی۔ راجیہ سبھامیں کسی بھی بل کو پاس کرانے کے لیے اکثریت ہونا لازمی ہے جو بی جے پی کو حاصل نہیں تھی۔ اس کے باوجودحکمراں بی جے پی حامد انصاری سے یہ توقع رکھتی تھی کہ وہ ضابطوں کو نظرانداز کرکے اس کی راہ آسان کریں۔ مگر حامدانصاری چونکہ ایک اصول پسند اور جمہوریت پسند شخص ہیں، اس لیے انھوں نے کبھی حکمراں جماعت کی ہاں میں ہاں نہیں ملائی۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کو راجیہ سبھا میں اپنی من مانی کرنے کا موقع نہیں ملا۔ یہی وہ زخم ہے جو رہ رہ کر بی جے پی کے لوگوں کے دلوں میں ٹیس پیداکرتا ہے اور وہ موقع ملتے ہیں ان پر حملہ آور ہوجاتی ہے۔
بطورنائب صدر اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے سے پہلے حامدانصاری نے ایک انٹرویو کے دوران یہ بات کہی تھی کہ اقلیتوں کے اندر عدم تحفظ کا جو احسا س پایا جاتا ہے،جس کا موجودہ حکومت کو ازالہ کرنا چاہئے۔ حامدانصاری کی یہ حق گوئی حکمراں جماعت کو اتنی ناگوارگزری کہ وہ ہاتھ دھو کران کے پیچھے پڑگئی۔ جبکہ ان کا بیان سچائی پر مبنی تھا اور صورتحال کی صحیح عکاسی کرتا تھا۔ اس کے بعد جب حامدانصاری کی آپ بیتی شائع ہوئی اور اس میں بھی انھوں نے بعض باتوں کو دوہرایا تو انھیں تیسری بار نشانہ بنایا گیا۔اس سے قبل 2015میں جب انھوں نے آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے گولڈن جوبلی اجلاس میں یہی باتیں کہی تھیں تو سنگھ پریوار نے نشاان پرطعن وتشنیع کی تھی۔غرض یہ کہ جب بھی موقع ہاتھ آتا ہے یہ لوگ انھیں برابھلا کہنا شروع کردیتے ہیں، لیکن اس بار بی جے پی ترجمان نے ان کی حب الوطنی پر سوالیہ نشان قایم کرکے بے غیرتی کی ساری حدیں پار کردیں اور وہ بھی ایک ایسے نام نہاد صحافی کے انٹرویو کی بنیاد پر جس نے2005میں پاکستان میں آئے زلزلہ اور2011 میں جاپان میں آئی سونامی کو امریکی سازش سے تعبیر کیا تھا۔ ایک ایسا مجہول صحافی جسے خود پاکستان میں کوئی سنجیدگی سے نہیں لیتا، وہ بی جے پی کے لیے اتنامعتبر کیسے بن گیا؟یہ اپنے آپ میں تحقیق کا موضوع ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔