... loading ...
یہ حقیقت عمومی طور پرسب تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ پاکستان میں عدم اعتماد کے ذریعے آنے والی تبدیلی کے بعد سے ملک میں مسلسل سیاسی اور معاشی عدم استحکام ہے پاکستان کی ساکھ پر اچھے اثرات مرتب نہیں ہوئے ہیں نہ ہی عوام کو کوئی ریلیف ملا بلکہ مہنگائی اور لوڈشیڈنگ کا عذاب آگیا وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے حالیہ غیر ملکی دوروں کے دوران بعض مسلم ممالک سے جس امداد کی درخواست کی تھی وہ بھی نہ مل سکی بین الا قوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے اب تک قرضہ نہیں ملا حیرت کی بات یہ ہے حال ہی میں وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل جب مذاکرات کے لیے دوہا گئے تو پاکستانی حکام سات ستارے کی عالیشان ہوٹل میں قیام پذیر تھے اور آئی ایم ایف کے حکام تین ستارے والی عام نوعیت کی ہوٹل میں مقیم تھے نئی حکومت کے قیا م کے بعد سے عدلیہ اور دفاعی اداروں پر تنقید میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہوا ہے معیشت کی صحت کا جائزہ لینے والی بین الاقوامی ایجنسی نے پاکستانی معیشت کو منفی ریٹنگ میں شمار کرلیا جس کے بعد ا ب بیرون ملک سے کچھ منگوانے کے لیے بھی پیشگی مکمل ادائیگی کرنی ہوگی زر مبادلہ کے ذخائر مسلسل کم ہورہے ہیں ملک رفتہ رفتہ دیوالیہ ہونے کی طرف بڑھ رہا ہے مسلم لیگ ن کی عوامی حمایت روز بروز کم ہورہی ہے مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی کے اکثر مطالبات ماننے پر مجبور ہے تیزی سے بڑھتی ہوئی حالات کی اس سنگینی اور مہنگائی کی وجہ سے حکومت پر عوام کے غصے سے پیدا ہونے والی صورت حال پر مسلم لیگ ن میں بھی بے چینی ہے پاکستان میں بعض مسلم لیگی حلقوں کاخیال ہے کہ مسلم لیگ ن کے نزدیک اس وقت ملک کے اصل وزیر اعظم شہباز شریف نہیں ہیں بلکہ عملی طور پر نوازشریف وزیر اعظم ہیں کیونکہ مسلم لیگ ن کے اراکین اسمبلی اور پارٹی کے عہدیداروں کی اکثریت ان کی ہدایات کو اولیّت دیتی ہے لہٰذا نواز شریف کو واپس بلا لیا جائے اور انہیں با قائدہ وزیر اعظم بنادیا جائے اس طرح پارٹی موثر انداز میں کام کرے گی اور پیپلز پارٹی کا دبائو بھی کم ہوجا ئے گا اس طریقہ کار کے تحت نواز شریف ملک کے تمام اداروں اور پیپلز پارٹی کے علاوہ باقی ماندہ سیاسی جماعتوں پر اپنا اثرو رسوخ قائم کرلیں گے مسلم لیگ ن کی تیزرفتاری سے ختم ہوتی ہوئی عوامی حمایت پر بھی قابو پایا جاسکے گا ان کی موجودگی میں مولانا فضل الر حمان بھی زیادہ مطمئن ہونگے ا ن کے لیے ملک کاصدر بن جانے کی راہ ہموار ہوگی ایک دوسری سوچ یہ ہے کہ انتخابات کے ذریعے دوبارہ اقتدار میں واپس آنے کی راہ ہموارکی جائے اس کے لیے اتفاق رائے پیدا کیا جائے انتخابات کو مد نظر رکھ کر اسی مطابقت سے نگراں حکومت لائی جائے اس کے لیے بھی ایک نئے وزیر اعظم کی تلاش ہوگی اور وہ مسلم لیگ ن کی مرضی کے مطابق ہو ایک اور رائے یہ ہے کہ اس نظام کو چلنے دیا جائے اورپیپلز پارٹی کی بات تسلیم کرلی جائے آئندہ سال اکتوبر میں انتخابات کرائے جائیں پیپلز پارٹی کے چیئرمین آصف زرداری کی بھرپور کوشش ہوگی کہ پنجاب کی سیاست میں قدم جمائیں اور بلاول بھٹو کو آئندہ سال وزیر اعظم بنانے کے لیے قومی اور بین الاقوامی سطح پر ہرممکن کوشش کی جائے اس سلسلے میں ابتدائی طور پرپی ٹی آئی کی صوبائی حکومتوں کا خاتمہ پنجاب کے بعض اہم عہدوں پر گرفت اور پیپلز پارٹی کے لیے ملک کی صدارت کا عہدہ شامل ہے ایک اندازے کے مطابق بین الاقوامی سطح پر بلاول بھٹو کو گرین سگنل مل گیا ہے دوسری جانب مسلم لیگ کے قائد نواز شریف کی صاحب زادی مریم نواز کی اپنی سزا کے خاتمے اور ناہلی ختم کرانے کے لیے جلد از جلد عدالتی کارروائی کے ذریعے اپنے حق میں فیصلہ چاہتی ہیں اگر انہیں کامیابی مل جاتی ہے تو وہ کسی بھی مسلم لیگی رکن اسمبلی کو مستعفی کراکے اس کے متعلقہ حلقے سے انتخاب میں حصہ لے کر کامیاب ہونے کے بعد قومی اسمبلی میں آجائیں گی اور نواز شریف کی جانشین کے طور پر خود وزیر اعظم بن جائیں گی یاغیر اعلانیہ وزیر اعظم بن جائیں گی اور نواز شریف کی واپسی کی راہ ہموار کریں گی اس طرح کی صورتحال شہباز شریف کو پسند نہیں آئے گی اس لیے وہ اب آہستہ آہستہ آصف زرداری سے زیادہ قریب ہورہے ہیں وہ نوازشریف کو بھی آمادہ کر رہے ہیں کہ انہیں ان کی مرضی کے مطابق کام کرنے دیا جائے اب تک وہ اس کوشش میں کامیاب ہیں پیپلزپارٹی کے لیے ایک اہم مسئلہ متحدہ قومی موومنٹ کے مطالبات کا ہے جس میں متحدہ سندھ کے شہری علاقوں پر مکمل کنٹرول چاہتی ہے یعنی بلدیات ،پولیس ،بلڈنگ کنٹرول، ترقیاتی ادارے،پانی کانظام ایم کیو ایم کے کنٹرول میں رہے آئندہ انتخابات میںوہ قومی کی بیس اور صوبائی کی پینتالیس نشستوںپر ممکنہ کامیابی کی کوشش کریںگے اگراس سلسے میں پس پردہ معاملات طے ہوجاتے ہیں تو پیپلز پارٹی کی رضامند ی سے متحدہ قومی مومنٹ اپنا مقصد حاصل کرسکتی ہے جو ان کے نزدیک ایک بہترین کامیابی ہوگی اگر پیپلز پارٹی نے متحدہ قومی موومنٹ کو بہت زیادہ اہمیت دی تو اس کی اپنی تنظیم پر منفی اثرات ہونگے کم از کم ماضی کا تجربہ یہی ہے آج کے حالات میں پاکستان جس بحران سے گذر رہا ہے اس کا کوئی حل نہ نکالاگیا تو پہلے مرحلے میں مزید عدم استحکام ہوگا دوسرے مرحلے میں فسادات کی آگ بھڑک سکتی ہے افغانستان بھی اس میںدخل انداز ہو سکتا ہے گذشتہ دو ماہ میں ہونے والی خرابی سے صنعت کاروبار اور سرمایہ کاری پر بھی منفی اثرات مرتّب ہورہے ہیںملک کے ایک معروف تجزیہ نگار نے اپنے ٹی وی شو میں بتایاکہ مہنگی بجلی ،گیس اور پٹرول کی وجہ سے صنعتیںاورسرمایہ بیرون ملک منتقل ہوگادنیا کے دیگر ملک سرمایہ کاروں کو سہولیات فراہم کررہے ہیںاسی طرح اعلٰی تعلیم یافتہ اور ہنر مند شہری بھی بیرون ملک چلے جائیں گے پاکستان میں پہلے سے سرمایہ کاری کا بہتر ماحول موجود نہیں ہے ہر دفتر میں رکاوٹ ہے بیرون ملک سے آنے والوں کو کئی مراحل اور رکاوٹوں سے گذرنا پڑتا ہے اب یہ سلسلہ بڑھتا چلاجائے گا موجود ہ حکومت کا دورانیہ اگر طویل ہوا توحالات مزید خراب ہونگے پاکستانی کی سیاسی جماعتوں کو اس بات کا ادراک نہیں ہے کہ اس وقت ملک کی ضرورت ایک ایسا سمجھوتہ ہے جس سے ملک استحکام کی جانب آگے بڑھے لیکن سیاسی جماعتیں کمزور ہیں اور وہ ہر وقت طاقتور اداروں کا سہارا تلاش کرتی ہیں اگر چہ اس وقت موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف گرانڈ ڈائیلاگ کی بات کررہے ہیں لیکن کسی سمجھوتے اور قربانی کے لیے تیار نہیں ہیں وہ اس با ت کا اندازہ نہیں کرہے ہیںکہ ہر گذرتے دن کے ساتھ مہنگائی بڑھ رہی ہے مہنگا ئی سے ہر سطح پر عوام کی پر یشانی میں اضافہ ہورہا ہے حکمراں جماعتیں عوامی حمایت سے محروم ہورہی ہیں بیرون ملک ان پر کوئی اعتبار کرنے کو تیار نہیںہے حالات کی خرابی کے باعث کوئی عوامی طوفان اٹھ کھڑا ہوا تو نتیجہ بہت بڑے فسادات کی صورت میں ہوسکتا ہے خطے کے نازک حالات کی وجہ سے یہ آگ دیگر ممالک تک جا سکتی ہے سوال یہ ہے کہ پاکستانی قیادت کو خطے میں ہونے والے خطرات کا اندازہ نہیں ہے یا تو وہ اسے نظر انداز کررہے یا وہ سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی معمولی سی بات ہے متاثرین عوام ہیںوہ نہیں ہیں (patelrafique25@gmail.com)