وجود

... loading ...

وجود

بدنام سیاسی قیادت

بدھ 06 جولائی 2022 بدنام سیاسی قیادت

عوام کو شریکِ اقتدارکرنا ہی جمہوریت ہے اوراصل جمہوریت یہ ہے کہ عوامی مسائل میں کمی آئے لیکن رائج جمہوریت سے عوام کا بھلا تو نہیں ہوا مگر مالی بدعنوانی کو فروغ ملاہے پرویز مشرف کے بعد ملک میں کہنے کو توجمہوریت کا تسلسل ہے لیکن کسی سے بھی یہ دریافت کیا جائے کہ کیا عوامی مسائل میں کمی آئی ہے ؟تو جواب مکمل طور پر نفی میں ہوگا زرعی ملک کے عوام کو آٹے سمیت روزمرہ کی اشیا میں کمی کا سامنا ہے مہنگائی تیس فیصد تک پہنچ چکی ہے روزگار کے مواقع مسلسل کم ہورہے ہیں خام مال مہنگا ہونے سے صنعتی پیدوار متاثر ہونے سے برآمدات میں کمی ہونے لگی ہے قرضوں میں بے تحاشا اضافے سے تاریخ میں پہلی بار وطنِ عزیز پر دیوالیہ کے بادل منڈلا رہے ہیں لیکن مزکورہ مسائل کا حل تلاش کرنے کی بجائے سیاسی قیادت بے نیاز نظر آتی ہے البتہ اقتدارکی جنگ میں سب چوکس ہیں ایسے طرزِ عمل سے اُس کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے اور عوام کے زہنوں میں یہ خیال تقویت پکڑ رہا ہے کہ موجودہ سیاسی قیادت کو ملک وقوم سے زیادہ اقتدار سے دلچسپی ہے مگر لگتا ہے کہ سیاسی قیادت کولاحق خطرات کا احساس تک نہیں تبھی بدنامیاں سمیٹنے اور حریف سیاسی قوتوں کو بدنام کرنے کے مقابلے سے دستبردار ی پر تیار نہیں سیاسی ماحول اتنا پراگندہ ہو چکا ہے کہ آج ملک کے سیاسی منظر نامے پر نگاہ ڈالتے ہیں تو کوئی ایک بھی چہرہ نیک نام نظر نہیں آتا ۔
سیاسی قیادت کو بدنام کرنے میں کارفرما ہاتھ بارے جاننے کی اگر کوشش کریں تو اِس میں کوئی شائبہ نہیں کہ کلیدی کردارکسی اور کا نہیں سیاسی قیادت کا اپناہی ہے ابھی کل تک پی پی اور ن لیگ کی قیادت ایک دوسرے کونااہل ،اغیارکے ہمدرد اور وطن دشمن کہنے میں مصروف تھیں لیکن نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان طے پانے والے میثاقِ جمہوریت کے نتیجے میں اب بائیں بازوکی سیاست کرنے والی پی پی اوردائیں بازوکی علمبردار ن لیگ جیسی متحارب قوتیں اتحادکر چکی ہیں یہ صورتحال بنانے اور معاملات کو اِس نہج تک لانے میں پی ٹی آئی کا اہم کردار ہے جس نے کسی اور جماعت کو شریکِ اقتدار کرنے سے گریز کیا اور بے لچک سیاست کی اگرتحمل ،مزاکرات اور افہام وتفہیم سے کام لیا جاتا تو آج نفرت میں درجن بھر جماعتیں ایک ہو کر تبدیلی کی راہ ہموار نہ کرپاتیں مگر بات پھر وہی ہے کہ اقتدار کے لیے جنونی ہوکر غیر جمہوری اور بے اصولی کی ایسی سیاست نے ہی سیاسی جماعتوں پر عوام کی بے اعتباری میں اضافہ کیا ہے اور اسی وجہ سے عوام اور ملک کو بے پناہ مسائل کاہے لیکن سیاسی قیادت مسائل سے بے نیاز ایک دوسرے پر بڑھ چڑھ کر الزام تراشی میں مصروف ہے جس کی بناپرساکھ سے محرومی کا مسلہ درپیش ہے مزید کچھ عرصہ ایسے ہی حالات رہے تو جس طرح پی پی اور ن لیگ کی ایک دوسرے کو بدنام کرنے کی مُہم کے نتیجے میں پی ٹی آئی کو آگے آنے کا موقع ملا ممکن ہے جلد ہی حالات ایسا رُخ اختیارکرجائیں کہ تینوں جماعتوں کوپچھاڑکر نئی سیاسی قیادت سامنے آجائے اور سابق حکمران جماعتیں ایک دوسرے کو بدنام کرتے کرتے عوام کی تائید وحمایت سے محروم ہو جائیں موجودہ سیاسی قیادت سے رائے دہندگان بدظن ہوتے جا رہے ہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ عام انتخابات ہوں یا ضمنی،ووٹ کاسٹ کرنے کی شرح میں مسلسل کمی واقع ہونے لگی ہے مگرسیاسی قیادت کو اِس کا احساس ہے ایسے آثار نظر نہیں آتے کیونکہ بددستور ایک دوسرے کو بدنام کرنے میں مصروف ہے اگر طرزِ عمل پرجلد نظرثانی نہ کی گئی جس کا بظاہر امکان کم ہے تو اِس سے موجودہ سیاسی قیادت کا مستقبل مخدوش ہونا یقینی ہے ۔
ملک کے سیاسی حالات اِ س حد تک خراب ہو چکے ہیں کہ حکمران اتحاد میں شامل کوئی ایک چہرہ بھی نیک نام نہیں اسی طرح اپوزیشن رہنما بھی بدعنوانی کے سنگین الزامات کی زد میں ہے وزیرِ اعظم اور وزیرِ اعلٰی کو منی لانڈرنگ کے مقدمات کا سامنا ہے مولانا فضل الرحمٰن اور آصف زرداری کے حوالے سے بھی نہ صرف لمبامال بنانے کی داستانیں گردش کررہی ہے بلکہ مقدمات کی مختلف اِدارے انکوائریوں میں مصروف ہیں جن کی روشنی میں عدالتی کاروائیاں بھی جاری ہیں لیکن صورتحال میں اب جو ڈرامائی تبدیلی آئی ہے وہ یہ ہے کہ عمران خان کی نیک نامی ، پارسائی اور اُجلاپن بھی داغدار ہو چکا ہے توشہ خانہ کے علاوہ بھی وہ مختلف نوعیت کے کئی الزامات کی زد میں ہیں اور کچھ ایسے سیاسی کردار وں یا شخصیات پر اُنگلیاں اُٹھنے لگی ہیں جوماضی میں کسی نہ کسی حوالے سے جماعت یا براہ راست اُن سے منسلک ہیں مستقبل میں مزید الزامات کا امکان ہے جس سے نیک نامی ،پارسائی اور کردار کا اُجلا پن بدنامی کا پیراہن پہن لے گا اور وہ بھی دیگر سیاسی قیادت کی طرح بدنام ہو کررہ جائیں گے لہذا بہتر یہی ہے کہ سیاسی قیادت ایک دوسرے پر الزام تراشی کی بجائے کارکردگی کی طرف دھیان دے وگرنہ حالات اِس حد تک ناہموار ہو سکتے ہیں کہ سیاسی طور پر زندہ رہناہی دشوار ہوکر رہ جائے ۔
ملک کی ساری سیاسی قیادت بدعنوان نہیں ہو سکتی مگر زرائع ابلاغ سے ایسا ہی تاثر ملتا ہے حالانکہ بے سروپا الزام تراشی کی بجائے اِداروںکواگر بدعنوانی کے ثبوت فراہم کیے جائیںتو کاروائی ممکن ہے یوں سیاست میں دولت جمع کرنے یا اقتدار حاصل کرنے کے لیے خرچ کرنے کے عمل کی حوصلہ شکنی ہوسکتی ہے نیز سیاسی قیادت لب کشائی کرتے ہوئے قومی مفاد کے منافی بات کرنے سے گریز کرے کیونکہ ایک دوسرے کو غدار اور ملک دشمن کہنے کا نقصان کسی اور کو نہیں موجودہ سیاسی قیادت کوہی ہورہا ہے موجودہ حکمران اتحاد چاہتا ہے کہ کسی طرح مشرقی ہمسائے سے تعلقات بہتر اور تجارت بحال ہو جبکہ عمران خان نے اقتدار سے بے دخلی کو عالمی طاقت کی سفارتی مُہم جوئی قرار دیا ہے بھارت سے تعلقات کی بہتری اور تجارت کی بحالی کی منزل تو حاصل نہیں ہو سکی مگر چین خفاضرور ہو گیا ہے اسی طرح امریکی انتظامیہ بھی پاکستان سے ناخوش ہے جس سے ملک کی مالی مشکلات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے محض اپنی سیاست چمکانے کے لیے ریاستی مفاد سے کھلواڑ حب الوطنی نہیں کیا ہی بہتر ہوتا کہ عمران خان اپنے دورِ حکومت میں کوئی ایسا باختیار عدالتی کمیشن بنا دیتے جو مالی بدعنوانی کے مقدمات ثابت کرنے کے لیے ثبوت تلاش کرنے پرمامور ہوتا اور اِن ثبوتوں کی بناپربدعنوانی میں ملوث سیاسی افراد کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کی کوشش کرتے مگر ایسا کچھ کرنے کی بجائے انھوں نے تمام تر توجہ حریف سیاستدانوں کو بدنام کرنے پر مرکوز رکھی حیران کُن امر یہ ہے کہ موجودہ حکمران بھی الزام تراشی سے آگے کاروائی کی طرف نہیں بڑھ رہے زرائع ابلاغ میں تو شہ خانے سے لیکر تبادلوں کے زریعے مال بنانے ،زمینوں پر قبضوں سمیت مختلف الزامات کی بازگشت تو سنائی دیتی ہے مگر ثبوت تلاش کرنے کا کام نہیں ہورہااسی لیے الزام تراشی کو بھی بدنام کرنے کا حصہ سمجھاجارہا ہے بات یہ ہے کہ اگر متعلقہ طاقت و عدالت کے مراکز کو کاروائی کے لیے مناسب ثبوت فراہم کیے جائیں تو نہ صرف ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ ممکن ہے بلکہ سیاست میں زر اور زمین کے استعمال کا سلسلہ بھی ختم ہو سکتا ہے مگر اِس کی بجائے ازسرے نو آڈیو اور ویڈیو لیک کرنے کا غلیظ دھندہ شروع ہے جس کا کسی کو فائدہ نہیں ہو سکتا صرف سیاسی قیادت کو نقصان ہو سکتاہے آڈیو اور ویڈیو صیح ہے یا غلط،اگرزمہ داران کاروائی نہیں کرتے تواِس کاایک ہی مطلب ہے کہ سیاسی قیادت کو بدنام کرنا مطلوب ہے ایسی حرکتوں سے ہی غیر جمہوری قوتوں کو آگے آنے اور جمہوریت کو کمزور کرنے کا بہانہ ملتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر