وجود

... loading ...

وجود

جھوٹ کاعذاب

هفته 02 جولائی 2022 جھوٹ کاعذاب

صدیوںپہلے جب ہلاکوخان نے بغدادپرحملہ کیاوہ بستیوںکو تاراج کرتاہزاروں انسانوںکو تہہ تیغ کرتامسلمانوںکے عظیم مذہبی،ثقافتی اورعلمی و ادبی مرکزمیں پہنچا یہاں بھی اس نے ظلم وبربریت کی نئی مثالیں قائم کرڈالیں انسانی کھوپڑیوںکے میناربناکرفتح کا جشن منانا اس کا محبوب مشغلہ تھا۔تاریخ بتاتی ہے جب ہلاکو خان نے بغداد کی لائبریروں کی کتابوںکو دریا میں پھینکوایا تو اتنا عظیم الشان ذخیرہ تھا کہ پانی کئی گھنٹے رک گیا اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس وقت کا بغداد کیسا شہرِ حکمت ودانش ہوگا؟ بہرحال سقوط ِ بغدادکے بعد جب وزیروں،مشیروں،معززین اورعلماء کرام کو اس کے سامنے پیش کیا گیا تو چہار اطراف تباہی و بربادی تھی سب سہمے سہمے ڈرے ڈرے اس کے دربار میں لائے گئے سب پر اس تباہی اورقتل ِ عام کے گہرے اثرات تھے جب ہلاکو خان دربارمیں آیا تو اس کے جاہ ہ جلال سے گویا اتنا سناٹا چھا گیا جیسے حاضرین کی سانسیں رک گئی ہوں ۔ اس نے ادھر ادھر دیکھاحقارت سے قیدیوںپر نظر دوڑائی پھر وہ ہوا جس کی توقع بھی نہیںکی جا سکتی تھی نہ جانے کہاں سے ایک ’’قیدی ‘‘ آگے بڑھا اس کے چہرے پر بڑی متانت تھی اس نے کمال جرأت سے ہلاکو خان کی آستین پکڑلی ہذیانی کیفیت میں چیخ کرکہا’’’تمہارا بیڑا غرق ہو تم پر ضرور اللہ کا عذاب آئے گا ہلاکو خان نے نخوت سے آستین جھٹک کر زور سے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا ’’ نادان تم جس عذاب کا ذکر کررہے ہو وہ میں ہی ہوں۔پھر اس کے حکم پر سب کو موت کے گھات اتاردیا گیا ۔
قرآن کہتاہے اللہ نے نافرمان قوموںپر طرح طرح کے عذاب نازل کیے کسی کی شکل تبدیل ہوگئی کوئی پانی میں غرقاب ہوگیا،کسی قوم پر چوہوں کا عذاب آیااوروہ طاعون کے مرض میں مبتلاہوکر مرتے چلے گئے،کہیں مینڈکوںکی افراط ہوگئی لوگ عاجز آگئے اور کہیںنافرمانوںکیلیے پانی خون میں بدل جاتا وہ پیاسے مرجاتے مسلمانوںپر ایسا کوئی عذاب نہیں آنے والا اس کی وجہ فقط یہ ٹھہری کہ ہم اللہ کے آخری اور اس کے لاڈلے نبی ٔ اکرم ﷺ کے امتی ہیں ورنہ اعمال تو ہمارے شاید نافرمان قوموں جیسے ہی ہیں ہمارے شکلیں صورتیں تو نہیں بدلیں لیکن ہم جیسے نافرمانوں کیلیے اللہ کے عذاب کی شکل بدل گئی اربوں کی تعداد میں ہونے کے باوجود مسلمان پوری دنیا میں ذلیل و رسوا ہورہے ہیں بیشتر اسلامی ممالک عدم تحفظ کا شکارہیں درجنوں مسلمان ملکوںپاکستان، افغانستان،عراق، ایران، سعودی عرب،شام،یمن،مقبوضہ کشمیرمیں روزانہ سینکڑوں مسلمان قتل ہورہے ہیں، برما،بھارت،چیچنیا اور نہ جانے کتنے ممالک ہیں جن میں مسلمانوںکا جینا عذاب بن چکاہے ان کی نسل کشی ہورہی ہے دکھ کی بات یہ ہے کہ ان کے حق میں کوئی آواز نہیں اٹھانا حتیٰ کہ بیشتر مسلم حکمرانوںنے بھی چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے ہر جگہ مرتے مسلمان ہیں پھر بھی مسلمانوںپر دہشت گرد ہونے کا لیبل چسپاں کردیا گیاہے۔ غورکریںتو محسوس ہوگایہ بھی عذاب کی ایک شکل ہی ہے پوری دنیا میں جہاں بھی دہشت گردی کا واقعہ ہو اسے مسلمانوں کے ساتھ جوڑ دیا جاتاہے پھربھی ہم نہیں سمجھتے شاید سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔
عالم ِ اسلام کو اللہ تبارک تعالیٰ نے ہزاروں نعمتوںسے سرفرازفرمایاہے پھر بھی یہود ونصاریٰ اور ہندو ئوںکوہم پر برتری حاصل ہے حلیجی ممالک میں سب سے زیادہ بزنس مین اور ملازمین کی اکثریت ہندئووںکی ہے اقلیت کی اکثریت پر حکومت بھی تو اللہ کا عذاب ہی ہے ، اسلامی ممالک میں زیادوہ تر بادشاہت ہے لیکن پاکستان جیسے جو ملک جمہوری کہلاتے ہیں یہاں بھی غالب آبادی کو انسانی حقوق میسرنہیں مراعات،ریاستی وسائل اور ہرقسم کی آسائشیں صرف اشرافیہ کے تصرف میں ہیں عوام کو تو زندگی کی بنیادی سہولیات سے آشنائی ہی نہیں یہ کتنی عجیب بات ہے کہ دنیا چاندپر پہنچ گئی ہے مریخ تک رسائی کی باتیں ہورہی ہیں لیکن پاکستانی عوام کو پینے کا صاف پانی ہی پینے کو ملتا نمائشی کام جوش و خروش سے کیے جاتے ہیں جن کا رزلٹ کچھ ہی عرصہ بعد زیرو نکلتاہے عوام اس قدر احساس ِ محرومی کے شکارہیں کہ چند روپوں کے فائدے کیلیے اپنی جان پر کھیل جاتے ہیں اس کی ایک مثال احمدپورشرقیہ میں آئل ٹینکر سے پٹرول لوٹتے ہوئے200سے زائد افرادکی ہلاکت ہے حکمرانوںنے اپنے لیے دولت کے پہاڑ جمع کرلیے پھر بھی ان کا پیٹ نہیں بھرتا اور قربان جائیے وہ پھر بھی معصومیت سے کہتے پھرتے ہیں ہم پر الزام کیا ہے؟ دلچسپ بات نہ سہی شرم کا مقام تو ہے کہ پاکستان کو لوٹنے والوں کا دفاع کچھ لوگ کس دھڑلے سے کررہے ہیں کسی کو سچ بات کرنے کی توفیق نہ ہونا بھی اللہ کا عذاب ہی ہے یہ الگ بات حال مست مال مست لوگوںکی دنیا ہی نرالی ہوتی ہے پاکستان میں مذہبی جماعتیں ہوں یا جمہور ی پارٹیاں سب کی سب کرپشن کے حمام میں ننگی ہیں ان کی عجب کرپشن کی غضب کہانیاں آئے روز منظرِ عام پر آتی رہتی ہیں۔
آج تک جتنے بھی حکمران ہو گذرے ہیں ، ان سے وابستہ ارکان ِ اسمبلی میں سے بیشتر کے قصے کہانیاں گھر گھر میں سنائی اور دکھائی دیتی ہیں پھر بھی ان کے حق میں نعرے لگانے والوںکی کمی نہیں یقینا یہ بھی اللہ کا عذاب ہی ہے۔ جو اپنے مفاد کے لیے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنانے پرقادرہیں۔ غریبوں کے گھروں میں دووقت کی روٹی کے لیے سسکیاں ، ہسپتالوں میں ایک ایک بیڈ پر پڑے چار چار مریضوں کی ہچکیاں،ارکان ِ اسمبلی کی لوٹ مارکی کہانیاں ،پروکوٹول سے غریبوںکی ہلاکتیں،شہرشہر غربت کے باعث خودکشیاں،اقتدارکیلیے لڑائیاں اورعام آدمی کیلیے نری کہانیاں پھر بھی خدمت کے دعوے، شرم نہ حیا ۔ ہم مسلمانوںنے تو زمانہ بیتا غوروفکر کرنا ہی چھوڑ ڈالا ہر کسی کو بس اپنا وقتی فائدہ ہی اچھا لگتاہے اور اس کے لیے وہ کسی بھی حد تک جانے سے گریز بلکہ دریغ نہیں کرتا پھر ہمارے ساتھ جوکچھ ہورہاہے اس کا گلہ کیسا ؟شکوہ کیونکر؟کوئی مانے یا نہ مانے مجھے تو صدق ِ دل سے یقین ہے کہ ایسے حکمران بھی اللہ کا عذاب ہیں جو غریبوں کے حصے کا زرق چھین کر اپنی دولت میں اضافہ کرتے چلے جائیں،مہنگائی، بیروزگاری، دہشت گردی،ملاوٹ،ڈاکٹروںکا مریضوں کے ساتھ قصائی جیسا سلوک اور نہ جانے کتنے مسائل یقین جانیے پاکستانی عوام ہی نہیں تیسری دنیا کے بیشتر ممالک میں عوام تو عذاب درعذاب کا شکار ہیں ہر محکمہ،ہر ادارہ،ہر بااثرشخص عوام کااستحصال کررہاہے حکمران بھی ایک سے بڑھ کر ایک ظالم ہیں جنہیں ذراترس نہیں آتاوہ اپنے لیے تو دولت کے پہاڑ اکھٹے کررہے ہیں لیکن عام آدمی کے لیے ان کے پاس کوئی ریلیف نہیں ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں پھر جواب دیں اور عذاب کیسا ہوتاہے ؟ سمجھ اس لیے نہیں لگ رہی کہ شاید ہمارے دل و دماغ پر مہریں لگادی گئی ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
روس اور امریکامیں کشیدگی وجود بدھ 27 نومبر 2024
روس اور امریکامیں کشیدگی

تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا! وجود بدھ 27 نومبر 2024
تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا!

خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر