وجود

... loading ...

وجود

جمہوریت نہیں مہاپاپ

منگل 21 جون 2022 جمہوریت نہیں مہاپاپ

 

پاکستان ہی نہیں تیسری دنیا کے بیشتر پسماندہ ممالک کا حال تقریباً ایک جیساہے ایسے درجنوں ممالک میںلاکھوں قیدی جیلوںمیں بندہیں ان میں ہزاروں مختلف بیماریوںمیں بھی مبتلاہیں ان کو خوراک اور مناسب طبی سہولتیں بھی میسر نہیں ان کو انتظامیہ سے سینکڑوں شکایات بھی ہوتی ہیں وہ قیدی پھر بھی اس کااظہار نہیں کرتے کہ جیل میں ان کی زندگی کا ذائقہ مزید تلخ ہونا یقینی ہوجاتاہے اور صبر شکر کرکے اپنی قیدکی مدت پوری کر نے کو ترجیح دیتے ہیں پھر ان قیدیوںکی اہلخانہ سے ملاقاتوں کی داستان ایک الگ کہانی ہے جس میں بے بسی ،۔اکثر ان کے بجٹ کو خوردبرد کرنے کی خبریں بھی اخبارات میں شائغ ہوتی رہتی ہیں یعنی ان کا کوئی پرسان ِ حال نہیں کیونکہ یہ عام شہری ہیں جن کے حقوق کی آواز کوئی بلندنہیں کرتا کوئی صحافی ان قیدیوں کی حالت ِزارپر کوئی خبرفائل کرتاہے یا کسی ٹی وی چینل کر رپورٹ آتی ہے تو جیلر ناراض ہوجاتے ہیں حکومت کے سرسے پھر بھی کوئی جوںنہیںرینگتی لیکن جمہوریت کو ڈھال بنانے والوں کے سب گناہ اس لیے معاف ہوجاتے ہیں کہ وہ کسی نہ کسی اسمبلی کے’’ معزز‘‘ رکن ہیں خواہ وہ بدترین خائن ہی کیوں نہ ہو۔ ٹیکس چوری، بجلی چوری۔ گیس چوری، منی لانڈرنگ،زمینوںپر قبضے،شراب برآمدگی،ا خلاقی دیوالیہ پن سمیت مختلف نوعیت کے درجنوںمقدمات میں گوڈے گوڈے ملوث ارکان ِ اسمبلی کا کوئی کچھ نہیں بگا ڑ سکتا کیونکہ مقدس کتاب ۔۔اس ملک کاآئین ا شرافیہ کو ٹیٹرا پیک سے بھی زیادہ تحفظ فراہم کرتاہے ۔ اس حوالے سے جیلوں میں بند مختلف الزامات میں قید سیاستدانوں سمیت اپوزیشن اور حکومتی ارکان ِ اسمبلی کے پروڈکشن آرڈرز جاری کردئیے جاتے ہیں جو درحقیقت رہائی کا عارضی پروانہ ہوتاہے حتیٰ کہ منی لانڈرنگ اورکرپشن میں ملوث افراد کو پروڈکشن آرڈر جاری کر دیا جاتا ہے۔
تیسری دنیا کے اکثرممالک میں طاقتور کے لیے قانون الگ اور غریب شہری کے لیے الگ قانون ہوتا ہے جیلوں میں اے کلاس اور پروڈکشن آرڈر لے کر پارلیمنٹ آجانے والے پاکستان میں ایک عام قیدی کے منہ پر طمانچے مار رہے ہیں کوئی تنقید کرے تو کہا جاتاہے جناب یہ جمہوریت کا حسن ہے۔ جو لوگ پروڈکشن آرڈر لیتے ہیں، وہ بجٹ سیشن میں آئے اور زیرو ان پٹ دی جس کے لیے ان کو پروڈکشن آرڈر جاری کیے تھے، جیلیں عبرت کے لیے بنائی جاتی ہیں۔ مجرم کے دل کی دھڑکن کو ٹھیک رکھنے کے لیے 21ڈاکٹرز کی ٹیم ہے جو ان کے دل کی دھڑکن کو دیکھتی ہے، یہاں الٹ کام ہے، ایک بیمار کے لیے سو انار ہیں لیکن وہ مطمئن پھر بھی نہیں ہیں۔ لیکن وہ کونسا مریض ہے؟ جو سری پائے اور ہریسہ کھاتا ہے، یہ غذائیں دل کے لیے کسی صورت بھی مناسب نہیں ہیں اور حکومت کو ان کی صحت کا بڑا خیال ہے۔ اس کا مطلب ہے احتساب مزا دار چیزکانام ہے صورت ِ حال یہ بھی ہے کہ کرپشن اور منی لانڈرنگ کے ملزمان کیلیے خصوصی کمروںکااہتمام کیا جاتاہے جہاں ریفریجریٹر،ائرکنڈیشنڈ،ٹی وی اخبارکی سہولت میسر تھی جیسے وہ سسرال آئے ہوئے ہوں یہ سہولیات اس لیے بھی ہے کہ می آئی پی کرپٹ عناصرکو کچھ ہوگیا تو کہیں احتساب کرنے والے اداروںپر مدھا ہی نہیں پڑ جائے پاکستان میں تو موجودہ حکومت میں شامل آصف زرداری،مولانا فضل الرحمن اور شہباز شریف کی د لی خواہش ہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کو ختم کر دیا جائے ایسا نہ ہو سکے تو اسے سانپ سے کیچوا ہی بنا ڈالیں اس پر کام ہورہاہے یہ اصلاحات جلدنافذہوجائیں گی شنیدہے کہ نیب کو میاں نوازشریف کے دور سے ہی سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا جارہاہے ویسے ہر اپوزیشن رہنما یہی واویلا مچاتاہے جس پر کہاجاسکتاہے کہ کچھ تو اس بات میں صداقت ہوگی کچھ لوگوں کا خیال ہے گرفتاریوں سے تحریکیں ختم نہیں ہوتیں بلکہ انہیں جلا ملتی ہے الزامات سے کوئی ڈاکو چور نہیں بنتا بلکہ چور ڈاکو عدالت سے ثابت ہوتا ہے۔
بہرحال نیب کے نرغے میں آئے ملزمان کو بھی حالات کا اندازہ ہورہاہوگا کہ یہ ادارہ انہی کیلیے بناہے اگر حکومت سے مکا مکا نہ ہو یا این آراو نہ ملاتو کہیں انجام عبرتناک ہی نہ ہو سیاست میں تو کہاجاتاہے کہ پہلے مخالف کو خوب ڈرایا جاتاہے وہ نہ ڈرے تو ڈرانے والا خودڈرجاتاہے اب تلک کی پاکستانی سیاست تو یہی ہے سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان میںلاکھوں قیدی جیلوںمیں ہیں ان میں ہزاروں مختلف بیماریوںمیں بھی مبتلاہیں ان کو خوراک اور مناسب طبی سہولتیں بھی میسر نہیں ان کو انتظامیہ سے سینکڑوں شکایات بھی ہوتی ہیں وہ قیدی پھر بھی اس کااظہار نہیں کرتے کہ جیل میں ان کی زندگی کا ذائقہ مزید تلخ ہونا یقینی ہوجاتاہے اور صبر شکر کرکے اپنی قیدکی مدت پوری کر نے کو ترجیح دیتے ہیں لگتاہے اب ان قیدیوںکی سنی گئی ہے اب حالات بدل رہے ہیں پاکستان میاں نواز شریف یاعمران خان کی کوششوںسے کتنا بدلا ہے اس کا فیصلہ وقت کرے گا۔ ویسے نیب کے درجنوں ملزمان یہ سوچ سوچ کرہلکان ہوئے جارہے ہیں اب کیا بنے گا اور جن کے گھروںسے آنے والے کھابے بندکردئیے گئے ہیں وہ چنددنوںتک پلی بارگین پرمجبورہوجائیں گے خدا اتنا بھی کسی کو مجبورنہ کرے ویسے حکومت جیلوںمیں بند لاکھوں قیدیوں کی صحت، خوراک اور اصلاح کے لیے کچھ اصلاحات کرے تو معاشرے میں جرائم کم ہونے میں مدد مل سکتی ہے سارا ریلیف اور وسائل نیب زدہ سیاستدنوں پر صرف کرنا جمہوریت نہیں مہاپاپ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر