وجود

... loading ...

وجود

ڈوبتے سندھ کو کس کا سہارا؟

جمعرات 28 جولائی 2022 ڈوبتے سندھ کو کس کا سہارا؟

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ ملتوی کرنا ایک بہتر فیصلہ ثابت ہوا۔ویسے تو الیکشن کمیشن کے اِس فیصلہ پر بعض سیاسی جماعتوں نے اپنے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا ۔ لیکن رواں ہفتہ سندھ بھر میں ہونے والی والی شدید طوفانی بارشوں نے ثابت کردیا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے صوبہ کے مخدوش موسمیاتی حالات کو بروقت پرکھتے ہوئے ایک دوراندیشانہ فیصلہ کیا تھا اور صوبہ سندھ کی عوام کو طوفانی بارشوں میں ووٹ ڈالنے کی بڑی اذیت سے بچالیا ۔
واضح رہے کہ گزشتہ دو تین ہفتوں سے جس طرح کی غیر معمولی بارشیں صوبہ بھر میں مسلسل ہورہی ہیں ،اِن بارشوں نے معمولات ِ زندگی مکمل طور پر تہہ و بالا کر کے رکھ دیا ہے۔ مثال کے طور پرکراچی کی مختلف مرکزی شاہراہوں پر بارش نے گہرے گڑھے ڈال دیئے ہیں، جن کی وجہ سے شہری شدید اذیت کا شکار ہیں۔اگر انتظامہ کی بات کی جائے تو بس یہ ہی کہا جا سکتاہے کہ عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ شہر بھر میں ٹریفک کی روانی شدید متاثر ہے جس سے گاڑیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اورشہریوں کا مہنگا پیٹرول پانی کی طرح ضائع ہو رہا ہے اورمنٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہو رہا ہے جس سے شہری مہنگائی کے ساتھ ساتھ ٹرانسپورٹ پر بھاری رقوم خرچ کرنے پر مجبور ہیں۔
المیہ ملاحظہ ہو کہ کراچی شہر کے نالوںمیں موجود سیکڑوں ٹن پلاسٹک بیگ اور بوتلوں نے مون سون کی حالیہ بارش میں کراچی کو مکمل طور پر ڈبو دیا ہے ۔ اِس وقت نکاسی آب کو معمول پر لانے میں سب سے بڑی رکاؤٹ یہی’’ پلاسٹک کچرا ‘‘بن رہا ہے۔بظاہر شہر کے ہر نالے سے صفائی کے دوران چند دنوں میں سیکڑوں ٹن پلاسٹک بیگ نکالے جاچکے ہیں جس نے نکاسی آب میں رکاوٹ ڈال رکھی تھی،مگر اَبھی بھی ہزاروں ٹن ’’پلاسٹک کچرا‘‘ بارش کے پانی کے ساتھ مل شہر بھر میں تعفن پھیلانے کا باعث بن رہاہے ۔اگر ہم یہ کہیں کہ مون سون کی حالیہ بارشوں میں انتظامیہ کے لیے سب سے بڑاچیلنج اسی ’’پلاسٹک کچرے‘‘ کو ٹھکانے لگانا ہے تو یہ عین قرین قیاس ہوگا۔
یاد رہے کہ ماضی میں سندھ حکومت نے کئی بار پلاسٹک بیگ پر پابندی عائد کرنے کے احکامات دیئے تاہم یہ احکامات چند روز تک ہی کار آمد رہے بعد ازاں یہ پابندی غیر اعلانیہ طور پر ختم کر دی گئی اس ضمن میں تاجروں،پلاسٹک کے ہول سیلروں کی دکانوں پر ادراہ تحفظ ماحولیات نے کئی بار نمائشی چھاپے بھی مارے اور اسکی ذرائع ابلاغ سے بھرپور تشہیر کی گئی تاہم بعد ازاں یہ معاملہ طلسماتی طور پر رفع دفع ہو گیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ پلاسٹک بیگ کی ہی وجہ سے بنگلہ دیش میں خوف ناک، اربن فلڈ آ چکا ہے جس کے بعد انہوں نے پلاسٹک بیگ پر 2002ء میں پابندی عائد کی تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس ملک میں سیلاب کی ایک عام وجہ پلاسٹک بیگ سے سیوریج کی نالیوں کا بند ہونا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق ایک عام شہری دن کی سبزی، گوشت دودھ،اشیائے صرف کا سامان لینے میں کم از کم دس شاپرز استعمال کرتا ہے۔ گویا ایک دن کی ہنڈیا کے لیے دس شاپرز استعمال ہوتے ہیں۔ کراچی کی آبادی ڈھائی کروڑ ہے گویا کم از کم تیس لاکھ گھر ہوں گے۔ ہر گھر اگر دس شاپر استعمال کرتا ہے تو گویا ہم خود روزانہ کی بنیاد پر کروڑوں شاپرز، کا اضافہ کررہے ہیں۔ یہ یہ ’’ پلاسٹک کچرا‘‘ کراچی میں اربن فلڈ کا باعث بنا ہوا ہے۔
حالیہ بارشوں سے صرف کراچی کے تاجروں کو ایک اندازے کے مطابق دو ارب روپے سے زائد کا مالی نقصان ہواہے، بارشوں کے پانی سے تہہ خانوں میں رکھا سامان خراب ہوگیا، کروڑوں مالیت کا آٹا، چینی، دالیں، سبزیاں اور فروٹ خراب، شہر کی بڑی مارکیٹوں کے تہہ خانے بھی بارشوں کے پانی سے متاثر، بیشتر مارکیٹوں میں کاروبار زندگی مفلوج رہا،نیز گوداموں میں رکھا 50 فیصد سے زائد مال خراب ہوگیا ہے،جس میں آٹا،چینی،دالیں اور دیگر اشیاء شامل ہیں،اجناس کے تاجروں کا کہنا ہے گواداموں میں برساتی پانی داخل ہونے کے باعث وہاں رکھا گیا تمام مال خراب ہوگیا ہے،جس کی تاجروں نے کڑوروں مالیت بتائی ہے۔جبکہ سبزی منڈی کے تاجروں کا کہنا ہے کہ آلو پیاز جو گوداموں رکھی ہوتی ہے میں سب کا سب مال خراب ہوگیا ہے،جبکہ سبزی کی فصلیں خراب ہونے سے بھی کرڑوں روپے کا نقصان ہوا ہے،بارش کا پانی لگنے سے کھلے میدان میں رکھی سبزیاں اور فروٹ خراب ہوگئے،تاجروں کا کہنا ہے کہ اس صورتحال آئندہ چند ماہ تک ڈیمانڈ اور سپلائی کے میکنزم کے تحت سبزیوں وفروٹ کی قیمت بڑھیں گی۔
دوسری جانب کراچی کے فیشن ایبل بازار طارق روڈ کے تاجروں کا بھی بڑے پیمانے پر نقصان ہوا ہے،شاپنگ مال کے بسمنٹ بازار میں بنی ہوئی اکثر دُکانوں کا سارا مال خراب ہوگیا ہے،جبکہ بسمنٹ میں بنائے گئے کپڑے کے گوداموں میں کروڑوں کا کپڑا دکانوں میں پانی بھرنے سے بہہ گیا ہے۔ کچھ ایسی ہی صورت حال صدر بازار اور زیب النساء اسٹریٹ میں ہوئی ہے۔یہاں کے تاجروں کا کہنا ہے کہ ایک ایک دکاندار کا بارش کے باعث 50 لاکھ سے زائد کا نقصان ہوا ہے۔کراچی کی تمام تاجر تنظیموں نے سندھ حکومت سے کراچی کو آفت زدہ قرار دینے کی اپیل کرتے ہوئے تاجر برادری کے ذمہ واجب الادا قرضے فوری طور پر معاف کرنے اور تباہ و برباد ہونے والے کاروبار کو معمول پر لانے کے لئے کم سے کم شرح سود پر نئے قرضے فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
واضح رہے کہ کراچی کے علاوہ باقی سندھ کی صورت حال بھی انتہائی مخدوش ہے ۔ مثلاًحیدرآباد میںگذشتہ کئی روز سے وقفے وقفے سے بارش کے پانی کی عدم نکاسی کی وجہ سے نشیبی علاقوں میں پانی گھروں میں داخل ہوگیا، مسلسل پانی کھڑا رہنے سے شہریوں کا لاکھوں روپے کا فرنیچر اورقیمتی سامان خراب ہوگیاہے۔ تعلقہ لطیف آباد کے مختلف یونٹس مہر علی سوسائٹی، فاطمہ جناح کالونی، ریلوے کالونی، حالی روڈ، زیل پاک کالونی، واپڈا کالونی، ٹنڈو محمد خان، مرشد آباد، فرنٹیئر کالونی سمیت دیگر نشیبی علاقوں میں قائم کالونیوں میں گذشتہ 4 روز سے بارش اور سیوریج کا پانی جمع ہے، جہاں گندے پانی کی نکاسی کے لئے ضلعی انتظامیہ کی جانب سے کوئی خاص انتظامات نہیں کئے گئے۔
علاوہ ازیں نواب شاہ شہر کی بعض سڑکوں اور نشیبی علاقوں سے بھی بارش کا پانی بھی تک نہیںنکالا جا سکا۔نیز نواب شاہ شہر میں گذشتہ 20روز سے جاری بارشوں کی وجہ سے شہر میں گندگی اور تعفن پھیلنے کی وجہ سے گیسٹرو کی وبا پھیل چکی ہے۔ سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیجئے کہ کم وبیش سارا سندھ ہی مون سون کی طوفانی بارشوں کے رحم و کرم پرہے ۔ اَب دیکھنا یہ ہے صوبہ کی مجبور و مقہور عوام کو اِس آفت زدہ صورت حال سے نکالنے کے لیے سندھ حکومت اور وفاقی حکومت کیا ہنگامی اقدامات اُٹھاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر