... loading ...
پاکستان ہی نہیں تیسری دنیا کے بیشتر پسماندہ ممالک کا حال تقریباً ایک جیساہے ایسے درجنوں ممالک میںلاکھوں قیدی جیلوںمیں بندہیں ان میں ہزاروں مختلف بیماریوںمیں بھی مبتلاہیں ان کو خوراک اور مناسب طبی سہولتیں بھی میسر نہیں ان کو انتظامیہ سے سینکڑوں شکایات بھی ہوتی ہیں وہ قیدی پھر بھی اس کااظہار نہیں کرتے کہ جیل میں ان کی زندگی کا ذائقہ مزید تلخ ہونا یقینی ہوجاتاہے اور صبر شکر کرکے اپنی قیدکی مدت پوری کر نے کو ترجیح دیتے ہیں پھر ان قیدیوںکی اہلخانہ سے ملاقاتوں کی داستان ایک الگ کہانی ہے جس میں بے بسی ،۔اکثر ان کے بجٹ کو خوردبرد کرنے کی خبریں بھی اخبارات میں شائغ ہوتی رہتی ہیں یعنی ان کا کوئی پرسان ِ حال نہیں کیونکہ یہ عام شہری ہیں جن کے حقوق کی آواز کوئی بلندنہیں کرتا کوئی صحافی ان قیدیوں کی حالت ِزارپر کوئی خبرفائل کرتاہے یا کسی ٹی وی چینل کر رپورٹ آتی ہے تو جیلر ناراض ہوجاتے ہیں حکومت کے سرسے پھر بھی کوئی جوںنہیںرینگتی لیکن جمہوریت کو ڈھال بنانے والوں کے سب گناہ اس لیے معاف ہوجاتے ہیں کہ وہ کسی نہ کسی اسمبلی کے’’ معزز‘‘ رکن ہیں خواہ وہ بدترین خائن ہی کیوں نہ ہو۔ ٹیکس چوری، بجلی چوری۔ گیس چوری، منی لانڈرنگ،زمینوںپر قبضے،شراب برآمدگی،ا خلاقی دیوالیہ پن سمیت مختلف نوعیت کے درجنوںمقدمات میں گوڈے گوڈے ملوث ارکان ِ اسمبلی کا کوئی کچھ نہیں بگا ڑ سکتا کیونکہ مقدس کتاب ۔۔اس ملک کاآئین ا شرافیہ کو ٹیٹرا پیک سے بھی زیادہ تحفظ فراہم کرتاہے ۔ اس حوالے سے جیلوں میں بند مختلف الزامات میں قید سیاستدانوں سمیت اپوزیشن اور حکومتی ارکان ِ اسمبلی کے پروڈکشن آرڈرز جاری کردئیے جاتے ہیں جو درحقیقت رہائی کا عارضی پروانہ ہوتاہے حتیٰ کہ منی لانڈرنگ اورکرپشن میں ملوث افراد کو پروڈکشن آرڈر جاری کر دیا جاتا ہے۔
تیسری دنیا کے اکثرممالک میں طاقتور کے لیے قانون الگ اور غریب شہری کے لیے الگ قانون ہوتا ہے جیلوں میں اے کلاس اور پروڈکشن آرڈر لے کر پارلیمنٹ آجانے والے پاکستان میں ایک عام قیدی کے منہ پر طمانچے مار رہے ہیں کوئی تنقید کرے تو کہا جاتاہے جناب یہ جمہوریت کا حسن ہے۔ جو لوگ پروڈکشن آرڈر لیتے ہیں، وہ بجٹ سیشن میں آئے اور زیرو ان پٹ دی جس کے لیے ان کو پروڈکشن آرڈر جاری کیے تھے، جیلیں عبرت کے لیے بنائی جاتی ہیں۔ مجرم کے دل کی دھڑکن کو ٹھیک رکھنے کے لیے 21ڈاکٹرز کی ٹیم ہے جو ان کے دل کی دھڑکن کو دیکھتی ہے، یہاں الٹ کام ہے، ایک بیمار کے لیے سو انار ہیں لیکن وہ مطمئن پھر بھی نہیں ہیں۔ لیکن وہ کونسا مریض ہے؟ جو سری پائے اور ہریسہ کھاتا ہے، یہ غذائیں دل کے لیے کسی صورت بھی مناسب نہیں ہیں اور حکومت کو ان کی صحت کا بڑا خیال ہے۔ اس کا مطلب ہے احتساب مزا دار چیزکانام ہے صورت ِ حال یہ بھی ہے کہ کرپشن اور منی لانڈرنگ کے ملزمان کیلیے خصوصی کمروںکااہتمام کیا جاتاہے جہاں ریفریجریٹر،ائرکنڈیشنڈ،ٹی وی اخبارکی سہولت میسر تھی جیسے وہ سسرال آئے ہوئے ہوں یہ سہولیات اس لیے بھی ہے کہ می آئی پی کرپٹ عناصرکو کچھ ہوگیا تو کہیں احتساب کرنے والے اداروںپر مدھا ہی نہیں پڑ جائے پاکستان میں تو موجودہ حکومت میں شامل آصف زرداری،مولانا فضل الرحمن اور شہباز شریف کی د لی خواہش ہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کو ختم کر دیا جائے ایسا نہ ہو سکے تو اسے سانپ سے کیچوا ہی بنا ڈالیں اس پر کام ہورہاہے یہ اصلاحات جلدنافذہوجائیں گی شنیدہے کہ نیب کو میاں نوازشریف کے دور سے ہی سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا جارہاہے ویسے ہر اپوزیشن رہنما یہی واویلا مچاتاہے جس پر کہاجاسکتاہے کہ کچھ تو اس بات میں صداقت ہوگی کچھ لوگوں کا خیال ہے گرفتاریوں سے تحریکیں ختم نہیں ہوتیں بلکہ انہیں جلا ملتی ہے الزامات سے کوئی ڈاکو چور نہیں بنتا بلکہ چور ڈاکو عدالت سے ثابت ہوتا ہے۔
بہرحال نیب کے نرغے میں آئے ملزمان کو بھی حالات کا اندازہ ہورہاہوگا کہ یہ ادارہ انہی کیلیے بناہے اگر حکومت سے مکا مکا نہ ہو یا این آراو نہ ملاتو کہیں انجام عبرتناک ہی نہ ہو سیاست میں تو کہاجاتاہے کہ پہلے مخالف کو خوب ڈرایا جاتاہے وہ نہ ڈرے تو ڈرانے والا خودڈرجاتاہے اب تلک کی پاکستانی سیاست تو یہی ہے سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان میںلاکھوں قیدی جیلوںمیں ہیں ان میں ہزاروں مختلف بیماریوںمیں بھی مبتلاہیں ان کو خوراک اور مناسب طبی سہولتیں بھی میسر نہیں ان کو انتظامیہ سے سینکڑوں شکایات بھی ہوتی ہیں وہ قیدی پھر بھی اس کااظہار نہیں کرتے کہ جیل میں ان کی زندگی کا ذائقہ مزید تلخ ہونا یقینی ہوجاتاہے اور صبر شکر کرکے اپنی قیدکی مدت پوری کر نے کو ترجیح دیتے ہیں لگتاہے اب ان قیدیوںکی سنی گئی ہے اب حالات بدل رہے ہیں پاکستان میاں نواز شریف یاعمران خان کی کوششوںسے کتنا بدلا ہے اس کا فیصلہ وقت کرے گا۔ ویسے نیب کے درجنوں ملزمان یہ سوچ سوچ کرہلکان ہوئے جارہے ہیں اب کیا بنے گا اور جن کے گھروںسے آنے والے کھابے بندکردئیے گئے ہیں وہ چنددنوںتک پلی بارگین پرمجبورہوجائیں گے خدا اتنا بھی کسی کو مجبورنہ کرے ویسے حکومت جیلوںمیں بند لاکھوں قیدیوں کی صحت، خوراک اور اصلاح کے لیے کچھ اصلاحات کرے تو معاشرے میں جرائم کم ہونے میں مدد مل سکتی ہے سارا ریلیف اور وسائل نیب زدہ سیاستدنوں پر صرف کرنا جمہوریت نہیں مہاپاپ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔