... loading ...
میری اس سے ایک ہوٹل میں ملاقات ہوئی تھی کبھی کبھی حوادث ِ زمانہ سے گبھرا کر میں ایک ڈھابا ٹائپ ہوٹل میں گھنٹوں بیٹھ کر تلخی ٔ ایام کو چائے کبھی کافی کی پیالیوں گھول کر پینے کی کوشش کرتا اس دن نہ جانے کیوں خلاف ِ معمول ڈھابا میں بڑا رش تھا میں چائے کی چسکی لیتاہوا فضا میں دور کہیں خیالوںمیں کھویا ہوا تھا کہ ایک آواز سماعت پر حاوی ہوگئی کسی نے بڑے مہذب اندازمیں پوچھا تھا جناب میں یہاں بیٹھ سکتاہوں وہ نہ بھی پوچھتا تومیں کون سا ڈھابے کا مالک تھا میں نے ایک نظر اسے دیکھا چہرے پر مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے جواب دیا جناب تشریف رکھیں وہ ایک عام سا شخص تھا لیکن اس کی شخصیت میں عجب کشش تھی۔میں نے کہا آپ نے میری میزکاانتخاب کیا ہے تو یہ میرے لئے اعزازکی بات ہے اس لحاظ سے آپ میرے مہمان ہیں کیا پسندفرمائیں گے۔ ‘‘ یہاں تو سب ہی مہمان ہیں ۔۔ اس نے کمال کا فلسفہ بگھاڑتے ہوئے کہا میں تو کبھی کبھاریہاں چائے پینے کے لئے آتاہوں آج بھی چائے ہی پیئوں گا آپ کا مہمان بننا خوب رہا۔ ابھی چائے سرو نہیں ہوئی تھی کہ وہ بڑبڑا ۔۔۔ عوام نے ٹھیکہ نہیں لیا ہوا کس بات کا۔۔ میں نے استفسارکیا اس نے سنی ان سنی کرتے ہوئے مٹھی بھینجتے ہوئے پرجوش لہجے میں کہا میرے بس میں ہو توگریڈ17 سے لے کر وزیراعظم تک تمام لوگوں کی مراعات ہنگامی بنیادوںپر ختم کر دوںغریبوں نے ٹھیکہ نہیں لیا ہوا ایک سے بڑھ کر ہڈحرام،نکمے، ویلے اس ملک کو جونکوںکی طرح چمٹے ہوئے ہیں ۔۔ وہ بولا تو پھر بولتا ہی چلا گیا یہ ہٹے کٹے خود کفیل، کروڑ پتی ارب پتی سیاستدان، بیوروکریٹس، سرکاری افسر ان اور اسٹیبلشمنٹ کا آخرہم کب تلک بوجھ اٹھاتے پھریں گے؟
’’ہم کربھی کیا کرسکتے ہیں میں نے لقمہ دیا
’’ہم آواز اٹھا سکتے ہیں وہ بولا لوگوںکو شعوردلاسکتے ہیں اپنے حق کے لیے آواز نہ اٹھانے والے بزدل ہیں ،منافق ہو اور انہی کی وجہ سے اشرافیہ ہمارے ٹیکسزکے پیسوں پر عیاشیاں کرتی پھرتی ہے ۔ اس نے میز پر مکہ مارتے ہوئے کہا آئی ایم ایف کے قرضوں کی ذمہ دار خود غرض بے حس اشرافیہ ہے میں اور آپ نہیں ذرا سوچئے اور مکمل سوچئے۔۔۔ ایک دیہاڑی دار اپنی کمائی سے 210 روپے لیٹر پٹرول خریدیگا تو ماہانہ لاکھوں روپے قومی خزانے سے لینے والے صدر، وزیراعظم، وزیر اعلیٰ، وزیر،مشیر، آرمی افسران، ججز، بیوروکریٹس کو بھی مفت پٹرول ملنا بند ہونا چاہئے اگر معیشت کو بہتر کرنا ہے ور آئی ایم ایف کی غلامی سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے تو اس اشرافیہ کو ملنے والی سبسٹڈی ختم کرنا ہو گی،کچھ تو قربانی دینا ہوگی فرض کریں اگر پاکستان میں 20000 افراد کو پٹرول فری کی سہولت میسر ہے اور اگر ایک آفیسر ماہانہ 400 لیٹر پٹرول استعمال کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت کو ماہانہ 80لاکھ لیٹر پٹرول فری دینا پڑتا ہے جس کو خریدنے کے لیے ماہانہ تقریباً 50لاکھ ڈالر درکار ہوں گے۔ یہی ہے وہ ناسور جو ملک کو IMF کے چنگل سے آزاد نہیں ہونے دیتا۔ ہر حکمران اور اشرافیہ صرف عوام کو قربانی کا بکرابنانا چاہتی ہے وہ خود کوئی قربانی نہیں دینا چاہتی نہ کوئی اپنی مراعات سے دستبردارہونے کو تیار ہے یار یہ لوگ کچھ تو خدا کا خوف کریں جناب آپ کی سیاسی پارٹیوں سے وابستگی اپنی جگہ لیکن اب یہ: ملک کی اشرافیہ کا فری پٹرول بند ہونا چاہئے۔ اشرافیہ کے فری بجلی کے یونٹ بند ہونے چاہیئں۔ اشرافیہ کے فری ہوائی ٹکٹ بند ہونے چاہیئں۔ اشرافیہ کا یورپ و امریکا میں فری علاج بند ہونا چاہیے۔ اشرافیہ کے حکومتی کیمپ آفس ختم ہونے چاہئیں۔ اشرافیہ کو 6، 8،10 کنال کے گھر الاٹ ہونے بند ہونے چاہئیں۔ غیر ضروری تمام سرکاری گاڑیاں نیلام ہونی چاہئیں یقین کریں تمام سرکاری گاڑیاں ویک اینڈ پر نادرن ایریاز میں سیر وتفریح کر رہی ہوتی ہیں ۔ کیا آپ جانتے ہیں وزیراعظم کے دوست ممالک کے پانچ طوفانی دوروں پر وزارت خارجہ کی ہفتہ وار بریفنگ میں صحافی نے سوال کیا کہ پاکستان کے معاشی بحران کے تناظر میں ان دوست ممالک سے کتنی امداد کے امکانات روشن ہوئے ہیں۔ جواب ملا “یہ تناظر ہی غلط ہے یہ دروے امداد کے حصول کے لئے نہیں تھے”۔ یہ واضح اور دوٹوک انکار کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ سعودی عرب نے ادھار تیل وغیرہ سے انکار کیا۔ امریکابھی تیل کی دھار دیکھ رہا ہے چین جائزہ لے رہا ہے کہ ان تلوں میں کچھ تیل ہے بھی یا نہیں۔ ترکی بے چارہ کیا مدد کرے گا سوائے اس کے کچرہ اٹھانے والی کمپنی اور کارکے بجلی گھر سے پھر کمیشن اٹھائی جائے۔ بندر کے درختوں پر ادھر ادھر چھلانگیں لگانے کی مثال تو آج کے حکمرانوں پر صادق آتی ہے یہ چھلانگیں ہی ان کے نزدیک ترقی کا پیمانہ ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔