... loading ...
دوستو،سال گزشتہ کی طرح رواں مالی سال کے اقتصادی سروے کی رپورٹ جاری کر دی گئی ہے جس کے مطابق ملک میں گدھوں کی تعداد میں ایک لاکھ کا اضافہ ہوا ہے۔اقتصادی سروے رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے دوران گزشتہ سال کی نسبت گدھوں کی تعداد میں ایک لاکھ کا اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت ملک میں گدھوں کی تعداد 57 لاکھ ہے۔ گدھوں کی تعداد میں مسلسل تیسرے سال اضافہ ہوا ہے۔ رواں سال گھوڑوں کی تعداد چار لاکھ اور خچروں کی تعداد تین لاکھ پر برقرار رہی۔اقتصادی سروے رپورٹ کے مطابق مالی سال 2021-22 کے دوران مویشیوں کی تعداد میں 3.26 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ایک سال میں بھینسوں کی تعداد 13 لاکھ کے اضافے سے چار کروڑ 37 لاکھ ہوگئی۔ بھیڑوں کی تعداد تین لاکھ بڑھ کر تین کروڑ 19 لاکھ، بکریوں کی تعداد 22 لاکھ اضافے سے آٹھ کروڑ تین 25 لاکھ ہوگئی۔ ۔ تو چلیں پھر آج گدھوں پر کچھ اوٹ پٹانگ باتیں کرتے ہیں۔۔
باباجی نے جب یہ اقتصادی سروے رپورٹ پڑھی تو مسکرا کر زیرلب بڑبڑانے لگے کہ۔۔ لگتا ہے،لاہوریوں نے ’’کھوتے‘‘ کھانے بند کردیئے۔۔۔بات ہورہی تھی گدھوں کی۔۔گدھا ایک مشہور و معروف جانور ہے گدھے کو عربی میں’’حمار‘‘،فارسی میں خر اور انگلش میں Donkey کہتے ہیں۔ ویسے گدھے کو جو مرضی کہہ لیں اُسے کوئی فرق نہیں پڑتا ،کیونکہ رہتا تو وہ گدھا ہی ہے۔گدھے عام طور پر بے وقوف ہوتے ہیں اور خاص طور پر وہ ’’گدھے‘‘ ہی ہوتے ہیں جو گدھا بے وقوفی کے اعلیٰ درجہ پر فائز ہو اُسے اصطلاح میں ’’کھوتا‘‘ کہتے ہیں۔ ویسے گدھوں سے زیادہ یہ اصطلاح انسانوں کے لیئے استعمال کی جاتی ہے جبکہ بعض انسانوں کے لیئے تو ’’خر دماغ‘‘کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے۔۔گدھا بھی بڑی عجیب قسمت رکھتا ہے ہم ہر معاملے میں مغرب (امریکا وغیرہ) کی نقالی کرتے ہیں مگر گدھے کے معاملے میں نہیں، یعنی ہم گدھے کو گدھا ہی سمجھتے ہیں اور کسی پر حقارت سے طنز کرنا ہو تو بھی اسے ’’گدھے‘‘ کے لقب سے نواز دیتے ہیں جب کہ امریکا جیسے روشن خیال ملک میں گدھے کو سیاسی پارٹی کا نشان بنا کر عزت و تکریم دی جاتی ہے۔گدھے اور گدھی میں فرق یہ ہے کہ گدھا ہوتا ہے اور گدھی ہوتی ہے۔ گدھا گاڑی میں صرف گدھے کو جوتا جاتا ہے جبکہ گدھی صرف گدھی گیڑ کے کام آتی ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک میراثی نے گدھی پال رکھی تھی۔ وہ جب اس سے ناراض ہوتی تو کان کھڑے کر لیتی اور اسے ایک عدد لات جڑدیتی۔ میراثی نے سوچا کہ ضرور اس کے کان میں کوئی گڑ بڑ ہے جو یہ لات مارنے سے پہلے اظہار ناراضی کے لیے کان کھڑے کرلیتی ہے۔ چنانچہ اس نے ایک دن اس کے دونوں کان درانتی سے کاٹ دیے۔ اس کے بعد جب بھی وہ قریب سے گزرتا وہ اسے لات جڑدیتی، جس پر میراثی بولا کہ کم از کم کانوںسے یہ تو پتا چل جاتا تھا کہ یہ ناراض ہے ۔۔
ایک دُور دراز کے گاؤں میں ایک سیاستدان کی تقریر تھی300 کلو میٹر ٹُوٹی پُھوٹی سڑکوں پر سفر کرنے کے بعد جب وہ تقریر کی جگہ پر پہنچے تو دیکھا کہ صرف ایک کسان تقریر سُننے کے لیے بیٹھا ہُوا تھا۔اس اکیلے شخص کو دیکھ کر سیاستدان کو سخت مایوسی ہُوئی، اور نہایت افسردہ انداز میں کہنے لگے،بھائی، آپ تو صرف اکیلے آدمی آئے ہو، سمجھ میں نہیں آتا کہ اب میں تقریر کروں یا نہیں؟کسان نے جواب دیا۔۔صاحب جی، میرے گھر میں بیس گدھے ہیں، اگر میں انہیں چارہ ڈالنے جاؤں اور دیکھوں کہ ۔۔وہاں صرف ایک گدھا ہے اور باقی دوڑ گئے ہیں تو کیا میں اس ایک گدھے کو بھی چارہ نہ ڈالوں؟ اور اسے بھی بُھوکا مار دوں؟؟
کسان کا بہترین جواب سُن کر سیاستدان بہت خُوش ہُوا، اور ڈائس پر جا کر اس اکیلے کسان کے لیے دو گھنٹے تک پُرجوش انداز میں تقریر کرتا رہا۔تقریر ختم کرنے کے بعد، وہ ڈائس سے اُتر کر سیدھا کسان کے پاس آیا اور بولا،تُمہاری گدھے والی مثال مجھے بہت پسند آئی،، اب تُم بتاؤ، تُمہیں میری تقریر کیسی لگی؟کسان کہنے لگا۔۔صاحب انیس گدھوں کی غیرموجودگی کا یہ مطلب تو نہیں کہ بیس گدھوں کا چارہ، ایک گدھے کے آگے ڈال دیا جائے۔۔ایک دیہاتی کا گدھا مسجد میں گھس گیا۔۔مولوی صاحب بڑے ناراض ہوئے اور گدھے کے مالک کو ڈانٹتے ہوئے کہا۔۔اپنے گدھے کو باندھ کر رکھا کرو، تمہیں پتہ نہیں یہ مسجد ہے۔۔ گدھے کے مالک نے دونوں ہاتھ جوڑتے ہوئے معافی طلب کی اور بھولپن سے کہا۔۔مولبی صیب، بے جبان جناور ہے،غلطی سے مججدمیں آگیا، تیں قسم کھاکے بول، میرے کو کبھی مججد میں دیکھا ہے؟۔۔جنگلی گدھا شہر میں چلاآیا، اس کی ملاقات ایک شہری گدھے سے ہوئی، شہری گدھے نے علیک سلیک کے بعد دل کی بھڑاس نکالنا شروع کی۔۔میرا مالک بہت ظالم ہے گھاس بھی کم دیتا ہے۔ کام بھی زیادہ لیتا ہے۔ اور مارتا بھی ہے۔۔جنگلی گدھے کو یہ سب سن کر بہت افسوس ہوا، اس نے مشورہ دیا۔۔تو تم اس کو چھوڑ کر جنگل کیوں نہیں بھاگ جاتے۔ میرے ساتھ چلو وہاں عیش کی زندگی گزاریں۔ ۔شہری گدھا کہنے لگا۔۔چلتا تو تمھارے ساتھ مگر بس روشن اور سنہرے مستقبل کی امید میں رکا ہوا ہوں۔ دراصل میرے مالک کی بیٹی بہت خوبصورت ہے جسکا پڑھنے میں بالکل دل نہیں لگتا۔ شرارتیں بہت کرتی ہے۔اب اسکے باپ نے کہا ہے اگر اس بار بھی پاس نہ ہوئی، شرارتیں کرنا نہیں چھوڑی تو اسی گدھے سے تمہاری شادی کر دوں گا۔ بس اسی لیے آس لگائے بیٹھا ہوں۔
لکھنؤ کے ایک نواب صاحب کو کسی نے گدھا کہہ دیا۔۔!!نواب صاحب کو یہ بہت ناگوار گزرا اور انہوں نے کورٹ میں کیس کر دیا۔۔۔!جج نے گدھا کہنے والے سے پوچھا تو اس نے اعتراف کرتے ہوئے اپنی غلطی مان لی۔۔اور اپنے کہے پر شرمندہ ہوکر معافی مانگ لی۔۔جج نے نواب صاحب سے کہا نواب صاحب اب تو یہ معافی مانگ رہا ہے آپ کا کیا کہنا ہے۔۔اس پر نواب صاحب معافی کے لیے تیار ہو گئے۔۔ لیکن ایک شرط رکھی کہ اب کسی بھی نواب کو وہ گدھا نہیں بولے گا۔۔!!جج نے مجرم کو بری کردیا۔۔۔۔!!جانے سے پہلے اس آدمی نے جج سے پوچھا۔۔ یور آنر، میں نواب صاحب کو تو قطعی گدھا نہیں بولوں گا لیکن ایک بات بتائیے، گدھے کو تو میں نواب صاحب بول سکتا ہوں کہ نہیں؟جج نے کہا گدھے کو آپ کچھ بھی بولیے، کورٹ کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔۔۔۔!!!وہ آدمی نواب صاحب کی طرف مُڑا اور بولا۔۔اچھا تو’’نواب صاحب‘‘ مَیں چلتا ہوں۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔سیاست دان ’’بندروں‘‘ کی طرح ہوتے ہیں، آپس میں اختلاف ہوجائے تو لڑلڑکرباغ تباہ کردیتے ہیں اور اتفاق ہوجائے تو مل جل کر باغ کھاجاتے ہیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔