... loading ...
کون اقتدار میں آتا اور کون جاتا ہے؟ عسکری قیادت نے یہ اختیار سیاستدانوں کودے کرخودکوسیاسی اکھاڑ پچھاڑ سے الگ تھلگ کر لیا ہے یہ سیاسی استحکام کے لیے نہایت حوصلہ افزاہے کیونکہ پاکستان حساس خطے میں واقع ہے جہاں تقسیم ِہند سے اُسے ایک ایسے دشمن کا سامنا ہے جس نے پاکستان کو کبھی صدقِ دل سے تسلیم نہیں کیا بلکہ آج بھی تقسیم ختم کرنے اور ایک بھارت کے لیے پاک وطن کو کمزور کرنے کی مزموم سازشوں میں مصروف ہے جن کے توڑ کے لیے لازم ہے کہ نہ صرف سپاہ کی جدید خطوط پر تربیت اور اُسے جدیدترین ہتھیاروں سے لیس کیا جائے بلکہ عسکری اِدارے کی تمام تر توجہ صرف دفاع پرہو تاکہ دشمن کی ریشہ دوانیوں کابروقت دندان شکن جواب دیا جا سکے یہ تسلیم کرنے میں عار نہیں کہ 33سالہ براہ راست فوجی اقتدار کے دوران عسکری قیادت سے غلطیاں و کوتاہیاں ہوئی ہیں جس سے اِدارے کی کسی حدتک ساکھ متاثر ہوئی اللہ کا شکرہے کہ حقائق کا ادراک کرتے ہوئے موجودہ عسکری قیادت حکومتیں بدلنے یا سیاستدانوں کو مرضی و منشا کے مطابق چلانے سے دستکش ہوگئی ہے یہ ایسی خوشگوار تبدیلی ہے جس سے نہ صرف آئندہ کسی کو عسکری اِدارے پر اُنگلی اُٹھانے کا موقع نہیں ملے گابلکہ ماضی کی طرح عوام میں قدرو منزلت بھی بحال ہونے کا قوی امکان ہے۔
سیاست میں عسکری اِدارے کی مداخلت کے ذمہ داران کا تعین کرنا آسان نہیں لیکن عیاں حقیقت ہے کہ سیاستدان بھی اِس سے کُلی طور پر بری الزمہ نہیں جو سیاسی مسائل خود حل کرنے کی بجائے اکثر تعاون طلب کرتے ہیں جس سے عسکری اِدارے کو باربارمداخلت کا جوازملا اگرسیاستدان مداخلت کا جواز فراہم نہ کرتے توسیاست میںعسکری کردارنہ ہوتا ملکی منظر نامے پر موجود ہ سیاسی قیادت بھی حیلے بہانوں سے عسکری حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے تاکہ اقتدارمیں آنے کا راستہ ہموار ہو کسی نے اگر اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دیتے ہوئے تین سال کے لیے آنے کا طعنہ دیا تو ایک بیان سے ہی ایسی تھرتھراہٹ پیداہوئی کہ ملک سے ہی بھاگنے کے سوا کوئی چارہ ہی نظرنہ آیا اور پھرہمیشہ رہنے کے دعویدار کو معافی تلافی کے بعد ہی وطن واپس آنے کی ہمت ہوئی کسی نے نتائج کے حوالے سے ویڈیو لنک تقریر کے دوران عسکری قیادت کا نام لیکر انتخابی نتائج بدلنے کاالزام عائد کرتے ہوئے سوال دریافت کیے جلسوں سے خطاب کے دوران باپ بیٹی کا لہجہ اکثر آتشیں رہا لیکن کل کے ناقد آج صدقے واری ہوتے اور فوج کے حق میں بولتے نظر آتے ہیں کیونکہ وہ اب اپوزیشن میں نہیں بلکہ اُن کی جماعت اقتدار میں ہے یہاں سوال یہ پیداہوتا ہے کہ غلطی کہاں ہے؟ اِس کا جواب بہت آسان ہے جس کا مفاد ہوتا ہے وہ تعریف و توصیف کرنے لگتا ہے جس کا مقصد پورا نہیں ہوتا وہ الزام تراشی کے زریعے بلیک میل کرنے کی کوشش کرنے لگتا ہے تاکہ عسکری اِدارہ اُس پر بھی توجہ دے یہ طریقہ کارکسی طوربھی درست نہیں بلکہ سیاستدانوں کی زہنی نا پختگی کا آئینہ دارہے سیاسی رہنمائوں کو بولتے ہوئے توازن والی محتاط گفتگو کرنی چاہیے تاکہ مستقبل میں کبھی شرمندگی نہ ہو۔
آجکل ماضی کی بہ نسبت حالات یکسر تبدیل ہو چکے ہیںسوشل میڈیانے دنیا کواِس حدتک قریب تر کر دیا ہے کہ ریاستی سرحدیں بھی بے معنی ہو کررہ گئی ہیں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سیاسی رہنما بدلے حالات کا ادراک کرتے ہوئے خود کو ماحول کے مطابق ڈھالتے لیکن حالات سے ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ سیاسی قیادت نے ماضی کی غلطیوں سے کچھ سبق حاصل کیا ہے البتہ اتنی تبدیلی ضرور آئی ہے جہاں کبھی پی پی اور ن لیگ سو شل میڈیاپر عسکری قیادت کو ہدفِ تنقید بناتی تھیں اب وہ تو اقتدار میں ہونے کی بناپر بڑھ چڑھ کر عسکری اِدارے کی حمایت کرنے لگی ہیں لیکن تحریکِ انصاف جب سے اقتدار سے بے دخل ہوئی ہے نے عسکری قیادت کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کردیا ہے وہ اِس بات پربھی خفا ہے کہ نیوٹرل کیوں ہے ؟ حالانکہ اگراِدارہ سیاست میں مداخلت کرنے کی بجائے غیر جانبدارہوا ہے تو خفا ہونے کی بجائے تحسین ہونی چاہیے لیکن سابق حکمران جماعت پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم نے عسکری قیادت کے خلاف مسلسل محاز کھول رکھا ہے اور منظم طریقے سے بلاجوازہی مخالفانہ مُہم شروع کر رکھی ہے یہ مُہم عسکری اِدارے کی ساکھ سے کھیلنے کے مترداف ہے جسے فوری طورپرروکنا اور آئندہ کسی کو ایسی کاروائی سے باز رکھنا نہایت ضروری ہے۔
ذرائع ابلاغ محدود سے لامحدودہوگئے ہیں اخبارات ،ریڈیو اور ٹی وی کے علاوہ سماجی رابطوں کے وسیع زرائع ہیں جہاں مکمل طورپرسب کواظہارکی آزادی ہے کوئی فرد جو کہنا چاہتا ہے نہ صرف کہہ سکتا ہے بلکہ تشہیر بھی کر سکتا ہے اور اِس حوالے سے اُسے کسی قدغن کا سامنا نہیں کرنا پڑتایہ سماجی رابطے کی ویب سائٹس پوری دنیا میں مقبول ہیںلیکن کہنے کو تو یہ ایک فرد کو طاقتور بناتی اور اظہار کا زریعہ ہیں لیکن اندھا دھند استعمال سے طلبا کا نہ صرف تعلیمی حرج ہو رہا ہے بلکہ دیگرکئی قسم کے نقصانات بھی سامنے آرہے ہیں نیز یہاں متعصب اور انتہا پسند بھی بڑی تعداد میں سرگرم ہیں اِن کے ذریعے وطن دشمن عناصر انارکی پھیلاتے ہیں پاکستان جیسے نظریاتی ملک کو سماجی رابطے کے ذرائع کو مادرپدرآزادچھوڑنے کی بجائے نظریاتی اساس کا پابند بنانا چاہیے نیز اِداروں کے خلاف نفرت انگیز مُہم کی حوصلہ شکنی کرنے کی ضرورت ہے لیکن ایسے عناصر جو صبح وشام اِداروں کوبدنام کرنے میں مصروف ہیں اُن کا محاسبہ کرنے کے لیے مناسب لائحہ عمل ترتیب دینے کی طرف کسی کا دھیان نہیں عسکری قیادت اور عدلیہ کے خلاف ایسا ایسا توہین آمیزمواد پھیلایا جا رہا ہے جو کسی صورت بھی ملک و قوم کے مفاد میں نہیں لیکن شاید اِسے جان بوجھ کر نظر اندازکیا جارہا ہے یہ پالیسی کسی صورت قابلِ تحسین نہیں یادرکھیں خطرات کا احساس نہ کرنا بھی کوتاہی اور نااہلی ہے۔
ماضی میں حکومتوں کو گرانے کے لیے پی پی ہو یا مسلم لیگ ن،دونوں نے اِداروں کے تعاون سے جوڑ توڑ کیا مگر اب اِس میں شائبہ نہیں کہ سیاسی معاملات سے عسکری قیادت نے آئینی تقاضوں کے مطابق فاصلہ رکھنے کی پالیسی اپنا لی ہے لیکن کچھ سیاسی کارکنوں کو یہ غیر جانبداری پسند نہیں آرہی وہ ایس آئی قیادت جیسے فوج کے حساس عہدے بارے بھی گمراہ کُن پراپیگنڈہ کررہے ہیں جس میں کچھ نام نہاد لبرل صحافی بھی پیش پیش ہیں جن کا اِداروں کونوٹس لیا جا نا چاہیے سوشل میڈیا کے زریعے حساس اِداروں کے بارے نامناسب اور تضحیک آمیز پوسٹیں کسی صورت آزادی اظہارکے زمرے میں نہیں آتیں بلکہ یہ ملک میں بدامنی کو ہوادینے کی منظم سازش ہے ایسی مُہم کے پیچھے بھارت و دیگر وطن دشمن طاقتوں کا ہاتھ ہونا بعید ازقیاس نہیںسماج دشمن اور انتشار پسند عناصر عوام کے دلوں سے اِداروں کی محبت ختم کر نا چاہتے ہیں ایسے عناصر پرکڑی نگاہ رکھنے اور اُنھیں لگام دینے کی ضرورت ہے یادرہے عوام اپنی سپاہ سے بے پناہ محبت کرتے ہیں یہی محبت اغیارکے کارندوں کو گوارہ نہیں اسی نفرت کی وجہ سے عسکری قیادت کا کردار مشکوک بنایا جارہا ہے ضرورت اِس امرکی ہے کہ چاہے کوئی کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو یا کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتا ہووہ کون ہے کا ٹرینڈ چلانے اورعوام کے محبوب اِدارے کی ساکھ ختم کرنے کی کسی کو کھلی چھٹی دینا ریاستی مفاد کے منافی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔